پاکستان اور وسطیٰ ایشیاء کے تعلقات طویل مدٌتی یا قلیل مدتی؟

جمعہ 4 جون 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

تاجکستان کے صدر ایمومالی راحمون تاجکستان کے 1991 میں سوویت روس کے ٹوٹنے کے بعد جب 1994 میں نیا آئین تشکیل دیا گیا اس کے نتیجے میں تاجکستان کگ صدر بنے۔ اور وہ تب لیکر اب تک تاجکستان کے صدر ہے جو اس وقت سے اب تک پاکستان کے تقریباً سات مرتبہ دورہ کرچکے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ انکا دورہِ پاکستان نہایت ہی اہم ہے جس سے پاکستان اور وسطیٰ ایشیائی ممالک کے درمیان تعلقات مزید پروان بھی چڑھ سکتے ہیں اور اس میں بگاڑ بھی آسکتا ہے اگر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی موجودہ مفاد کے بجائے دور رس فوائد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیتا ہے۔


تاجکستان کی حال ہی میں کرغیزستان سے ہونے والی سرحدی جھڑپیں عالمی خبروں میں گردش کررہی تھی جس میں دونوں ممالک کے افواج نے ایک دوسرے پر شدید فائرنگ اور گولہ باری کرکے سرحد کے دونوں طرف شدید نقصان پہنچایا۔

(جاری ہے)

جوزف اسٹالن نے جو تقسیم کا بیج آذربائجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کاراباخ کے خطے کا مسئلہ پیدا کرکے بویا تھا وہی حکمتِ عملی وسطی ایشیائی ممالک میں بھی اس نے مختلف محصوروں کے قیام سے اپنائی تاکہ مستقبل میں انہیں انہی مسئلوں پر لڑواکر روس کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔

ان محصوروں میں ایک ہے وورخ محصورہ جو ہے تو تاجکستان کا حصہ مگر یہ واقع کرغیزستان میں ہے جس پر آج کل ان دونوں ممالک میں رسہ کشی جاری ہے۔ جوزف اسٹالن کو اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ کبھی سویت یونین کا شیرازہ بکھرے گا اور ان کے بوئے ہوئے یہی مسائل روس کے ہی سر پر نزلہ بن کر گریں گے۔
روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروو نے کچھ وقت کے لئے تو دونوں ممالک کے درمیان سیزفائر کروادی تھی مگر نفرت کی دیوار بشکیک اور دوشنبے کے درمیان پہلے ہی کھڑی ہوچکی تھی جسے ان 55 ہلاکتوں نے مزید مضبوط کردیا جو سرحدی جھڑپوں کے دوران ہوئی۔

تاجکستان کو ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا رہا اور بین الاقوامی سطح پر بھی کرغیزستان کے لئے ہمدردی زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ لہذا اسے معلوم ہے کہ کرغیزستان آئندہ اب مکمل تیاری کے ساتھ ہوگا کیونکہ کرغیز صدر سادیر جاپاروو پہلے ہی تاجک محصوروں کو کرغیزستان میں ضم کرنے کی اپنی نیت عیاں کرچکے تھے۔ اس صورت میں تاجکستان کو اب نا صرف اتحادیوں کی ضرورت ہے بلکہ اسے اپنی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے مزید اسلحہ درکا ہوگا۔

ایسے میں پاکستان ان کے سب سے قریبی اور آسان ذریعہ ہے جو نا صرف ان کو سی پیک کے ذریعے اپنی بندرگاہوں تک رسائی دے سکتا ہے بلکہ ان کی فوجی سازو سامان کی ضرورت کو بھی پورا کرسکتا ہے۔
 پاکستان کی بات کی جائے تو اسے بھی تاجکستان سے فوائد زیادہ ہیں بنسبت کرغیزستان کے۔ تاجکستان (جسے ایک پتلی سی واخان پٹی پاکستان سے جدا کرتا ہے) اس کا مستقبل میں افغانستان میں امن کے قیام میں ایک اہم کردار ہے کیونکہ افغانستان میں پختونوں کے بعد سب سے زیادہ تاجک آباد ہیں جن کے ماضی میں طالبان کی حکومت سے اچھے تعلقات نہیں رہے تھے۔

پاکستان کے لئے سب سے اہم یہ ہے کہ جب افغانستان میں آئندہ جو بھی حکومت قائم ہوتی ہے اسے تاجک آبادی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا نا ہو۔ ایسے میں صرف تاجکستان ہی سب سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے طالبان اور شمالی افغانستان میں رہنے والے گروپوں کر درمیان مفاہمت کروانے میں۔
تجارت کی بات کی جائے تو  پاکستان کے ساتھ تاجکستان کا کاسا 1000  منصوبے پر کام جاری ہے جس کے تحت تاجکستان پاکستان کو 1300 میگاواٹ بجلی مہیا کرے گا۔

اس کے علاوہ اگر ہم پاکستان کی ان دونوں ممالک سے تجارت کی بات کرے تو تاجکستان کا پلڑا کرغیزستان پر بھاری ہے۔ کیونکہ اقوامِ متحدہ کے ادارے کامٹریڈ ڈیٹابیس آن انٹرنیشنل ٹریڈ کے مطابق پاکستان نے 2020 میں 2.5 ملین ڈالرز کی اشیاء تاجکستان کو ایکسپورٹ کی جبکہ کرغیزستان کو پاکستان سے صرف 1.6 ملین ڈالرز کی اشیاء ایکسپورٹ کی گئی۔ اگرچہ دونوں میں زیادہ فرق نہیں لیکن اگر ہم ان دونوں ممالک سے تجارت کا گراف دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تاجکستان نے 2018 میں پاکستان سے 8 ملین ڈالرز کا تجارتی سامان بھی امپورٹ کیا ہے۔

جبکہ کرغیزستان کا گراف کبھی 1 یا دو ملین سے آگے نہیں بڑھا۔ لہذا فطری طور پر پاکستان اسی ملک کو ترجیح دے گا جس سے اس کے مفاد وابستہ ہوں۔
پاکستان اسوقت اپنے اسلحہ ساز انڈسٹری کو مزید پروان چڑھانا چاہتا ہے جس کے لئے اسے مزید خریدار درکار ہیں۔ حال ہی میں اس نے نائجیریا کو 6 پاکستانی ساختہ ملٹی رول کومبیٹ جنگی طیارے جے ایف 17 تھنڈر بیچے جبکہ ملائیشیا، عراق اور آرجنٹینا کے ساتھ بھی جلد اسی طرح کی ڈیل متوقع ہے۔

تاجکستان بھی پاکستانی اسلحے میں دلچسپی رکھتا ہے اور یہی وجہ ہوسکتی ہے جو 2015 کے بعد پانچ سال بعد ایمومالی راحمون کو اسلام آباد کھینچ لائی۔
پاکستان کے پاس اس وقت دو راستے ہیں اور وہ یہ کہ یا تو یہ تاجکستان کو اسلحہ بیچ کر اپنے اسلحہ ساز انڈسٹری کے لئے نئے خریدار تلاش کرکے قلیل مدتی فوائد حاصل کرے اور یا تو یہ دونوں مسلمان ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرکے مسئلے کا حل تلاش کرے۔

اس طرح تاجکستان بھی افغانستان میں امن کے قیام کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے سے انکاری نہیں ہوگا۔ پاکستان کو اس وقت وسطی ایشیاء کے تمام ممالک کی اشد ضرورت ہے جو آئندہ سی پیک میں شامل ہوکر پاکستان اور خطے کی معیشت کو مزید اوپر لانے میں مددگا ثابت ہونگے۔ اگر پاکستان وقتی فائدے کے لیئے کسی ایک کا ساتھ دیتا ہے تو اس کا دور رس نقصان یہ ہوگا کہ آئندہ کشمیر کے مسئلے پر کرغیزستان کا نا صرف جھکاؤ بھارت کی طرف ہوگا بلکہ بھارت کا اثرورسوخ بھی وسطی ایشیاء میں مضبوط ہوجائے گا جو پاکستان اور سی پیک کے لئے ہرگز خوش آئند نہیں ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :