چور کی داڑھی میں تنکا۔۔۔!

پیر 8 مارچ 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

بچپن میں یہ محاورہ کئی دفعہ سنا اور یاد کرا یا جاتا رہا مگر اس کا مطلب ہمیشہ یہی سمجھا کہ چور جب بھی چوری کرتا ہوگا تو کوئی تنکا اس کی داڑھی میں پھنس جاتا ہوگا اسی لیے ایسا کہا جاتا ہے کیونکہ میں ایک گاوں میں پلا بڑھا تو تنکے تو عام ہوتے ہیں اور وہاں اکثر اوقات پیسہ  اور  ہرقیمتی چیز کو بھی گندم کے بھوسے (توڑی) میں چھپا کر رکھا جاتا تھا  اور داڑھی بھی تقریبا سارے گاوں کے مرد رکھتے تھے، اس لیے  میرے چھوٹے سے دماغ میں یہی آتا کہ چوری کرتے وقت تنکا چور کی داڑھی میں رہ جاتا ہوگا اس لیے وہ پکڑا جاتا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ والد صاحب کا تبادلہ شہر میں ہوگیا کیونکہ وہ ایک سرکاری افسر تھے اس لیے شہر میں جب دیکھا کہ یہاں تو بغیر داڑھی والے بھی ہوتے ہیں تو اس محاورہ کی تشریح بھی دوبارہ کرنی پڑی تو استاد محترم نے سمجھایا کہ چور  جب بھی چوری کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی نشانی چھوڑ جاتاہے جس سے وہ پکڑا جاتاہے اس لیے کہتے ہیں کہ چور کی داڑھی میں تنکا مگر دماغ میں یہ بات بیٹھی نہیں کیوں کہ جب تک کوئی عملی مظاہرہ نہ ہو تو بات سمجھ نہیں آتی اسی لیے پریکٹیکل بہت ضروری ہوتےہیں  ہر اہم مضمون میں۔

(جاری ہے)


بڑے ہونے پر اس محاورہ کے کئی عملی مظاہرے بھی دیکھ لیے اور یہ بات سمجھ میں آگئی کہ واقعی چور کوئی ایسا کام کرتا ہے یا کوئی ایسی نشانی رہ جاتی ہے کہ جس سے اس تک پہنچنا یا اسے پہچاننا آسان ہو جاتا ہے۔اور اب تو اس محاورہ نے اتنی ترقی کر لی کہ حکومتی سطح پر بھی اس کا عملی مظاہرہ  پیش کیا جارہا ہے تاکہ اب کم سن بچوں کو بھی یہ سمجھ آ سکے کہ چور کی داڑھی میں تنکا کا کیا مطلب ہے اور انہیں  میری طرح اسے سمجھنے میں اتنی تگ و دو نہ کرنی پڑے۔


ہوا کچھ یوں کہ ایک جماعت نے پاکستان میں چور چور کا شور مچایا اور ہمارے پاکستانی بھائیوں نے حسب روایت ان کے پیچھے دوڑ لگا دی کہ  اب کے چور کو نہیں چھوڑیں گے اور اس سے چوری کا مال بھی برآمد کر اکے دم لیں گے۔کرپشن اور چوری کا یہ شور مسلسل کئی سال چلتا رہا مگر سنوائی نہ ہوئی تو عوام نے ان شور کرنے والوں کو اپنا مسیحا سمجھ کر اپنے ووٹ کی طاقت بھی ان کے ساتھ شامل کردی۔

پھر کیا تھا ان کی حکومت آگئی اور چور پکڑے جانے لگے۔ عوام میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ چلو اب پکڑے تو گئے ہیں نا تو اب پیسہ بھی برآمد ہو جائےگا، مگر ہوا کچھ یوں کہ کچھ ہی عرصے میں ملک میں غربت بڑھنے لگی، مہنگائی بڑھنے لگی، بے روزگاری بڑھنے لگی،لوگوں کے مکانات منہدم ہونے لگے، اور شور یہ ڈالا جانے لگا کہ قبضہ مافیا کے خلاف جنگ ہو رہی ہے اس لیے صبر کریں ۔

عوام پھر خون کے گھونٹ پی کر چپ ہوگئی  ، پھر یوں ہوا کہ چوربغیر وصولی کے  جیلوں سے باہر جانے لگے اور ان  پر الزامات جھوٹے ثابت ہونے لگے اور باہر کی عدالتوں میں بھی چور سچے ثابت ہونے لگے تو میرے جیسے لوگ سوچنے پر مجبور ہونے لگے کہ کیا وجہ کہ چور کی کوئی نشانی ، کوئی ایسا کام، کوئی تنکا  ایسا کیوں نہ ملا کہ جس سے مال مسروقہ برآمد ہوسکے؟۔

ا س سارے گورکھ دھندے میں تقریبا پونے تین سال کا عرصہ بیت گیا اور اس عرصہ میں ریلوے تباہ ہو کر رہ گئی اوربیرونی قرضہ میں ملک غوطے کھانے لگا، پوسٹل سروس میں پورے 80 ارب غریب پنشن والوں کے غائب ہوگئے جب کہ اس کا وزیر بھی وہ جو سب سے زیادہ مال مسروقہ برآمد کرنے اور اس کے مصارف بیان کرنے میں پیش پیش تھا، ایف۔اے۔ٹی ۔ایف سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھ کر چوتھی ایکسٹینشن ملی جس کا  حکومتی سطح پر جشن منایا جارہا ہے کہ بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے میں ناکام رہا حالانکہ پاکستان گرے لسٹ میں رہتے ہوئے بھی 38بلین ڈالر کا نقصان  برداشت کر چکا اور ایسا کچھ نہیں کیا جا سکا کہ اسے وائٹ لسٹ میں ہی لے جاتے بلکہ انٹرنیشنل ٹرانپیرنسی رپورٹ کے مطابق ملکی کرپشن میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔

ایف بی آر نے ٹیکس کی چوری روکنے کے لیے الیکٹرانک ٹریکنک سسٹم لگانے کا کنٹریکٹ ایک کمپنی کو جاری کیا اور پیپرا رولز کو ایک سائیڈ پر رکھ دیا تو پیپرا نے دخل اندازی کی کہ اپنوں کو نوازنے  کے لیے 25 ارب روپے کا کنٹریکٹ بغیر ٹینڈر کے کیسے جاری ہوا تو پیپرا کو بھی ٹھیک کر نا پڑا اور پھر پیپرا نے بھی سب اوکے ہے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ملین ٹری سونامی کا حال بھی زبان زدعام ہوچکا،بجلی،چینی،آٹا،پیڑول،گھی،آئل، چکن، انڈے   ان سب مافیا کے خلاف حکومتی جہاد جاری ہے جسکی وجہ سے چور خوشحال پروگرام بہت ترقی کر رہا ہے ۔


چور چور کا شور کرتے ہوئے  جو حکومت میں آئے وہ اپنی داڑھی میں تنکا ایک ضمنی الیکشن میں ہی پھنسا بیٹھے۔جب کہیں سے بھی کامیابی نہ مل سکی  اور  این۔اے ۔75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں دو انسانی جانوں کے نقصان کے  بعد بھی جب نتائج حسب منشاء نہ آئے تو پورے 20 پولنگ اسٹیشن کا عملہ ہی غائب کر دیا گیا مگر یہ چوری پکڑی گئی تو حکومتی سطح پر پورے زور و شور سے یہ کہا جانے لگا کہ ہم نے تو نہیں کیا اپوزیشن نے کیا ہوگا، کیوں کہ ہم تو الیکشن جیت رہے تھے  پھر بھی دوبارہ پولنگ کرانے کو تیار ہیں ان کے اس بیان کو الیکشن کمیشن نے سچ سمجھ لیا یا اپنی ایمانداری کی بنا ء پر دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا تو وہی حکومت اسے چیلنج کرنے کا کہ رہی ہے۔

اور اگر اب بھی کسی کو  اس محاورہ کی سمجھ نہیں آتی تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :