ریاست مدینہ کے دعویداد

منگل 28 جنوری 2020

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

ریاست مدینہ کے دعویدار اس بات کو بھی مدنظر رکھے ۔جس ریاست مدینہ کے دعوئے توکیے جاتے ہیں ۔لیکن آپ کو سوچنا ہوگا اور سمجھنا بھی ہوگا ۔کہ ریاست مدینہ کے حکمراں تو ایسے ہی کرتے تھے کہ خلیفہ اول سیدناصدیق اکبر کا شمار علاقہ کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھاآپ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔جوکہ خلافت کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد بند کرنا پڑا کیونکہ تجارت اور عوام کے مسائل ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔

جب منصب خلافت سمبھالا تو آپ کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔بیعت خلافت کے دوسرے دن کا واقعہ ہے کہ آپکچھ چاد ریں لے کر بازار جارہے تھے۔حضرت سیدناعمرفاروق نے دریافت کیا کہ آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں تو آپ نے فرمایا تجارت کرنے کے لیے حضرت سیدناعمرفاروق  نے عرض کیا کہ اب آپ خلیفہ وقت ہیں اگر آپ کاروبار کرے گے توریاست کے معاملات کون دیکھے گا ۔

(جاری ہے)

آپ فورًا مان گئے اور واپس آگئے ۔مگر اب سوال یہ پیدا ہوا کہ ان کے گھر کا گزارہ بسر کیسے ہو گا تو اس وقت کی عاشورہ بیٹھی اور طے ہوا کہ خلیفہ وقت کی تنخواہ بیت المال سے وقف کردی جائے تاکہ خلیفہ وقت باخوبی ریاست مدینہ کے معاملات دیکھے مگر سوال کیا گیا کہ آپ کی تنخواہ کتنی مقرر کی جائے۔ جس پر حضرت ابوبکر صدیق نے خودفرمایا کہ ریاست مدینہ کے مزدور جتنی،اتنی ہی میرے لئے مقرر کی جائے صحابہ اکرم بولے آپ اس میں گزارہ کیسے کرے گئے تو آپ نے فرمایا جس طرح مزدور گزارہ کرتا ہے میں بھی ویسے ہی گزارہ کرو نگا ۔

ہاں البتہ اگر گزارہ نہ ہو سکا تو میں مزدور کی اجرت بڑھا دونگا ۔یہاں پر یہ واقعہ بھی تحریر کرنا ضروری ہے کہ اسی وظیفے میں سے کچھ بچا کر جب اہلیہ محترم نے حلوہ بنایا تو آپ نے اتنی مقدار وظیفے میں سے کم کروادی یہ کہہ کر کہ یہ ہماری ضرورت سے زاید ہے ۔ یہ فیصلہ اس حکمران کا تھا جو حکمرانی کے لئے خلیفہ نہیں بنا تھا بلکہ خدمت خلق کے لئے اس فرض شناسی کو قبول کیا تھا ۔

اور وہ بھی سب ساتھیوں کے اصرار پراب آتے ہیں جناب میر ریاست پاکستان اور ان کے نام نہاد وزراء،اور عزت مآب سیاسی راہنماوٴں کی طرف جن کے پاس عوام کو دینے کے لیے تاحال طفل تسلیاں،وعدے وعید،مہذ دعوئے اور چند کھوکھلے نعروں کے سواکچھ نہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے انکشاف کیا کہ مہنگائی ہے اور میرا اپنی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا ۔

میں اپ کو یاد بھی کرواتا چلو کہ خان صاحب ریاست مدینہ کے دعوے دار بھی ہے ۔جن کا بھاری تنخواہ کے علاوہ مراعات اور ثواب دیدی اختیارات کے باوجود گزارہ نہیں ہوتا ہ ے ۔عوام کو مشکل وقت میں صبر کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور خود متعدد بار مہنگائی ہے تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا کا شکوہ کرتے دیکھائی دیتے ہیں اور ساتھ ہی عوام کوگھبرانہ نہیں کا درس بھی دیتے ہیں ۔

پاکستان تحریک انصاف نے ریاست مدینہ اور تبدیلی کے نعرے پر انتخابات میں حصہ لیا عوام سے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنائے گئے۔لیکن پہلی اسلامی سلطنت مدینہ کا پہلا فلسفہ یہ ہے کہ حکمراں اپنی تنخواہ کو ایک مزدور کے برابر رکھتے تھے پر وزیراعظم پاکستان کی تنخواہ 1لاکھ 7ہزار2سو80اروپے ہے اگر اس میں مختلف الاوٴنس شامل کر دیئے جائے تو ان کی تنخواہ2لاکھ1ہزار574روپے بنتی ہے کیوں کے وزیراعظم کو مہمان داری الاوٴنس تقریباً50000ہزار کے قریب ملتا ہے2011ء میں سرکاری ملازمین کو ایڈہاک ریلیف الاوٴنس 12110#ملا تھا وہ بھی وزیراعظم کو مل رہا ہے پھر2012ء میں ایک ایڈہاک ریلیف 21456 روپے دیا گیا تھا ،یعنی جو بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ ہوتا تھا وہ ہی وزیراعظم کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے 2018-19کے ایڈہاک الاوٴنس10728 شامل کر کے وزیراعظم کی سیلری تنخواہ2لاکھ1ہزار574روپے بن جاتی ہے اور اس میں سے4ہزار5سو 95روپے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے باقی تنخواہ 1لاکھ96ہزار979روپے الائیڈبنک پارلیمنٹ ہاوٴس برانچ میں ان کا اکا ئنٹ ہے اس میں ان کی تنخواہ آتی ہے اس کے علاوہ گھر ، گاڑی کا خرچہ، ٹیلی فون ،موبائل فون کا بل یہ سب سرکاری خزانے سے ادا کیے جاتے ہیں وزیراعظم کاگریڈپے سلپ پر23لکھاگیاہے22گریڈکا وفاقی سیکرٹری ہوتا ہے اور اس سے اوپر کا گریڈ وزیراعظم کو دیا گیا ہے لیکن پھر بھی ان کا گزارہ نہیں ہو رہا تو عام آدمی کا کیاکرتا ہو گا ۔

اس وقت یہ بھی معلوم ہونا بہت ضروری ہے کہ ایک مزدور کی ماہانہ اجرت حکومت کی جانب سے 17500مقرر کی گئی ہے جب کہ مہنگائی کے تناسب سے اگر اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو میاں ،بیوی اور چار بچوں سمیت یعنی کل6 افراد کاماہانہ نارمل خرچہ۔ ایک لیٹر دودھ کی قیمت 100روپے اور30 دن کادودھ 3000روپے کا۔ آٹے کی قیمت فی کلو 70روپے روزانہ3 کلو اور30دن کا90کلو قیمت 6300سو۔

سبزی دال وغیرہ ڈیلی 200روپے کی اور 30دن کی سبزی6000روپے کی ۔چینی ،پتی، مصالحہ وغیرہ ایک دن کا 100روپے کااور 30دن کا3000روپے کا۔چاول فی کلو140روپے ہفتہ میں دو دن کے 4کلو اور 4ہفتوں کے 8کلو قیمت 1120روپے۔گھی،تیل فی کلو 210روپے ہفتے میں 2کلواور 4 ہفتوں میں8کلوقیمت 1680روپے۔بچوں کے دن بھر کا خرچہ 20 روپے فی بچہ اور4بچوں کا 80روپے ڈیلی ،30دن کاخرچہ 2400روپے۔

سکول فیس فی بچہ 1000روپے اور 4بچوں کی فیس4000روپے۔بجلی کا بل 1500روپے۔گیس کا بل500روپے۔ڈاکٹروغیر کے پاس بیماری کی صورت میں ماہانہ1000روپے ۔مہمان وغیرہ ماہانہ 1000روپے ۔ ڈیوٹی پر آنے جانے کا کرایہ 100روپے روزانہ اور 30دن کا3000روپے ٹوٹل خرچے کی رقم34500= روپے آمدنی 17500=روپے34500-17500 17000=روپے ماہانہ مزدور خسارے میں ہے یعنی 566روپے روزانہ کی بنیادوں پر مزدور کو خسارہ ہوتا ہے وہ بھی ، فروٹ، مکان اگر کرایہ کا ہے ۔

کپڑے۔جوتی اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بے غیرہی اتنا خسارہ ہے اور یہ وہ کیسے پورہ کرتا ہے یہ بات وہ مزدور جانتا ہے یا اس کا رب ۔اور خود ریاست مدینہ کے دعوئے داروں کو،سیلریز،الاوٴنسز،اور پرولیجزکے نام پر سرکاری گھر جس کے تمام تر اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں سرکاری دو گاڑیاں دی جاتی ہیں جن میں سے ایک کے استعمال کی کوئی حد نہیں اور دوسری گاڑی کا ماہانہ 250لیٹر کا ایندھن دیا جاتا ہے ۔

بلوچستان کے ایکٹ میں تویہ بھی درجہ ہے کہ اگر وزیراعلی اپنے ذاتی استعمال کے لئے مرسڈیز بینز 280ایس ای ایل یا اس کے برابر کا ماڈل بیرون ملک سے درآمد کرتے ہیں تو انھیں اس پر کوئی کسٹم ڈیوٹی ،سیلز ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ہزاروں کی مد میں ڈیلی الاوٴنسز ، سفری خرچہ اور اس کے علاوہ سالانہ اضافی خرچے بھی دیئے جاتے ہیں ۔

میر ریاست ماضی میں اخراجات کم کرنے ،کفایت شعاری کرے گئے ،کراچی کے ساحلوں کو سیاحتی مراکز میں تبدیل اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کر گئے ۔منی لارنڈنگ ،بد عنوانی ، غیر قانونی طریقوں کے ساتھ رقم ملک سے باہر لے جانے والوں کے خلاف کاروائی کی جائی گئی۔جیلوں میں غریب قیدیوں کے پاس وکیلوں کو بھیجیں گے ۔ 50لاکھ گھراور ایک کروڑ نوکریاں دے گئے قانون ، پولیس نظام میں،اور ہیلتھ میں اصلاحات لے کر آئے گئے۔

چھوٹی صنعتوں ،کسانوں،اور نوجوانوں کو آسان اور سستے قرضے فراہم کرے گئے ۔ پی آئی اے ، پاکستان ریلوئے اورسٹیل ملز کا خسارہ کم کر کے منافع بخش بنائے گئے ۔ نیا پاکستان بنائے گئے جس میں امیر غریب کے لیے ایک ہی جیسا قانون ہو گا کے دعوئے تو بہت کرتے رہیں لیکن اقتدار میں آکر اپنے ہی دعووٴں پر عمل درآمد نہ کر سکے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چندباتوں ، کھوکھلے ، دعووٴں اور چند طفل تسلیوں سے بنے گئی ریاست مدینہ ۔

ان کا بیانیہ ، موٴقف،نعرے،تقریریں،تدابیریں،خیالات،پلان جو بھی ہولیکن عملی طور پر کچھ نہ کر سکے ۔ ریاست مدینہ کے خلیفہ کی تنخواہ ایک مزدور کی اجرت کے برابر تھی ۔جنہوں نے ریاست مدینہ کے لئے اپنا کاروبار ترک کردیا تھا۔ وہاں امیر غریب کے لیے انصاف کا ایک ہی معیار تھا۔میر ریاست سیدنا عمرفاروق فرماتے تھے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر اس کا ذمہ دار ہو گا اور یہاں غریب بھوک و افلاس سے مر رہے ہیں ریاست مدینہ کے یہ دعوئے داراپنی غلطیاں ماننے کو تیار ہی نہیں اوراپنی ناکامی کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر گراتے ہیں،انصاف کا یہاں دوہرامعیار ہے لوگ بے روزگاری، غربت سے خود کشی کر رہے ہیں مہنگائی نے قمر توڑ کے رکھی دی ہے،آٹا،چینی ناپیند ہوگیا ہے، خوردو نوش کی اشیاء جن قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں ۔

فروٹ ،سبزیاں،دالیں تو عوام کو منہ چڑھا رہی ہیں ۔بجلی گیس ،پٹرول نے تو عوام کی چیخیں نکلوادی ۔ انصاف ملنے کے بارے سوچا جا سکتا ہے لیکن مل نہیں سکتا۔ پولیس محکمہ اپنے آپ کو عوام کا خادم ماننے کو تیار ہی نہیں حکومتی وزراء ہیں کہ ان سے کارکردگی کے بارے میں جب سوال کیا جائے تو مزید سال کا پلان سنا دیتے ہیں ۔ تاحال ایسے لگتا ہے جیسے حکومت کے پاس عوام اور ملک پاکستان کی بہتری کے لئے کوئی بھی حکمت عملی ہی نہیں ہے۔

ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے ایسے کیسے بنے گی ریاست مدینہ ۔اس بات پر غور ضرور کیجئے گا کہ سلطان صلاح الدن ایوبی فاتح بیت المقدس ،مصر،،اردن،لبنان ،فلسطین،شام کا جب انتقال ہوا تو ان کے کفن کے لیے قرض حاصل کر کے ان کی تدفین کا انتظام کیا گیا ۔انکی وفات کے بعد ذاتی ملکیت کا حساب کیا گیا تو ایک گھوڑا ،ایک تلوار،ایک زرح ،ایک دینار اور چھتیسں درہم کے علاوہ کچھ نہیں تھا آپ شدید خواہش کے باوجود حج نہ کر سکے کیونکہ حج کے لیے رقم نہ تھی۔ایسے آتی ہے تبدیلی اور ایسے ہی حکمرانوں کی حکمرانی سے بنتی ہیں طرز ریاست مدینہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :