کیا مودی پورے بھارت کو کشمیر بنانا چاہتے ہیں؟

منگل 11 فروری 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

یوں تو 1990ء سے ہی ہر سال یومِ یکجہتی کشمیر پاکستان اور دنیا بھر میں منایا گیا ہے لیکن اس سال بھارتی آئین آرٹیکل 370 میں ترمیم اور کشمیر میں جاری طویل لاک ڈاؤن سے یومِ یکجہتی کشمیر کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے، کیونکہ پچھلے سال اگست میں بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے مسئلہ کشمیر کی ہیئت و ساخت مکمل تبدیل کرنے کے لیے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 نکال پھینکا جو جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرتا تھا۔

مودی نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 نکال کر جموں و کشمیر کے 3 حصے کیے اور انہیں بھارتی یونین کے زیر انتظام علاقے بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بھارت کے نزدیک جموں و کشمیر کوئی متنازع علاقہ نہیں رہا بلکہ وہ تو بھارت کا حصہ بن چکا ہے۔آرٹیکل 370 کے کالعدم قرار دیے جانے پر کشمیری و پاکستانی عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا کنٹرول لائن کے آر پار شدید احتجاج ہوا، مقبوضہ کشمیر میں احتجاج روکنے اور دبانے کے لیے کشمیری سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے کاٹ کر مقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا سے الگ کرنے اور اسے ایک کھلی جیل میں بدلنے کی بھرپور کوشش ہوئی ہزاروں کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ بھارتی جیلیں بھی کشمیریوں سے بھر دی گئیں۔

(جاری ہے)

یوں تو 1990ء سے ہی ہر سال یومِ یکجہتی کشمیر پاکستان اور دنیا بھر میں منایا جا رہا ہے لیکن اس سال یومِ یکجہتی کشمیر کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے، کیونکہ پچھلے سال اگست میں بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے مسئلہ کشمیر کی ہیئت و ساخت مکمل تبدیل کرنے کے لیے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 نکال پھینکا، جو جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرتا تھا۔

زعفرانی یا کیسری رنگ ہندو قوم پرستی کی علامت ہے۔ 9 دسمبر کو بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ اسی رنگ کی واسکٹ پہنے لوک سبھا میں ایک ترمیمی بل پیش کررہے تھے 5 اگست کو آرٹیکل 370 میں ترمیم اور کشمیر پر غیر انسانی پابندیاں عائد کرنے کے بعد شہریت کے قانون میں ترمیم (شہریت ترمیمی ایکٹ) بھارت کو اسی رنگ کی”جیکٹ‘ ‘پہنانے کی جانب ایک اور قدم ہے۔

اس نئے قانون کے مطابق پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے جو ہندو، سکھ، جین، بدھ اور پارسی مذہبی بنیادوں پر استحصال یا تشدد کی بنا پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے یا اسی بنا پر 31 دسمبر 2014ء سے قبل بھارت میں داخل ہوئے، انہیں 5 سال قیام کے بعد بھارتی شہریت دی جاسکے گی جبکہ مسلمان اس حق سے محروم رہیں گے۔بظاہر یہ قانون جنوبی ایشیا کے ان 3 مسلم اکثریتی ممالک کی اقلیتوں کے لیے بھارت کی درد مندی اور ہمدردی کو جواز بنا کر پیش کیا گیا ہے۔

لیکن میانمار کے روہنگیا پناہ گزینوں سے متعلق پالیسیوں اور بھارت کی مسلم اقلیت کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کو پیش نظر رکھا جائے تو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور انسانی ہمدردی کا کوئی جوڑ نہیں بنتا۔شہریت کے قانون میں ترمیم اور اس سے قبل نیشنل رجسٹر فور سٹیزن شپ (این آر سی) کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن کا معاملہ حل کرنے کے بجائے بھارت کو ”گھس بیٹھیوں“ سے پاک کرنا ہے۔

آر یس ایس قوم پرستانہ نظریات کو اپنا آدرش ماننے والی بی جے پی جب گھس بیٹھیا کہتی ہے تو مسلمان سنائی دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں اس کے ہر اقدام کو محض قانونی تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا، بلکہ اس کا تاریخی پس منظر اور بہت واضح نظریاتی تناظر بھی ہے۔بہرحال، شہریت کے قانون میں پہلی مرتبہ نومبر 2016ء میں ترمیم پیش کی گئی اور منظوری کے مراحل کا آغاز کیے بغیر ہی اسے واپس لے لیا گیا اس تاخیر کا سبب اب جاکر کچھ کچھ واضح ہوتا ہے۔

بھارت کے شمال مشرق میں واقع 6 ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں فعال رہی ہیں اور یہاں کے قدیمی باشندے اور قبائلی اپنی شناخت کے تحفظ کے بارے میں خاص حساسیت رکھتے ہیں۔تقسیم سے قبل مشرقی بنگال سے چائے کے باغات میں مزدوری اور 1971ء میں خانہ جنگی اور بنگلا دیش کے قیام کے وقت پناہ کے لیے بنگالی آبادی نے آسام کا رخ کیا قیامِ پاکستان کے بعد ان میں مشرقی بنگال سے بھارت نقل مکانی کرنے والے ہندوو?ں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔

غیر مقامی آبادی کی اس بڑی تعداد میں آمد سے آسام میں لسانی بنیادوں پر کشیدگی پیدا ہوئی جس نے فسادات اور بعد ازاں آسام میں مقامی آبادی کی خصوصی حیثیت کو برقرار رکھنے اور تارکین وطن کو روکنے کے لیے 7 سالہ طویل احتجاجی تحریک کو جنم دیا اس تحریک میں 800 سے زائد افراد جان سے گئے تب کہیں جاکر راجیو گاندھی کے دور میں ”معاہدہ آسام“ طے پایا اور کچھ خصوصی قوانین منظور کرلیے گئے۔

آسام کے رہنے والوں کے نزدیک لسانی شناخت سب سے مقدم رہی ہے اور مقامی قوم پرست جماعتوں کا مطالبہ یہی تھا کہ این آر سی کے اطلاق کے بعد شہریت ثابت نہ کرنے والوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے۔16 نومبر 2016ء کو بھارت کے ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں خود مودی سرکار نے دعویٰ کیا کہ 2 کروڑ بنگلادیشی غیر قانونی طور پر بھارت میں رہ رہے ہیں لیکن جب نیشنل رجسٹر فور سٹیزن شپ (این آر سی) کی فہرستیں تیار کی گئیں تو صرف 19 لاکھ افراد کی شہریت معطل کی گئی جن میں 14 لاکھ ہندو تھے لیکن اب 3 ماہ کے بعد شہریت کے قانون میں ترمیم کردی گئی جس کے بعد این آر سی میں آنے والے ہندوؤں کے لیے شہریت کا راستہ صاف ہوجائے گا۔

نریندر مودی نے آرٹیکل 370 ختم کرتے ہوئے سوچا ہوگا کہ انہوں نے اس مسئلے کی جڑ کاٹ دی لیکن معاملہ الٹ ہوگیا کیونکہ نائن الیون کے بعد سرد خانے میں پڑا مسئلہ کشمیر ایک بار پھر ابھر کر دنیا کے سامنے آگیا۔ امریکا اور یورپ سمیت دنیا کے ہر میڈیا نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا، اور یوں بھارتی جبر کی داستانیں ایک بار پھر دنیا کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے لگیں۔

وزیراعظم عمران خان کے پہلے دورہِ امریکا کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی، سفارتی ذرائع سے آنے والی رپورٹس سے پتہ چلا کہ مودی کشمیر سے متعلق اپنے عزائم سے صدر ٹرمپ کو آگاہ کرچکے تھے، اسی لیے صدر ٹرمپ نے نہ صرف ثالثی کی پیشکش کی بلکہ مودی کے عزائم سے بھی وزیرِاعظم عمران خان کو آگاہ کردیا تھا۔مودی نے آرٹیکل 370 کے خاتمے اور کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا اس کے لیے کسی تاریخ کا تعین نہیں کیا تھا، اسی لیے وزیراعظم عمران خان اور حکومتِ پاکستان مودی کے عزائم سے باخبر ہونے کے باوجود اس منصوبے پر عمل درآمد کے وقت سے بے خبر تھے صدر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش نے مودی کو اس کے عزائم پر جلد عمل کے لیے اکسایا اور بھارت کی اپوزیشن جماعتیں بھی مودی کے اس اقدام پر ششدر رہ گئیں۔

نریندر مودی کی دوبارہ کامیابی کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کی امید رکھنے والے عمران خان کے لیے بھی یہ صورتِ حال پریشان کن تھی، اور انہیں مودی سے توقعات وابستہ کرنے پر شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔مودی سے امن کی توقعات رکھنے والی تحریک انصاف کی حکومت اس قدر رجائیت پسندی کا شکار رہی کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مسئلہ کشمیر اور وہاں ہونے والے بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے پیش ہی نہ کرسکی، حالانکہ کنٹرول لائن پر صورتِ حال شدید کشیدہ تھی اور نوبت فضائی جھڑپوں تک پہنچ گئی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو بطور خصوصی مہمان مدعو کرلیا گیا جس سے پاکستان کی سفارتی ناکامی کا تاثر ابھرا اور بھارت نے شادیانے بجائے۔

مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی سفارتی تیاری اس قدر کمزور رہی کہ اسے ثالثی کے لیے بار بار امریکا کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اب ایک بار پھر صدر ٹرمپ نے ثالثی کی بات کی ہے لیکن کسی بھی طرح کی ثالثی کے لیے ضروری ہے کہ تنازع کے تمام فریق ثالثی کو قبول کریں مودی اور بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ تنازع قرار دے کر ہر بار ثالثی کی کسی بھی کوشش کو رد کیا جاتا رہا ہے۔

پاکستان کا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ کشمیریوں کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے، اور اس کے لیے کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جانا چائیے تاکہ کشمیری عوام یہ فیصلہ خود کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اگر ایسا ہوگیا تو یہ بہت ہی مثالی صورت حال ہوگی۔ لیکن بھارت کی طرف سے حق خود ارادیت سے مسلسل انکار نے حالات کو آج یہاں تک پہنچا دیا ہے اب مودی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خودمختاری بھی چھین لی گئی ہے جس کے بعد ریفرنڈم کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔

اس پوری صورتحال میں بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر معاملات بند گلی میں داخل ہوچکے اور آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں، لیکن ایسا نہیں ہے، کیونکہ آگے بڑھنے کا راستہ اب بھی موجود ہے، بس اس پر بہت ہی صبر اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر پاکستان کی محدود سفارتی کوششوں کے باوجود یورپی یونین اور دنیا کا ردعمل حوصلہ افزا ہے -صدر ٹرمپ یا عالمی برادری کی طرف سے ثالثی کی کسی بھی کوشش میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کشمیری عوام کے سیاسی مستقبل کے فیصلے میں ان کی رائے شامل ہو ورنہ کشمیر پر ثالثی کا حشر بھی اسرائیل فلسطین تنازع پر صدر ٹرمپ کے منصوبے جیسا ہوسکتا ہے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت کا بیانیہ سخت ہوگیا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا خیال ہے کہ وہ جب چاہیں پاکستان کے خلاف فوجی مہم جوئی کرسکتے ہیں اور اس پر بھی دنیا خاموش رہے گی۔

بھارتی لیڈروں نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی بدلنے سے متعلق بھی بیانات دیے ہیں مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بڑھنے سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان عسکری کشیدگی کا خاتمہ لازمی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے جنگ سے گریز کا بھی کوئی فارمولہ تیار کیا جائے لیکن آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھارتی فورسز سیدھی فائرنگ کرتی رہیں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر سے آنے والی رپورٹس اور بیانات میں ساری صورت حال واضح ہیں۔

اب تک کے حالات میں یوں لگتا ہے کہ مودی حکومت مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب بھی تبدیل کرنے کی کوششوں میں ہے اس صورت حال میں سب سے پہلے تو بھارتی فورسز کے ظلم کو رکوانے کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر ہونے کے بعد ہی کشمیریوں کے سیاسی حقوق پر کوئی پیش رفت ممکن ہوسکے گی۔مسئلہ کشمیر کے حل کا کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں، جب تک انصاف اور شفافیت کے بنیادی اصول نظر انداز ہوتے رہیں گے مسئلے کے حل کے تمام راستے مسدود رہیں گے مسئلہ کشمیر کے حل میں اب تک 2 بنیادی حقیقتوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے. پہلا امن کے عمل میں کشمیری عوام کی شرکت، اور دوسرا یہ کہ اس تنازع کے تینوں فریق، یعنی پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام، جب تک اپنے موقف میں لچک پیدا نہیں کریں گے اس وقت تک پیشرفت ممکن نہیں ہوسکتی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :