امریکہ، طالبان مذاکرات دوبارہ بحال

پیر 9 دسمبر 2019

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کاسلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے یاد رہے اس سے پہلے بھی دونوں فریقین کے مابین مذاکرات ہوئے تھے جو بغیر کسی نتیجے کے ملتوی ہو گئے ۔ اب یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان ذرائع بھی اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں ۔ امریکہ اٹھارہ سال سے افغانستان میں جنگ لڑ رہا ہے سپر پاور ہونے کے باوجود یہ جنگ نہ جیت سکا اور اب افغانستان سے نکلنے کیلئے محفوظ راستہ تلاش کر رہا ہے ۔


پہلے مذاکرات بھی اسی لیے ناکام ہوئے کیونکہ اب امریکہ چاہتا ہے کہ وہ افغانستان سے نکلے تو اس انداز سے نکلے کہ اپنی کامیابی کے نقارے بجاتا جائے اور طالبان پوری طرح امریکی دباوٴمیں اور بے بس نظر آئیں ۔امریکہ وہاں سے نکل بھی جائے اپنی کامیابی کے شادیانے بھی بجاتا جائے جبکہ دوسری طرف طالبان اپنا برعکس نظریہ رکھتے ہیں ، طالبان کا ماننا ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں لہٰذا اپنی کامیابی کے ماتھے پر ناکامی کا دھبہ نہیں لگنے دینگے ۔

(جاری ہے)

جنگ کے اختتام پر فتح کے نقارے ہم بجائیں گے اور ساری دنیا دیکھے گی کہ ہم نے سپرپاور کو شکست دی ۔ 
یہ وہ بنیادی نقطہ تھا جو دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے ڈیڈلاک اور ناکامی کا باعث بنا لیکن اب یہ مذاکرات ایک بار پھر سے ہونے جا رہے ہیں تو دیکھنا یہ ہو گا کہ اس بنیادی نقطے پر کون نرمی دکھاتا ہے اور کون اس پر ڈٹا رہتا ہے ۔ افغان مسلے کا واحد حل مذاکرات ہیں جنگ نہیں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بہت عرصہ پہلے ہی کہہ دیا تھا لیکن امریکہ کو اتنی سی بات سمجھنے میں اٹھارہ سال لگ گئے اور وہ بھی اپنی چاروں طرف ناکامی دیکھ کر ماننا پڑا کہ اس مسلے کا حل مذاکرات ہی ہے ۔

اٹھارہ سال بعد عمران خان کے موقف کو تقویت ملی تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کر دی جو انہوں نے قبول کر لی ،افغان مسلے کے حل اور خطے میں امن کی خاطر پاکستان ا پنا کردار ادا کر رہا ہے ۔
 خطے میں امن خاص طور پر افغانستان میں دیر پا امن پاکستان کے حق میں ہے لیکن اب امریکہ شاید پاکستان کی چائنہ سے بڑھتی قربتیں دیکھ کر خفا لگتا ہے ،اسی لیے سی پیک پر تحفظات ظاہر کیے ہیں اور کئی بار سی پیک معاہدے کی کاپیاں بھی مانگ چکا ہے ۔

اپنی افغانستان میں مسلط کی گئی جنگ میں پاکستان کو ثالث بنا کر اسی کے معاشی و تجارتی معاہدوں پر تحفظات کر کے امریکہ ہمارا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کر رہا ہے اور اس کا اندازہ امریکہ کو بھی ہونا چاہئے ۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے احمق ترین صدر ہیں ایسا ہم نہیں بلکہ خود امریکی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے اور ایسا امریکی صدر اپنی حرکتوں ، بیانات اور پالیسیوں سے ثابت بھی کر چکے ہیں ۔

 ایک طرف تو امریکی صدر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خواہاں ہیں دوسری طرف افغانستان پر سفارتی و تجارتی پابندیاں بھی قائم رکھنی ہیں اور آنکھیں الگ سے دکھانی ہیں ۔اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے مسلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرتا ہے اور پھر مودی کو دیکھ کر اسلامک دہشتگردی کا راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے ۔ سارا مغرب اسلاموفوبیا کا شکار ہے اس کی روک تھام کرنے کی بجائے اسلام پر دہشتگردی کا الزام لگاتا ہے ، فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے والا اسرائیل امریکی صدر کا درینہ دوست ہے جس کا وہ اقرار بھی کرتے ہیں ۔ منافقت کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں جنہوں نے ساری دنیا خصوصاً اسلامی دنیا کو متاثر کر رکھا ہے ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :