ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی‎‎

پیر 8 نومبر 2021

Mohammad Bashir

محمد بشیر

ضلع بہاول پور کی تحصیل حاصل پور میں رہائش پذیر چار افراد پر مشتمل ایک کنبہ زندگی کی دوڑ میں شکست کھا کر ابدی نیند سوگیا. خبروں کے مطابق خاندان کا نوجوان سربراہ بیروزگاری کی وجہ سے تین ماہ سے مکان کا کرایہ ادا نہیں کرسکا تھا. اس کے علاوہ وہ اپنے بچوں کے لئے کھانے پینے کی اشیاء مہیا کرنے سے بھی قاصر ہوچکا تھا. لہذا اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا.

کیوں نہ بچوں کو مار کر خودکشی کرلی جائے. مستقبل سے مایوس حوا کی بیٹی نے آؤ نہ دیکھا تاؤ. فورا حامی بھرلی. میاں بیوی نے پہلے اپنے دو  بچوں کو زہر دیا اور بعد میں خود بھی خودکشی کرلی.
ماضی میں بھی دو تین اس طرح کے افسوس ناک واقعات پیش آ چکے ہیں.

(جاری ہے)

ایک باپ نے اپنے تین بچے نہر میں پھینک کر خودکشی کرلی تھی.
مرنے والے جیتے جاگتے انسان تھے.

کوئی جانور یا کیڑے مکوڑے نہیں تھے. ان کے اندر بھی بڑا آدمی بننے کی امنگ ہوگی. وہ بھی خوشحال زندگی بسر کرنے کے خواب دیکھتے رہے ہوں گے. بدقسمتی سے مگر ان کے خواب دم توڑ گئے. ان کو کوئی راستہ ,کوئی امید اور روشنی کی ہلکی سی کرن بھی نظر نہیں آئی.  اسی لئے انہوں نے دنیا چھوڑ دینے میں ہی عافیت سمجھی. کیوں کہ اس ملک نے انہیں بھوک اور افلاس کے سوا کیا دیا تھا.  بدقسمتی کی بات مگر یہ ہے کہ اس افسوس ناک واقعے پر نہ حکومت کے کانوں پر جوں رینگی.

اور نہ ہی معاشرے کو ندامت محسوس ہوئی. احساس پروگرام کی روح رواں ثانیہ نشتر صاحبہ کی ٹیم کو بھی شائد اس مظلوم کنبے کی فریاد سنائی نہیں دی. ہر سال اربوں روپے احساس کفالت پروگرام کے تحت تقسیم کئے جاتے ہیں. پتہ نہیں یہ پیسے مستحقین تک پہنچ بھی پاتے ہیں یا نہیں.
دوسری طرف وقت کا حاکم ہاتھ میں تسبیح تھامے ہر وقت مدینے کی ریاست کی گردان کرتا رہتا ہے.

وہ کرپشن مٹاؤ پروگرام لے کر اقتدار کی مسند پر بیٹھا. مگر اس کے تین سالہ دور میں کرپشن کے سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے. سونے پر سہاگہ موجودہ دور میں چینی, گندم, ادویات, پٹرولیم اور قدرتی گیس کے شعبوں میں بڑے مگر مچھوں نے کرپشن کو ایک نئی جہت سے روشناس کرادیا. خان صاحب کا کرپشن مٹاؤ پروگرام اب غریب مکاؤ پروگرام میں تبدیل ہوچکا ہے.
ریکارڈ توڑ مہنگائی نے پاکستانی عوام کی چیخیں نکال دیں ہیں.

چینی 130 سے 140 روپے کلو, کوکنگ آئل 398 روپے لیٹر, ایل پی جی جو پچھلی سردیوں میں 130 روپے کلو دستیاب تھی. آج وہ 230 روپے کلو تک پہنچ چکی ہے. باقی چیزیں اور ادویات 100 سے 150 فیصد مہنگی ہوچکی ہیں.
مگر حاکم وقت جو تین سو کنال کے شاندار محل میں رہائش پذیر ہے. اسے پاکستان اب بھی ایک سستا ملک لگتا ہے. وہ کمال ڈھٹائی سے میڈیا مالکان کو اس قیامت خیز مہنگائی کا تذکرہ چینلز پر کرنے سے روک رہا ہے.

وہ چاہتا ہے. میڈیا کچھ ایسا دکھائے جیسے پاکستان ایک خوشحال ملک ہے.
درحقیقت حکمران ٹولے میں اتنی قابلیت ہی نہیں ہے. کہ ملک کو دلدل سے نکال سکے.  مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرسکے.  بجائے اس کہ موجودہ حکمران اور اس کی بھاری بھرکم کابینہ کے افراد پرفارمنس دیں. وہ کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے میں مصروف ہیں.  وہ لوگوں کو یہ باور کراتے نہیں تھکتے کہ باقی ملکوں میں پاکستان سے زیادہ مہنگائی ہے.


بدقسمتی سے پاکستان میں لوگوں کی اکثریت غربت کی چکی میں پس رہی ہے . مگر وزراء اور چیف منسٹر صاحبان کے ٹھاٹھ باٹھ ایسے ہیں جیسے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں. آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر کابینہ کے اراکین کے لئے مہنگی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں. ہیلی کاپٹر کلچر فروغ پاچکا ہے. ملک کا وزیراعظم بیرون ملک جاتا ہے. تو ساتھ کئی درجن افراد پر مشتمل وفد ہوتا ہے.

جس میں دوست یار, سسرالی رشتے دار اور اتحادی پارٹیوں کے ارکان شامل ہوتے ہیں. خان صاحب ذرا اپنے گریبان کو ٹٹول کر ماضی میں لگائے گئے کفایت شعاری اور سادگی کے نعروں کا جائزہ لے سکیں تو عنایت ہوگی.
کیا مدینے کی ریاست اور والی مدینہ ایسا ہوتا تھا. جناب والا خلفائے راشدین اللہ کے ولی تھے.  پابندی کے ساتھ رعایا کی خبرگیری کرتے. گشت کا وسیع نظام بنا ہوا تھا.

لوگوں کی ہر ضرورت کا بخوبی خیال رکھا جاتا تھا. ضرورت مندوں کی مدد والی مدینہ اپنے دست مبارک سے انجام دیا کرتے تھے. اس سنہری دور میں لوگ چین کی نیند سوتے تھے. کیوں کہ وہ جانتے تھے. کہ خلیفہ وقت ان کی خبرگیری اور دادرسی کے لئے موجود ہے. کیا اس سنہری دور کا موازنہ موجودہ ظالمانہ نظام کے ساتھ کرنا مناسب ہوگا.
جب میں یہ مضمون تحریر کر رہا تھا.

وزیراعظم کا قوم سے خطاب نشر ہوا. خان صاحب نے بجائے اس  کے وہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھتے. انہیں بہتر کل کی نوید سناتے. موصوف نے پٹرولیم کی قیمتوں کا انڈیا, بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں سے تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے فرمایا پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ان ممالک سے بہت کم ہیں. ان میں اضافہ کرنا پڑے گا. انہوں نے فرمایا بھارت میں پٹرول155 روپے لیٹر فروخت ہورہا ہے.جب کہ بقول پرویز رشید بھارت کے کئی شہروں میں پٹرول 110 روپے لیٹر کے اردگرد دستیاب ہے.

ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے غلط بیانی اور دروغ گوئی ان کو زیب نہیں دیتی. وہ کب تک غلط اعداد و شمار سے قوم کو گمراہ کرتے رہیں گے.
  کاش خان صاحب انڈیا اور بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی کا تقابلی جائزہ بھی پاکستان سے کردیتے. تو  تصویر کا دوسرا رخ بھی لوگوں کے سامنے آجاتا. یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں  بھی کافی فرق ہے.

کیا خان صاحب کو  ان کی معاشی ٹیم نے ان اعداد و شمار سے مطلع نہیں کیا تھا.
 ملک کا وزیراعظم قوم کے باپ کا درجہ رکھتا ہے. اسی نسبت سے اس کا فرض منصبی ہوتا ہے. کہ وہ لوگوں کو تسلی دینے کی کوشش کرے. اور ان کے لئے اشیائے ضروریہ کی مد میں ریلیف پیکج کا اعلان کرے. تاکہ اس قیامت خیز مہنگائی میں عام آدمی کی مشکلات میں کمی آئے. مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے.

عمران خان  کے دل میں عام آدمی کے لئے کوئی ہمدردی نہیں ہے.
وزیراعظم کی نشری تقریر سے پہلے سرکاری نورتن بڑی بڑی بڑہکیں مار رہے تھے. کہ عمران خان تاریخ  کے سب سے بڑے عوامی ریلیف پیکج کا اعلان کرنے والے ہیں. مگر کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا. خان صاحب نے ریلیف پیکج کیا اناؤنس کرنا تھا. انہوں نے عوام کو آنے والے دنوں میں پٹرول مزید مہنگا ہونے کی خبر سنادی ہے.
بدقسمتی سے موجودہ حکومت تاریخ کی نااہل ترین حکومت ثابت ہوئی ہے.

جسے ریونیو اکٹھا کرنے میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے.  تین سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچلا ہے. مگر وزیراعظم اپنے منصب کا حق ادا نہیں کرسکے. اور نہ ہی ایک اچھی ٹیم میدان میں اتار سکے جو پرفارم کرتی .  خان صاحب نے ایک ایسے شخص کو سٹیٹ بنک کا گورنر مقرر کیا. جو اس سے  پہلے مصر کی معیشت کا بیڑا غرق کرچکا تھا. ان کی معاشی ٹیم کے دیگر ممبران میں بڑے بڑے نام شامل ہیں مگر ان کی پرفارمنس زیرو ہے.  کابینہ کے باقی ارکان کا حال بھی بڑا پتلا ہے.

ان کو لانے والے بھی یقینی طور پر پچھتا رہے ہوں گے.
مگر اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
دوسری طرف اس مہنگائی کی صورت حال میں اپوزیشن بالخصوص قائد حزب اختلاف کی مجرمانہ خاموشی بھی حیران کن ہے. میاں شہبازشریف  پچھلے دنوں فرما رہے تھے. وزیراعظم کے خلاف ابھی تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا وقت نہیں آیا. واہ جی کیا ارشاد فرمایا ہے موصوف نے.

حکومت کا چوتھا سال شروع ہوچکا ہے. مہنگائی اور بیروزگاری آسمان سے باتیں کررہی ہے. لوگ خودکشیاں کررہے ہیں. موجودہ حکومت کی ناکام پالیسیوں کی بدولت ملک عالمی تنہاہی کا شکار ہوچکا ہے. اندرون ملک ہر طرف ابتری ہی ابتری  پھیل چکی ہے. مگر  چھوٹے میاں صاحب فرمارہے ہیں ابھی تحریک عدم اعتماد کا وقت نہیں آیا. شائد ان کو گیٹ نمبر چار کے کھلنے اور وہاں سے بلاوے کا انتظار ہوگا.

ممکن ہے وہ کسی گرین سگنل کے انتظار میں ہوں . تب ہی وہ کوئی حرکت کریں گے. ورنہ اسی تنخواہ میں کام کریں گے. یہی ہمارے سیاستدانوں کی اوقات ہے.  نادیدہ ہاتھوں کے سامنے دبک کر رہنا اور عوام کے سامنے شیر بننا. ممتاز صحافی جناب مظہر عباس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں .گیٹ نمبر چار غیر متعلقہ لوگوں کے لئے بند ہونا چاہئے.
علاوہ ازیں ملک میں بڑے بڑے مگرمچھ جو کروڑوں کا کاروبار کرتے ہیں.

مگر ٹیکس ادا کرتے ہوئے انہیں تکلیف ہوتی ہے. حکومت کو جب پیسا اکٹھا کرنا ہوتا ہے تو وہ تاک کر غریبوں کے زیراستعمال اشیاء پر ٹیکس لگا دیتی ہے. جس کی وجہ سے چھوٹے طبقے کے لوگوں کو گرانی کا سامنا کرنا پڑتا  ہے.  خوردنی آئل, مصالحہ جات, دالوں اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے. مگر حکومت خواب خرگوش کے مزے لینے میں مصروف ہے.

مہنگائی کے اسباب کیا ہیں. متعلقہ وزرا اور افسران کو اس کا جائزہ لینا چاہئے. اور ناجائز منافع خوری کا سدباب کرنا چاہئے. مگر اس سنگین مسئلے کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتا. درحقیقت خان صاحب کی کابینہ کے  چند ارکان چینی, گندم, ادویات اور پٹرولیم کے کاروبار سے وابستہ ہیں. مختلف اطراف سے یہ لوگ تنقید کی زد پر ہیں. ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے ہاتھ ناجائزہ منافع خوری  اور زخیرہ اندوزی سے لتھڑے ہوئے ہیں. مگر خان صاحب محض اپنے حکومت بچانے کے لئے ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کر رہے ہیں.
دوسری طرف لوگ بھی بڑے ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں. جو اس سنگین صورت حال میں بھی ٹس سے مس نہیں ہورہے.اور ظالم حکمرانوں کے خلاف اور اپنے حق کے لئے کھڑے نہیں ہورہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :