موجودہ سیاسی منظر نامہ

بدھ 16 جنوری 2019

Hussain Jan

حُسین جان

کچھ دن پہلے کی اطلاع ہے کہ تحریک انصاف نے سابق صدر جناب آصف علی زرداری کے خلاف نااہلی کی درخواست واپس لے لی ہے۔ اب یار لوگ پھر بولیں گے کہ تحریک انصاف نے ایک اور یوٹرن لے لیا۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے تحریک انصاف کے بھائی اس کے لیے بھی کوئی نا کوئی دلیل نکال لائیں گے۔ 
اگر ملک کی موجودہ صورتحا ل کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتاہے کہ معاملات بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں۔

میاں نواز شریف اور شہباز شریف جیل میں جبکہ ن لیک کے دوسرے لیڈران نیب میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بلاول بھٹو اور سید مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے دا حکم دیا ہے۔ بہت سے سیاستدان کہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت انتقام کی سیاست کر رہی ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کا کہنا ہے ہم نے ملک میں انتقامی سیاست کو دفن کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

ایک طرف وزراء لچک کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالا جاتا ہے۔جس جس جماعت کے لوگوں پر کرپشن کے کیسز بنے ہیں وہ واویلا کر رہی ہیں کہ ہم سے انتقام لیا جارہا ہے۔ اور مخصوص طبقہ کچھ لوگوں کو سیاست سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زیادہ تر سیاستدان سیاسی انتشار کا ذمہ دار فوج کو ٹھہراتے ہیں مگر کبھی کھل کر بات نہیں کرتے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کڑے احتساب کا نعرہ لگاہ کر اقتدار میں آئی ہے۔ اُس کے لیڈران خاص کر عمران خان نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر سیاستدانوں سمیت سب کا احتساب کریں گے۔ پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ احتساب کا عمل صرف دو سیاسی جماعتوں کی طرح موڑ دیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ لوگ کرپشن میں ملوث ہوں لیکن پہلی بات تو یہ کہ ابھی تک کسی بھی سیاستدان کے خلاف کوئی کیس فائنل نہیں ہو ا۔

یعنی روایتی طریقوں سے التوا کا شکار کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے تحریک انصاف میں بھی بہت سے کرپٹ لوگ موجود ہیں ۔ جو ماضی میں کسی نا کسی طرح کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔ اُن میں سے جہانگیرترین کو تو عدالت نے نااہل بھی قرار دیا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ ہر وقت عمران خان کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے اگر وہ کسی عوامی عہدہ کے اہل نہیں رہے تو اُنہیں کسی سیاسی جماعت میں بھی دخل اندازی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

 
ایک بات دیکھنے میں آئی ہے کہ احتساب کا عمل دوسرے ممالک میں بہت تیزی کے ساتھ چلتا ہے ۔ مگر پاکستان میں یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔ لہذا حکومت کے لیے یہی بہت ہے کہ وہ احتساب کے عمل کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل پر بھی توجہ دے۔ ملک میں مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکا ہے۔ ضرورت کی ایشاء عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھر کردیاہے۔

اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ تحریک انصاف کو حکومت میں آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ۔ اور اتنے قلیل عرصے میں ملکی حالات بہتر نہیں ہوتے۔ مگر حکومتی اقدامات تو نظر آنے چاہیں تاکہ عوام کو کچھ تسلی ہو۔ 
اگر تحریک انصاف ملک کی مقبو ل سیاسی جماعت بننا چاہتی ہے تو اس کو وہ کام کرنا ہوں گے جو اس سے پہلے کسی بھی برسر اقتدار سیاسی جماعت نے نا کیے ہوں۔

پاکستان میں عوام کی اکثریت تعلیم سے نابلد ہے۔ لہذا لوگ آئین اور اس میں کی گئی ترامیم میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ اس لیے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو چاہیے کہ مہنگائی کو قابو میں کریں۔ لوڈشیڈنگ اور صحت جیسی سہولیات عوام کو مہیا کریں۔ اسی سے عوام میں مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ 
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے جب بھی کسی سیاستدان پر کوئی مقدمہ بنتا ہے تو وہ واویلا کرنا شروع کردیتا ہے کہ یہ سیاسی انتقام ہے۔

جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوتی ۔ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بیانیہ بھی بدل جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب شہباز شریف صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ عوام کا پیسہ پیٹ پھاڑ کر نکالیں گے۔ آج وہی میاں صاحب زرداری صاحب کے سگے بھائی بنے ہوئے ہیں۔

 
اس کے ساتھ ساتھ مقامی سیاسی جماعتیں بھی کسی سے کم نہیں کہنے کو تو یہ لوگ عوام مسائل حل کرنے کے لیے سیاست میں آئے ہوتے ہیں مگر یہ سب جانتے ہیں کہ سب کو اپنا اپنا مفاد عزیز ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو ہی لے لیں۔ اُن کی سیاسی جماعت ایک مذہبی جماعت ہے۔ جس میں سیاست کا محور مذہب ہونا چاہیے ۔ ایسی سیاست میں لبرل الزم کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ مولانہ صاحب زرداری کے در پر بار بار جارہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اُن کو رازی کر لیں اور میاں براداران کے ساتھ مل کر حکومت وقت کے خلاف گرینڈ الائنس بنایاجاسکے۔ 
دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اقتدار حاصل کرلیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی ناکامی پر وہ لوگ کسی نہ کسی کو موردالزام ٹھہرا دیتے ہیں۔

اور زیادہ تر یہ الزام پاک افواج کو دیا جاتا ہے۔ اب اگر اس پیرائے میں دیکھیں تو سیاسی صورتحال بہت گھمبیر دیکھائی دیتی ہے۔ ایک دوسرئے کی ٹانگیں کھینچنا ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے۔ اگر صورتحال ایسے ہی رہی تو عوامی مسائل کبھی حل نہیں ہو پائے گے۔ اور یہ جو لوگ بہتری کے خواب دیکھ رہے ہیں کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکیں گے۔ جب تک عوام مے شعور کی لہر نہیں اُٹھتی یہ سیاستدان اور دوسری قوتیں مل کر عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :