وزیراعظم پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف کا غیر معمولی دورہ سعودی عرب

بدھ 12 مئی 2021

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں پاکستانی حکمرانوں کے دورہ سعودی عرب کی ایک خاص روایت رہی ہے۔جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے بعد ہر حکمران نے اس روایت کو برقرار رکھا۔سعودی عرب کے ساتھ مخصوص تعلقات کے باعث آرمی چیف کا دورہ بھی اس سرگرمی کا حصہ بن چکا ہے۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ہمراہ جنرل راحیل شریف کا سعودی عرب جانا بھی اسی روایت کا حصہ تھا اور اس مرتبہ وزیر اعظم کے دورے سے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ سعودی عرب بھی اسی اہمیت کا حامل ہے
پاکستان کی فوج کے شعب? تعلقات عامہ کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریاض میں سعودی چیف آف جنرل اسٹاف جنرل فیاض بن حمد الروئیلی سے ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون بڑھانے اور خطہ میں امن کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

(جاری ہے)

آرمی چیف کے ریاض پہنچنے پر پاکستان کے سعودی عرب میں سفیر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ بلال اکبر نے پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کے ہمراہ ان کا استقبال کیا۔پاکستان کی فوج کے شعب? تعلقات عامہ کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریاض میں سعودی چیف آف جنرل اسٹاف جنرل فیاض بن حمد الروئیلی سے ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون بڑھانے اور خطہ میں امن کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا مبصرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب بہت اہم ہے۔اس دورے میں سیکیورٹی سمیت خطے کی صورتِ حال بالخصوص ایران اور سعودی عرب کے بہتر تعلقات پر بھی تبادل? خیال کیا گیا۔۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان ایران اور سعودی تعلقات کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
 وزیر اعظم عمران خان کیولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات
وزیر اعظم عمران خان کی جدہ میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات ہوئی، جس کے دوران سعودی عرب اور پاکستان کے مابیناعلیٰ سطح کی رابطہکونسل کے قیام کے لیے مفاہمتی یادداشت سمیت مجموعی طور پر پانچ معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جنکے کچھ بیانات کی وجہ سے سعودی عرب میں ناراضگی بھی پاء جاتی ہے اور وفاقی کابینہ کے کچھ دیگر ارکان بھی وزیر اعظم کے ہمراہ ہیں جبکہ دورے کی تیاریوں کے لیے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے مشرق وسطیٰ علامہ طاہر اشرفی اور معاون خصوصی برائے سیاسی امور ڈاکٹر شہباز گل بدھ کوجدہ پہنچے تھے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جدہ میں میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا: 'مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ان ملاقاتوں کا ماحول انتہائی دوستانہ تھا اور جو گرمجوشی دکھائی دے رہی تھی اس سے مستقبل کی راہوں کا تعین واضح دکھائی دیتا ہے۔

'
وزیر خارجہ نے بتایا کہ ان کی سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کے ساتھ بھی نشست ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ 'وفود کی سطح پر مذاکرات کے بعد ہماری ایک مختصر گروپ ملاقات ہوئی، جس میں وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف اور میں خود موجود تھا۔'
پانچ معاہدوں پر دستخط
شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ 'آج پانچ اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے۔

ایک معاہدہ وزیر اعظم عمران خان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان رابطہ کونسل کے قیام کے حوالے سے ہوا۔'
واضح رہے کہپاک- سعودی رابطہ کونسل میں سعودی عرب کی طرف سے قیادت ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کریں گے۔
وزیر خارجہ نے مزید بتایا: 'دو معاہدے بالترتیب قیدیوں کے تبادلے اور جرائم کی بیخ کنی کے حوالے سے طے پائے، جن پر وزیر داخلہ شیخ رشید نے دستخط کیے جبکہ دو معاہدوں پر میں نے دستخط کیے، ان میں سے ایک معاہدہ انسداد منشیات کے حوالے سے تھا، جبکہ دوسرے معاہدے کی رُو سے سعودی عرب پاکستان کو سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ سے 500 ملین ڈالرز کی رقم فراہم کرے گا۔

اس رقم کو پاکستان میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، آبی وسائل کی ترقی اور ہائیڈرو پاور ڈویلپمنٹ کے لیے خرچ کیا جائے گا۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ سعودی ولی عہد نے ہمیں سعودی عرب کے 'وژن' کے خدوخال سے تفصیلاً آگاہ کیا، جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہیں اگلے دس سال کے دوران دس ملین افرادی قوت درکار ہو گی۔
وزیر خارجہ کے مطابق: 'انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستانی ورک فورس کی گذشتہ خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مطلوبہ ورک فورس کا زیادہ حصہ پاکستان سے لیا جائے گا۔

اور روزگار کے مواقعوں کے حوالے سے یہ پاکستانیوں کے لیے ایک بہت بڑی خبر ہے۔'
سعودی ولی عہد اور وزیراعظم عمران خان کی ملاقات کی تفصیلات
سعودی ولی عہد اوروزیراعظم عمران خان کی ملاقات جمعے کو جدہ میں السلام پیلس میں ہوئی، جس کے دوران دونوں ملکوں کے گہرے تعلقات اور انہیں وسعت دیتے ہوئے مختلف شعبوں باہمی رابطوں کی ضرورت پر زور دیا گیا۔


مذاکرات میں دونوں ملکوں کو علاقائی اور بین الاقوامی محاذ پر مسائل کے حوالے سے تبادلہ خیال پر بھی زور دیا گیا تاکہ خطے کے امن واستحکام کو مضبوط بنایا جا سکے۔
اسلامی وحدت کے فروغ میں خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے علاقائی اور بین الاقوامی امن کے فروغ اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل میں سعودی قیادت کی کوششوں کو سراہا۔


سعودی ویژن 2030 کی روشنی میں سرمایہ کاری کے مختلف مواقع کی نشاندہی پر دونوں ملکوں کی قیادت نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات مضبوط بنانے کے سلسلے میں بھی مذاکرات کیے۔
دونوں ملکوں نے پاکستان میں ترقی کے امکانات پر خصوصی طور پر بات کی۔ نیز دوطرفہ سکیورٹی اور فوجی معاملات کو سنجیدہ خطوط پر استوار کرنے کے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو مزید فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا
اس سے قبل پاکستان میں تعیناتسعودی سفیر نواف سعید المالکی نے بتایا تھاکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے دوران دونوں ممالک کے درمیان متعدد معاہدے ہوں گے۔


سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون اور تعلقات کو منظم اور مربوط کرنے کے لیے 'سعودی-پاکستانی سپریم کوآرڈینیشن کونسل' قائم کرنے کے معاہدے پر بھی دستخط کیے گیے۔
اس سے قبل پاکستان کی کابینہ دو روز پہلے ہی اس کونسل کے قیام کی منظوری دے چکی ہے۔ اس کونسل کا مقصد دونوں ممالک کے دو طرفہ تعاون کو بہتر اور ہموار کرنا ہے تاکہ فروری سنہ 2019 کے سعودی ولی عہد کے پاکستان کے دورے کے دوران جو سرمایہ کاری کے معاہدے طے پائے تھے ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔


سعودی عرب کی سرکاری خبر راساں ادارے سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق، دونوں ملکوں کے نمائیندوں نے غیر قانونی منشیات، جدید نشہ آور ادویات اور ان کے کیمیائی عناصر کی سمگلنگ روکنے کے لیے ایک یاد داشت پر دستخط کیے ہیں۔ایس پی اے کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ملاقات کے دوران انہوں نے دونوں برادر ممالک کے مابین تعلقات کی گہرائی کا اعادہ کیا اور دوطرفہ تعاون اور کوآرڈینیشن کے پہلوؤں کو وسعت دینے اور تیز کرنے اور مختلف شعبوں میں ان کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔


اس کے علاوہ فریقین نے علاقائی اور بین الاقوامی میدانوں میں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر اعظم نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود کی اسلامی اتحاد کو فروغ دینے اور اسلامی اقوام کو درپیش مسائل کے حل میں سعودی عرب مملکت کے مثبت کردار کی تعریف کی۔ انھوں نے سعودی عرب کی علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لئے کوششوں کو بھی سراہا۔


دونوں ممالک نے سعودی عرب کے وژن 2030 اور پاکستان میں ترقی کی ترجیحات کی روشنی میں سرمایہ کاری کے مواقع اور ان کے ذریعے دونوں ممالک کے مابین معاشی اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے اور مضبوط بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے دو طرفہ فوجی اور سیکیورٹی تعلقات کی مضبوطی پر اپنے اطمینان کی تصدیق کی اور دونوں ممالک کے مابین مشترکہ اہداف کے حصول کے لئے مزید تعاون پر اتفاق کیا۔


فریقین نے عالم اسلام کی طرف سے انتہا پسندی اور تشدد کا مقابلہ کرنے اور فرقہ واریت کو مسترد کرنے اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے حصول کے لئے بھرپور کوششوں پر زور دیا۔پاکستان اور سعودی عرب نے دہشت گردی کے اس رجحان سے نمٹنے کے لئے مشترکہ کوششوں کو جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا جس کا کسی مذہب، نسل یا رنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور اس کی تمام ’شکلوں اور تصویروں‘ کا مقابلہ کریں، چاہے اس کا کوئی بھی ذریعہ ہو۔

ایک سعودی ویب سائیٹ العربیہ کے مطابق، 'سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیاان توانائی کے شعبے، انفرسٹرکچر، ٹرنسپورٹ، پانی اور کمیونیکیشن کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ایک اور مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط کیے گئے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کا سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر سعودی عرب کا تین روزہ دورہ جمعة الوادع کے دن سے شروع ہوا تھا جو نو مئی تک جاری رہا، جبکہ اِس دوران پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ اُسی روز سعودی ولی عہد سے ملاقات کر چکے ہیں۔


سعودی عرب کے نجی شعبے کہ انگریزی اخبار عرب نیوز کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کا استقبال ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بذات خود کیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان پاء جانے والی سردمہری کے خاتمے کا اشارہ ملتا پے
کشمیر کے پرامن حل پر زور
پاکستانی اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے قومی معاشی ترقی کے لیے پرامن ہمسائیگی سے متعلق بات کی۔

پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نیجموں اور کشمیر تنازع کے پرامن حل پر زور دیا ہے۔
وزیر اعظم نے خطے میں امن اور سیکورٹی کے فروغ کے لیے سعودی ولی عہد کی کوششوں کی تعریف بھی کی ہے۔
اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم نے افغانستان میں بھی امن اور مصالحت میں پاکستان کی مستقل کوششوں کا ذکر کیا ہے۔ دونوں ممالک نے فلسطینیوں کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا ہے۔

دونوں ممالک نے شام اور لیبیا میں تنازعات کے سیاسی حل سے متعلق اپنی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب کی طرف سے جاری کردہ بیان میں یمن کے تنازع پر بھی تفصیلات شامل ہیں اور سعودی عرب کے خلاف حوثی ملیشیا کے میزائل اور ڈرونز حملے کی مذمت بھی شامل ہے۔
اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم نے ولی عہد کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی جو انہوں نے قبول کر لی۔


وزیر اعظم اور آرمی چیف بیک وقت سعودی عرب میں موجودگی سابقہ تلخیوں کو ختم کرنے کی کوشش۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم اور فوج کے سربراہ کا بیک وقت سعودی عرب کا دورہ کرنا خطے میں بدلتی ہوئی حالت میں زیادہ اہمیت کا حامل بن گیا ہے، لیکن ماہرین کا خ?یال ہے کہ سٹریٹیجک معاملات میں دونوں کی پالیسیوں میں شاید ہی تبدیلی آئے، البتہ دونوں اب اپنے تعلقات کو 'ری سیٹ' (دوبارہ سے ترتیب) دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔


ناخوشگوار پس منظر۔
وزیرِ اعظم کے وفد میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر اعلیٰ حکام شامل ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے بارے میں کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس نہ بلانے پر کافی سخت باتیں کی تھیں۔ پھر قریشی نے متحدہ عرب امارات میں انڈیا کی اُس وقت کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کو بلائے جانے پر اسلامی ممالک کے وزاراءِ خارجہ کے اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔


اس کے بعد جب پاکستان نے ملائیشیا میں انڈونیشیا، ترکی، بنگلہ دیش اور ایران کی قیادت میں معقد ہونے والے اسلامی بلاک میں شرکت کا اشارہ دیا تھا تو سعودی عرب نے پاکستان سے سخت نارضی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم جلد ہی پاکستان نے کوالالمپور جانے کا اعلان کرنے کے بعد
 مبینہ طور پر سعودی دباؤ میں آکر فیصلہ تبدیل کرلیا تھا۔
سعودی عرب نے، جو پاکستان کے یمن کی جنگ میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے پہلے سے ناراض تھا، سنہ 2018 میں پاکستان کو ادائیگیوں کا توازن بہتر کرنے کے لیے تین برسوں کے لیے تین ارب ڈالرز کے قرضوں کی جو سہولت دی تھی، اُسے بھی اچانک تبدیل کردیا تھا۔


سعودی عرب نے پاکستان سے گزشتہ برس جولائی میں اچانک مطالبہ کیا تھا کہ وہ تین ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر فوراً واپس کرے۔ سخت مالیاتی تنگی کے باوجود، پاکستان نے چین کی امداد سے یہ قسط فوراً ادا کردی۔ دسمبر میں پاکستان نے چین کی مدد سے سعودی عرب کو مزید ایک ارب ڈالر واپس کردیے۔
اس طرح پاکستان کے اپنے 'برادر اسلامی ملک' سے تعلقات کمزور ترین سطح پر آگئے تھے۔


اب جبک عمران خان اور جنرل قمر باجوہ دونوں سعودی عرب کے دورہ پر اکٹھے گیے تو شہزادہ محمد بن سلمان سے دونوں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ماہرین اس بات پر متفق نظر آرہے ہیں کہ اب دونوں ممالک اپنی نئی پالیسیوں کو چھوڑے بغیر نئے انداز سے دوستی کو ترتیب دے رہے ہیں۔
خطے کے امور سے واقف تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکہ میں جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ کا ایران سے جوہری منصوبے پر کیے گئے معاہدے کی کسی نئی صورت میں بحالی پر بات چیت اور چین کی ایران میں چار سو ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا منصوبہ سعودی پالیسی میں تبدیلی کا سبب بنا ہیپاکستان میں سرکاری حلقوں کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے اس دورے میں وہ سعودی عرب کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شمولیت کے حوالے سے بات کریں گے،، گوادر میں آئل ریفائنری پر پیش رفت پر بات ہوء ہے اور پاکستانی قیدیوں کی رہائی پر ٹھوس بات ہوء ہے۔


معیشت،مزاکرات کا مرکزی نکتہ۔
زرائع کے مطابق پاک سعودی مذاکرات کے دوران معیشت مرکزی نکتہ رہا۔ پاکستانی ریاست نے اپنی اقتصادی ضروریات کو قومی سلامتی کا اہم پہلو قرار دیتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو از سرِ نو ترتیب دینا شرو ع کردیا ہے۔
اس سلسلے میں پاکستانی فوج کے سربراہ نے فوج کے خطے کی سلامتی میں سٹریٹیجک رول کا استفادہ کرتے ہوئے قطر کے دورے میں پاکستان کے لیے گیس کی قیمتوں میں نظرثانی کے پر مذاکرات کیے اور بالآخر قطر سے پہلے کی نسبت ایل این جی کے بہت کم نرخ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

جنرل باجوہ نے کہا تھا ماضی کے برعکس اب ریاست اقتصادی ترقی کو سب سے زیادہ ترجیح دے رہی ہے۔ پاکستان نہ صرف سعودی عرب، بلکہ خلیج کی دیگر ریاستوں کے ساتھ بھی نئے حالات میں اپنے تعلقات کو نئے انداز سے ترتیب دے رہا ہے۔سفاریی زرائع کے مطابق موجودہ سفارتی سرگرمیوں کی تیزی میں 'ایک وجہ کووڈ-19 کی وبا سے سے پیدا ہونے والے اثرات بھی ہیں۔ غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کا زر مبادلہ کے ذخائر اور ترسیلات زر میں 86 فیصد حصہ ہے۔

جس میں سے زیادہ تر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے آتا ہے۔'
کووڈ کی وجہ سے اور تیل کی قیمتیں گرنے اور ان ممالک میں اقتصادی ترقی کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے بہت سارے پاکستانی ملازمتوں سے محروم ہو رہے ہیں اور یہ واپس آرہے ہیں۔ پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ سعودی عرب اپنے ویژن 2030 کے منصوبوں میں پاکستانی ماہرین اور ورکروں کو جائز موقع دے۔

سعودی عرب پاکستان کو نظرانداز نہیں کرسکتا ہے اس لیے پاکستانی وزیرِ اعظم اس موضوع پر بھی ولی عہد سے بات کی ہے۔
'اس کے علاوہ سعودی عرب یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ ’چین-ایران ڈیل‘ کا اس کے مفادات پر گہرا اثر پڑے گا، وہ اس سلسلے میں پاکستان کا تعاون چاہتا ہے۔ پاکستان یہ بھی جانتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سابق امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں کی وجہ سے چند ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا، لیکن پاکستان ایسا نہیں کرے گا۔

'
خلاصہ کلام
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایک مختصر سردمہری کے وقفہ کے بعد بتدریج گرم جوشی ا رہی ہے۔ان تعلقات کی بہتری میں آرمی چیف نے ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے سعودی قیادت نے بھی زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوے اپنے رویے پر نظر ثانی کی ہے۔چین اور ایران کے بڑھتے ہوے تعلقات اور نء امریکی انتظامیہ کے بدلتے رویوں نے سعودی عرب کو پاکستان کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور کیا ہے توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں سعودی عرب کے تعاون سے پاکستان کے معاشی حالات میں مزید بہتری اے گی اور دونوں ممالک ایک نئے عزم کے ساتھ سفر جاری رکھیں گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :