نظام کی تبدیلی کا نقصان پی ٹی آئی کو ہوگا

جمعرات 17 جنوری 2019

Khalid Imran

خالد عمران

مسئلہ یہ نہیں کہ نظام کون سا ہے؟ پارلیمانی یا صدارتی یا آمریت، مسئلہ یہ ہے کہ چلانے والے کون ہیں؟ اور کیا چلانے والوں کی تربیت بھی ہوئی اس نظام کو چلانے کی، جو اُن کے حوالے کردیا گیا یا اُن کے نام کردیا گیا۔
جو لوگ موجودہ ریاستی نظام کو چلانے میں ناکام ہیں، انہیں اور ان کو لانے والوں کو اچھی طرح علم تھا کہ لاالہ الا اللہ کے نعرے اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنائے گئے ملک میں جو آئین نافذ ہے، اس کے تحت نظامِ حکومت وریاست چلانا ہوگا، اب اگر اوپر خلاوٴں میں کہیں یہ مشاورت چل رہی ہے کہ ریاستی وحکومتی نظام پارلیمانی کی بجائے صدارتی ہونا چاہیے تو بصد ادب عرض ہے کہ حضور نظام چاہے پارلیمانی ہو یا صدارتی ان لوگوں کے حوالے کیا کریں جن کی تربیت ہوئی ہو۔


جب تک انسان فکری اور عملی طور پر درست نہیں ہوگا، اس وقت تک کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہوسکتا۔

(جاری ہے)

ریاست مدینہ کے دعوے تو کہاں پورے ہونا ہیں، جو لوگ سالہا سال سے مغربی پارلیمانی جمہوریت کو انسانی معاشرے کے لیے اکسیر قرار دیتے آئے ہیں، وہ تو دِکھاوے کی برداشت اور نمائشی جمہوری رویے بھی اپنانے میں ناکام ہیں۔ جیسا کیسا نظام ملک میں چل رہا ہے اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ پارلیمان میں موجود مختلف افکار وخیالات رکھنے والے لوگوں میں جن پر عوامی نمایندے ہونے کی تہمت بھی ہے، اتنا اتفاق رائے تو ہونا چاہیے کہ آئین کے تحت قانون سازی کا عمل جاری رہ سکے اور اس سلسلے میں حکومت میں شامل افراد کو اپنے ذاتی، جماعتی اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ نظام حکومت وریاست چلانے کے اہل ہیں۔


 وطن عزیز کی تاریخ گواہ ہے کہ تمام تر بدنامی اور رسوائی کے باوجود سیاست دانوں میں یہ وصف ضرور پایا جاتا تھا کہ پارلیمان کے اندر اور باہر جب بھی ریاست کو یکجہتی اور اتفاق رائے کی ضرورت ہوئی تو سیاست دانوں نے اپنے ذاتی، سیاسی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ریاست کے مفاد کو اولیت دی، مثلاً 1965ء میں 6 ستمبر کو جب پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تو تمام سیاست داں ایک فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے پشت پناہ ہوگئے۔

حالانکہ اس برس یعنی 2جنوری 1965ء کو ہونے والے صدارتی الیکشن میں ان کے مدمقابل بانیٴ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بہن مادرِ ملت فاطمہ جناح اپوزیشن کی متفقہ امیدوار تھیں۔ مشرقی ومغربی پاکستان میں اس الیکشن کی مہم میں عوام نے مادرِ ملت کو بھرپور پذیرائی بخشی تھی۔ یاد رہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو اس الیکشن میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے متبادل امیدوار تھے، غلام حیدر وائیں صدر ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری، ن لیگی دور کے وزیر دفاع خرم دستگیر کے والد غلام دستگیر خان گوجرانوالا میں ایوب خان کے سب سے بڑے حمایتی تھے ، اس کے باوجود مادرِ ملت سمیت تمام اپوزیشن نے صدر ایوب خان کو تنہا نہیں رہنے دیا تھا اور پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی۔


پھر سقوط ڈھاکا کے بعد جب ذوالفقارعلی بھٹو اندراگاندھی سے مذاکرات کے لیے شملہ روانہ ہونے لگے تو خان عبدالولی خان کی قیادت میں تمام اپوزیشن رہنماوٴں نے ان سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ 1973ء کا آئین بنانے اور 7ستمبر 1974ء کو قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی ترمیم کے وقت بھی تمام عوامی نمایندوں کا بھرپور اتفاق رائے سامنے آیا۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے مارشل لا کے اختتام پر آٹھویں ترمیم اور پیپلزپارٹی کے زرداری گیلانی دور میں اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر سیاست دانوں کا اتفاق رائے دیکھنے میں آیا۔


عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عوامی دباوٴ پر یا شرما حضوری میں ہی سہی عوامی نمایندگی کے دعوے دار اپنا بھرم رکھنے میں کامیاب ہوتے رہے لیکن اب جس ذہنیت کے لوگوں کو اکثریت دِلاکر پارلیمان میں بھیجا گیا، ا ن کے ہوتے ہوئے پارلیمان اپنے اصل کام یعنی قانون سازی کی راہ چلتی نظر نہیں آتی۔ 16 دسمبر 2014 ء کو سانحہ اے پی ایس کے بعد مکمل اتفاق رائے سے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے قانون سازی کی گئی اور فوجی عدالتوں کی مدت دو برس طے کی گئی تھی، اب ان عدالتوں کی دوسری توسیع کے سلسلے میں ایک بار پھر قانون سازی کی آئینی ضرورت درپیش ہے، تمام تر اختلافات کے باوجود اپوزیشن اس سلسلے میں تعاون کرنے کو بظاہر تیار ہے لیکن اطلاعات کے مطابق حکومت کی طرف سے جس نابغہ روزگار شخصیت کو اس سلسلے میں اپوزیشن سے رابطے کے لیے نامزد کیا گیا ہے، پیپلزپارٹی کے سید خورشیدشاہ کے مطابق یہ نامزدگی حکومت کی غیرسنجیدگی کی مظہر ہے۔

یہ شخصیت خیر سے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فوادحسین چودھری ہیں۔ موصوف اپنی ”زباں دانی“ کی وجہ سے پارلیمان کے ایوان بالا سے باہر نکالے جاچکے ہیں، لیکن ان کا لب ولہجہ درست ہونے کی بجائے مزید بگڑ گیا۔
قومی اسمبلی کے مقابلے میں ایوان بالا ہمیشہ سے سنجیدگی اور بردباری کا مظہر رہا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے قیام سے لے کر گزشتہ دورتک ایوان بالا میں سنجیدہ اور سلجھی ہوئی گفتگو سننے کو ملتی رہی، اپوزیشن اور حکومت دونوں اطراف سے ہر دور میں سینیٹ ارکان نے باوقار انداز اپنایا لیکن اب ایوان بالا میں بھی کئی بار مچھلی بازار کا منظر نظر آیا، اس میں زیادہ تر کردار حکومت بالخصوص فواد حسین چودھری کا رہا۔


پی ٹی آئی حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ پارلیمان میں قانون سازی کے لیے اس کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں ہے اور اگر اس نے پارلیمان کے ذریعے حکومت کاری کرنی ہے تو اسے بالآخر قانون سازی کی طرف آنا ہے اور موجودہ حالات میں اپوزیشن کے بغیر قانون سازی ممکن نہیں، اس کے لیے وزیراعظم عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ آخر کب تک وہ اپوزیشن سے بے جا محاذآرائی جاری رکھیں گے اور ان کے عقاب اپوزیشن پر جھپٹ جھپٹ کر اس نظام کے درخت کو کاٹنے کا عمل جاری رکھیں گے جس پر ان کی حکومت بیٹھی ہے۔


جو حلقے آج کل صدارتی نظام کے حوالے سے سرگرم ہیں، انہیں بھی سوچنا چاہیے کہ ایک چلتے نظام کی جگہ دوسرا نظام لانے کے لیے جتنی اکھاڑپچھاڑ کی ضرورت ہے، کیا ملک، خطے اور دنیا کے حالات اس کی اجازت دیتے ہیں اور سب سے زیادہ تو اس سلسلے میں پی ٹی آئی کو سوچنا چاہیے، اگر ان کے ہاں کسی درجے میں سوچ بچار کا سلسلہ ہے کہ نظام کی اس تبدیلی کا سب سے زیادہ نقصان اسے ہی ہوگا، کیونکہ اپوزیشن کے پاس تو اب کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں لیکن پی ٹی آئی کے لیے حکمرانی کا یہ جوا اس کی مکمل ناکامی پر منتج ہوگا، لہٰذا تحریک انصاف کی قیادت کو نظام ریاست وحکومت چلانے کے لیے اپنے طور طریقے بدل کر قانون سازی کا سلسلہ سنجیدگی سے شروع کرنا ہوگا، اپوزیشن بالخصوص ن لیگ کو بھی اس سلسلے میں ذاتی اور جماعتی مفاد سے اوپر اٹھ کر ”رانا“ عناصر کی بجائے ”راجا“ عناصر کو آگے کرنا ہوگا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :