سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا انصاف کےمنتظر!

پیر 17 فروری 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

یوں تو برضغیر پاک و ہند کی تاریخ میں انگریز حکومت میں ہی ریاستی تشدت و قتل عام کا منظر نظر آتا ہے۔ جلیانوالہ باغ کا وہ تاریخی سانحہ تاریخ کی سیاہ باب تھا۔ آزادی پاک سے قبل میڈیا اس قدر آزاد اور پھیلا ہوا نہیں تھا مگر اب ہر ہر پل کی خبر عوام تک باآسانی پہنچ جاتی ہے۔ حالیہ دہائی میں اگر ریاست تشدت و ظلم کی داستان کو بتانا چاہوں تو 17 جون 2014 پاکستانی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جس کو شائد نہیں بھلایا جاسکتا۔


یہ وہ دن تھا جب لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے باہر 14 لوگوں کو پولیس کی جانب سے گولیاں مار کر شہید کیا گیا تھا اور 100 سے زیادہ لوگوں کو زخمی کر دیا گیا تھا۔یہ قصہ ایک دن پر میسر نہیں تھا بلکہ 16،17 جون کی درمیانی شب پولیس منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کا گھراو کرتی ہے اور بئیرر ہٹانے کے ریاستی حکم نامے سے آگاہ کرتی ہے۔

(جاری ہے)

مگر ادھر تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ۔شیخ زاہد فیاض حسین و عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور پولیس والوں کو لاہور ہائی کورٹ کا حکم نامہ دکھاتی ہے جس کی بنیاد پر بیریر لگاے گئے تھے مگر ساری رات پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنان کے درمیان جھڑپیں ہوتی ہیں۔آنسو گیس چلتا ہے تو ادھر سے پھتراؤ ہوتا نظر آتا ہے۔ٹی۔وی چینلز یہ معاملہ براہ راست دکھا رہے ہوتے ہیں۔

صبح 11 بجے شہادتوں کی خبر آتی ہے جس کی گونج اسلام آباد پارلیمنٹ سے صوبائی اسمبلی پنجاب میں بھی سنائی دیتی ہے۔
قوم و ملک کے لیے بلخصوص ریاست کے لیے 17 جون 2014 کا دن سیاہ ترین ثابت ہوتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان واپسی بھی ہوتی ہے ور ہم دیکھتے ہیں عمران خان صاحب ور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب دنوں کا رخ اسلام آباد کی جانب ہوتا ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری مارچ کے نتیجہ میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر حکومت وقت کے خلاف ایف۔

آئ۔آر ہی درج کروا پاتے ہیں۔اس کے بعد معاملہ عدالتوں کے ساتھ ساتھ احتجاج کی صورت مب نظر آتا ہے۔ عمران خان، آصف زرداری، سراج الحق، مصطفیٰ کمال، ایم۔کیو۔ایم پاکستان بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن انصاف کے مطالبہ پر ڈاکٹر طاہر القادری کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔
2014 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، جسٹس باقر علی نجفی پر مبنی یک رکنی جوڈیشل کمیشن بناتے ہیں اور اس بات کا پریس کانفرنس میں اعلان کرتے ہیں اگر اسکا ذمہ دار مجھے ٹھہرایا جاتا ہے تو میں ایک سیکنڈ میں مستعفی ہو جاؤں گا۔

ہم دیکھتے ہیں باقر نجفی رپورٹ کو پھر کتنے عرصہ کے لیے دبایا جاتا ہے۔ اسی طرح 2019 میں ڈاکٹر طاہر القادری اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے پاس نئی جے۔آئ۔ٹی بنوانے کا کیس لے کر جاتے ہیں تو پنجاب حکومت نئی جے۔آئ۔ٹی بنانے پر رضا مند ہوتی ہے۔ یہ وہ واحد جے۔آئ۔ٹی تھی جس نے نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق و دیگر فریقین سے بھی تحقیقات کرتی ہے مگر پھر ہم دیکھتے ہیں کہ 80 فیصد کام مکمل کرنے والی جے۔

آئ۔ٹی کو ن لیگ کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کام کرنے سے روک دیتی ہے۔ یہ مقدمہ اس قدر سستی کا شکار ہوتا ہے کہ آج ایک سال سے جے آئ۔ٹی کا کیس طوالت کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ 14 شہدا جن میں 2 خواتین جبکہ ایک حاملہ خاتون بھی شامل تھیں انکے وارثان کس قرب سے گزر رہے ہوں گے۔ 5 سال سے ان لوگوں کو انصاف نہیں ملا۔ وہ کسی سیاسی و مذہبی جماعت کے کارکنان چاہنے والے بعد میں تھے مگر اس ریاست کے شہری پہلے تھے۔

میں ان شہدا کی بات کررہا ہوں جن کے گھرانے غریب تھے مگر انہوں نے اس وقت کی حکومت سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا اور آج تک صبر قدم ہیں۔ یہاں میں ڈاکٹر طاہر القادری  کا ذکر لازمی کرنا چاہوں گا جنہوں سے اس واقعہ اور شہیدوں کو 5 سال تک زندہ رکھا۔شائد پاکستان کی تاریخ میں پہلا سیاسی قائد ہے جو مسلسل اپنے کارکنان کے انصاف کے لیے احتجاج بھی کرتا ہے رہا تو ساتھ ساتھ قانونی محاذ پر وکلا بھی کرتا رہا اور ان کی فیسیں بھی بھرتا رہا۔

میری معلومات کے مطابق منہاج القرآن کے سربراه ڈاکٹر طاہر القادری خود وکلا کی قانونی ٹیم کی مانیٹرنگ بھی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ روزانہ کی قانونی و عدالتی پیش رفت سے آگاہ رہتے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری جہاں احتجاج سے پریشر ڈالتے رہے ویسے ہی قانونی طور پر وکیل بھی کرتے رہے۔

قانونی جنگ کی بات کروں تو 2019 میں ڈاکٹر طاہر القادری، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار وآصف سعید انور  کھوسہ کو دلائل دیتے ہوے حکومت پنجاب کی مرضی سے ایک نئی غیر جانب دار جے۔آئ۔ٹی تشکیل کروای تھی۔ ہم نے دیکھا کہ یہ پہلی جے۔آئی۔ٹی تھی جس نے نواز شریف، شہباز شریف، خواجہ اصف، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ سمیت دیگر فریقین جن میں منہاج القرآن کے لوگ بھی تھے کے بیانات قلمبند کرواے۔

اس جے۔آئی۔ٹی نے کم و بیش 80 فیصد اپنا کام مکمل کیا تو ن لیگ نے لاہور ہائیکورٹ میں جے۔آئ۔ٹی کو چیلنج کر دیا جو آج تک چیلنج ہے اور جے۔آئ۔ٹی کو کام سے روک دیا گیا۔گزشتہ چند روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے جب جے۔آئ۔ٹی سے متعلق سماعت کی تو معزز جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے۔آئ۔ٹی کو کام کرتے رہنا چاہئیے۔یہ معاملہ تو جسٹس ر ثاقب نثار کے دور میں مکمل ہوگیا تھا۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ماز عدالت عظمیٰ اپنا فیصلہ سناتی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نیا بینچ بناے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا 2 ماہ میں فیصلہ کرے۔ گویا انصاف کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے اب دیکھنا یہ کہ آیندہ 2 ماہ میں لاہور ہائیکورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔آیا فیصلہ متاثرین کو انصاف فراہم ہوگا یا مزید مشکلات ہونگی۔ میری اطلاعات کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن پر احتجاج کرنے والے 107 لوگوں کو 5 اور 7 سال کی جیل ہو چکی ہے اور یہ گزشتہ حکومت کے بناے ہوے مقدمات تھے۔

موجودہ حکومت اب تک ان مقدمات کو ختم نہیں کرسکی اور انکے سیاسی کزن اب تک انصاف کے منتظر ہیں۔ کسی کو برین ٹیومر ہوتا ہے تو کبھی ہتھکڑیوں میں علاج۔ ساڑھے پانچ سال ہو گئے مگر اس سانحہ کا انصاف آج تک نہیں مل سکا۔ میری ذاتی راۓ میں ڈاکٹر طاہر القادری کی ریٹائرمنٹ سے عوامی تحریک و سانحہ ماڈل ٹاؤن کو نقصان پہنچا۔ طاہر القادری کے بغیر عوامی تحریک میں نا جان ہے اور نا پہچان۔ علامہ صاحب اپنی ریٹائرمنٹ کا خود بہتر جانتے ہوں گے مگر ریاست کو بھی ان 14 شہدا کے خون کا انصاف کرنا ہوگا ورنہ وقت اور روز محشر اللہ‎ معاف نہیں کرے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :