
پاکستان چین اور افغانستان
پیر 21 جون 2021

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ
(جاری ہے)
سہ فریقی مذاکرات کی تاریخ
پاکستان چین افغانستان کے درمیان مذاکرات کی ایک الگ تاریخ ہے۔تینوں ممالک کے راہنما اس بات پر یقین رکھتے ہیں اگر یہ مذکورہ ممالک ایک راے ہر متفق ہوجایں تو ان میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔اس سلسلہ میں 7 ستمبر 2019
پاکستان،چین اورافغانستان کے وزرا ئے خارجہ کا سہ فریقی اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔اجلاس میں سیاسی تعلقات،سیکیورٹی تعاون،انسداد دہشت گردی،اورترقیاتی تعاون سمیت دیگر امور پر گفتگو ہوء۔اس اجلاس کی صدارت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔اس اجلاس کی
تفصیلات کے مطابق پاکستان افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کا تیسرا دور اسلام آباد میں ہوا، مذاکرات میں افغان امن عمل اور خطے کی صورتحال پر بات چیت ہوء۔
2019 میں منعقد ہونے والے اجلاس کے بعد ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوی۔، پاکستانی وفد کی قیادت وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی جبکہ چینی وفد کی قیادت چینی وزیرخارجہ وانگ ژی اور افغان وفد کی قیادت افغان وزیرخارجہ صلاح الدین ربانی نے کی تھی۔
یاد رہے پاکستان افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کا پہلا دور 2017 میں بیجنگ میں اور دوسرا دور 2018 میں کابل میں ہوا تھا، ڈائیلاگ کا مقصدباہمی مفادات،اقتصادی تعاون، امن وسلامتی رہا۔اس ڈائیلاگ سے تینوں ممالک کو سیاسی تعاون، افغان امن و مفاہمتی عمل کے لئے مشترکہ کوششوں کا موقع ملا، پاکستان اعتماد سازی، کونیکٹیویٹی اور تعاون کو اہمیت دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مشترکہ تشویش کے امور پر وسیع تر مفاہمت ضروری ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان سہ فریقی مذاکرات کو خطے میں سیاسی استحکام کیلئے اہمیت دیتا ہے۔یاد رہے کہ افغانستان میں امن کے قیام اور دونوں ممالک کے مابین عدم اعتماد کی فضا ختم کرنے کے لیے جون میں مری بھوربن میں پہلی افغان امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں پاک افغان تعلقات پر پروپیگنڈا یا منفی تاثر پھیلانے کے حوالے سے معاملات دیکھے گئے تھے۔
اپریل میں وزیر خارجہ شاہ محمود نے بیجنگ میں چین کے وزیر خارجہ مسٹر وانگ ژی سے ملاقات کی تھی، اس ملاقات میں پاک چین تعلقات، سی پیک، خطے کی سیکیورٹی سمیت افغان امن عمل پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔
وزیر خارجہ کا خصوصی دورہ چین
پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے زیادہ بلند،سمندر سے زیادہ گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔دونوں ممالک اس حقیقت سے آگاہ بھی ہیں۔سہ فریقی مزاکرات کے ساتھ ساتھ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو الگ سے بھی خصوصی اہمیت دیتا ہے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو فروغ دینے کیلے گزشتہ سال اگست میں وزیر خارجہ نے چین کا خصوصی دورہ بھی کیا تھا۔اس دورے میں چین اور پاکستان نے مشترکہ مفادات کے تحفظ اور خطے میں ترقی و خوش حالی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اقدامات کرنے پر اتفاق کیا۔اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان یہ اتفاق اگست 2020 کو چین کے صوبے ہنان میں 'پاک چین سٹریٹیجک ڈائیلاگ' کے دوسرے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان کی صورت میں سامنے آیا ہے۔پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اجلاس میں شرکت کے لیے چین پہنچے تھے۔ جہاں انہوں نے چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی کے ساتھ مشترکہ طور پر پاک چین سٹریٹیجک ڈائیلاگ میں شرکت کی۔
اس دورے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسی روز چین کے صدر شی جن پنگ نے ایک خصوصی بیان جاری کیا جس میں کیا گیا کہ دونوں ملکوں کے مشترکہ مستقبل کی تعمیر اور علاقائی ممالک کے درمیان تعاون کے فروغ کے لیے چین، پاکستان کے ساتھ مل کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس خصوصی پیغام کے جواب میں پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق چین کے صدر شی چن پنگ نے صدر عارف علوی کے نام لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ خطے میں امن و ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے چین اور پاکستان مل کر مل کر کام کر رہے ہیں۔صدر شی جن پنگ کے بقول کرونا وائرس کے خلاف عالمی کوششوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اس وبا کو شکست دینے کے لیے باہمی حمایت، یکجہتی اور تعاون ہی واحد راستہ تھا۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے پاکستانی صدر عارف علوی کے نام خط کے جواب میں مزید کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری، چین کے وسیع تر 'ون بیلٹ اینڈ ون روڈ منصوبے' کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان کے بقول یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے درمیان سٹریٹیجک تعاون اور شراکت داری کو مزید ترقی دینے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔
اگست 2020 میں وزیر خارجہ کے دورہ چین کی اہمیت
وزیر خارجہ کے دورہ چین پر دفتر خارجہ نے ایک خصوصی بیان جاری کیا۔وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ چین پر پاکستانی دفترِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان او ر چین کے اعلیٰ حکام نے کرونا وائرس، دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔
چین پاکستان سٹریٹیجک ڈائیلاگ کا دوسرا اجلاس ایسے موقع پر ہوا ہے کہ جب پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ دوسرے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔دفترِ خارجہ کے مطابق اسلام آباد اور بیجنگ نے ایک دوسرے کے قومی مفادات سے متعلق بنیادی معاملات کے لیے ٹھوس حمایت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
اس موقع پر چین نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان خطے میں چین کا مضبوط شراکت دار ہے۔ جب کہ چین علاقائی سالمیت، خود مختاری اور آزادی کے تحفظ میں پاکستان کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان نے قومی سلامتی اور سالمیت کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کے ساتھ کھڑے ہونے پر چین کے کردار کو سراہا۔ جب کہ پاکستان نے چین کے بنیادی معاملات بشمول تائیوان، سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ پر چین کی حمایت کا اعادہ کیا ہیچین پاکستان سٹریٹیجک ڈائیلاگ کا دوسرا اجلاس ایک ایسے موقع پر ہوا ہے کہ جب پاکستان چین اقتصادی راہدری (سی پیک) منصوبہ دوسرے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔
اس مرحلے کے دوران سی پیک کے تحت توانائی کے کئی بڑے منصوبوں کے لیے معاہدے طے پا چکے ہیں۔
مشترکہ ییان کے مطابق پاکستان اور چین نے اس بات پر زور دیا کہ ایک مستحکم اور پرامن جنوبی ایشیا تمام فریقوں کے مفاد میں ہے۔ انہیں خطے میں اپنے باہمی تنازعات کو برابری اور باہمی احترام کے ساتھ بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ پانچ اگست کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ جس کے بعد سے پاکستان خطے میں بھارت کی جانب کیے گئے مبینہ متنازع اقدامات پر عالمی برداری کی توجہ دلاتا رہا ہے۔ جب کہ پاکستان اس معاملے کو چین کی مدد سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اٹھا چکا ہے۔ تاہم پاکستان کی ان کوششوں کو بھارت اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا رہا ہے۔
چین کا مؤقف ہے کہ جموں و کشمیر تاریخی طور پر ایک حل طلب تنازع ہے۔ جس کا حل اقوامِ متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ جب کہ چین کسی بھی ایسے یک طرفہ اقدام کے خلاف ہے جو صورتِ حال کو پیچیدہ بنا دے۔
چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے افغان مسئلے کے حل کے لیے تعاون بڑھانے پراتفاق کرتے ہوئے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کو سراہا ہے۔
افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا اور پاک فوج کا واضح موقف۔پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔اس حوالے سے اس سال اپریل میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکی وزیرخارجہ کے درمیان ٹیلیفون پر رابطہ ہوا ہے، آرمی چیف کا کہنا ہے کہ پاکستان ہمیشہ افغان عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق افغان مسئلہ کے حل کا حامی رہا ہے، افغان مسلہ کے تمام سٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے افغان عمل کی کامیابی کے متمنی ہیں، جب کہ امریکی وزیر خارجہ نے علاقائی امن واستحکام کے لیے پاکستانی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان،امریکا دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دی جائے گی.دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان میں گیارہ ستمبر سے فوجی انخلا شروع ہوجائے گا۔ یعنی بیس برس بعد افغانستان میں موجود باقی امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔
پاکستانی سپہ سالار جنرل قمرجاوید باجوہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ نہ صرف مبنی بر حقیقت ہیں بلکہ موجودہ حالات کے تناظر میں وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہیں۔ اور دنیا کو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ پر امن افغانستان کی مدد سے علاقائی وسائل کے بہترین استعمال کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگرممالک کے درمیان تعاون واشتراک کی راہیں ہموار ہوں گی۔ افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن خطے کی سلامتی اور ترقی وخوشحالی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔پوری عالمی برادری جانتی ہے کہ افغانستان میں امن کی اہمیت کے مد نظر پاکستان نے افغان طالبان اور امریکاکے درمیان سیاسی روابط کے لیے نتیجہ خیزکوششیں کیں۔ قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کی تشکیل سے امریکا، چین، روس جیسے ممالک سے سیاسی روابط کے لیے پاکستان نے سنجیدہ کوششیں جاری رکھیں۔اس سلسلے میں پاکستان کی طرف سے افغانستان میں سیاسی حکومت کے قیام کے لیے بھی کوششیں کیں۔بون کانفرنس میں پاکستان کے فعال کردار کی وجہ سے پیدا ہونے والے اتفاق رائے سے افغانستان میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا اور کابل میں سیاسی حکومتوں کی تشکیل ہوئی۔ پاکستان نے افغانستان میں سیاسی حکومت کی تشکیل میں ٹھوس کردار ادا کیا اور اس کے ساتھ افغان طالبان اور عالمی برادری کے ذمے دار ممالک کے درمیان تعمیری مذاکرات کی راہ ہموار کی۔یہ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں ہی کا ثمر ہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدہ طے پایا، اور اب امریکی صدرجوبائیڈن بھی اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ جلد ہی امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا مکمل کرنا چاہتے ہیں۔افغانستان جسے پہلے ہی دنیا کا سب سے پرتشدد ملک کہا جاتا ہے، وہاں کے شہریوں کو اب خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ منصوبہ بندی کی جائے کہ جنگ کے بعد کے افغانستان کو پائیدار امن منتقل کرنے کے لیے دنیا کیا مدد کر سکتی ہے۔ افغان امن عمل کے تمام کرداروں کو خرابیاں دور کرنے کے لیے اپنا عمل دخل بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ افغان امن مذاکرات میں زبردستی نہیں ہونی چاہیے، تاہم تمام فریق کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کریں۔
افغانستان کے پر امن ہونے کا دوسرا مطلب وسط ایشیا کے تمام ایشیائی خطوں اور ممالک سے محفوظ تجارتی تعلقات کی بحالی ہے۔پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو پر امن افغانستان بلوچستان سے ایران اور ترکی جب کہ خیبر پختونخوا اوربلوچستان سے وسط ایشیا، مشرقی یورپ اور ترکی تک پر امن جغرافیائی ماحول کی تشکیل سے یہاں آباد کروڑوں زندگیوں کو خوش حال اورترقی کی نعمت سے ہمکنار کرنے کاباعث بن سکتا ہے۔
عالمی تناظر میں افغانستان،چین اورروس جیسی عالمی طاقتوں کی جغرافیائی قربت کے باعث خصوصی اہمیت کا حامل ہے جب کہ حساس جغرافیائی حیثیت،معدنی وسائل اورمحل وقوع کے دیگر پہلو اس کی بین الاقوامی اہمیت کی دلیل ہیں، اس لیے علاقائی امن وسلامتی کاسوال ہو یا عالمی امن اورترقی کو درپیش چیلنج، افغان امن عمل کی کامیابی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس بات پر یقین ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف افغان ہی کر سکتے ہیں۔ افغان مالیتی اور افغان قیادت میں مفاہمتی عمل کے ذریعے ہی افغانستان میں پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے اس کے لیے افغانستان کے سیاسی حقائق اور جہتوں کو سمجھنا ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ کے کالمز
-
آن لائن احتجاجی تحریک
جمعرات 17 فروری 2022
-
توجہ کا طالب
جمعرات 10 فروری 2022
-
یوم یکجہتی کشمیر
ہفتہ 5 فروری 2022
-
فوجداری قوانین: مجوزہ ترامیم اور حقائق
جمعرات 3 فروری 2022
-
سانحہ مری۔مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟
پیر 10 جنوری 2022
-
جمہوری روایات کو لاحق خطرات
بدھ 5 جنوری 2022
-
مولانا آرہے ہیں؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
سانحہ اے پی ایس۔ جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں
جمعہ 17 دسمبر 2021
پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.