سینٹ الیکشن۔۔۔۔"وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے

جمعہ 19 فروری 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

آج کل سینٹ انتخابات کی گرما گرمی عام ہے،گھوڑوں کی خرید وفروخت اور نوٹوں کے بریف کیس اسلام آباد کی منڈیوں میں دیکھے اور سپریم کورٹ سے سنے جا رہے ہیں، الیکشن کمیشن "ضمیر تو نہیں بیچو گے"؟ کا سوالنامہ اور حلف نامہ تیار کر رہا ہے، کیا یہ تبدیلی نہیں ھے؟، پہلے بکتے تھے، نہ خریدار کا پتہ تھا نہ بکنے والے کا،اب کچھ کچھ پتہ لگ رہا ہے، یہ بھی تو تبدیلی ھے نا! غالب نے کہا تھا کہ،
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
یہاں وفاداری ہی داؤ پر ہے، چاہے محبوب سے ہو، ملک سے یا عوام سے، میر جعفر، میر قاسم اور یزید و یزداں کی تاریخ ھمارا ہی ماضی ہے، اب ضمیر نہ بیچنے کی قسم کھا کر ضمیر بیچنے والوں کو کیا نام دیا جائے گا اور کیا سزا تجویز کی جائے گی؟ حکمران جماعت کو بھی وہاں سے مشکل کا سامنا ھے جو آسانیاں ہی آسانیاں تھیں، میری مراد خیبرپختونخوا ہے جہاں وزیراعظم عمران خان کو خود بھی کودنا پڑا اور عمران اسماعیل بھی آ دھمکے! ادھر عزیزی کے مرشد بھی اسلام آباد سے زور آزمائی کے لیے "تن گئے" ہیں، مرشد کا جلال آپ کو پتہ ہے مرید وفاداری نہ کرے تو بھسم ہو جاتا ھے، ان کے پیچھے بھی "بڑے مرشد"ہیں مسئلہ  یہ پیدا ھو گیا ھے کہ وہ "مفاہمت برائے ندامت" کے مرشد ہیں، یا روح سیاست کے، بی بی کے جو ناپسندیدہ تھے وہ ان کے پسندیدہ ھیں، یہاں تک کہ بی بی نے کہا تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے کچھ ھوا تو چوھدری صاحب ذمہ دار ھوں گے، وہی چوہدری صاحب "بڑے مرشد کے ڈپٹی وزیراعظم تھے,سیاست میں دل ھوتا ھے نا گردہ، جگر کی خوب آزمائش ہوتی ہے، بعض کا دماغ بھی نہیں ہوتا ویسے ایوانوں کو " سکول معذوراہاں" یا"  سپشل انسٹیٹیوٹ فار بالغاں" قرار دیا جائے تو مناسب ہو گا، پھر دل برداشتہ ہو کر سوچتا ہوں کہ اسپشل پرسن کی حساسیت کو زک نہ پہنچے، یہ کس ضمیر سے، ضمیر نہ بیچنے کی قسم اٹھائیں گے، بات "بڑے مرشد" کی ہو رہی تھی ، ان کی سیاست کے سب قائل ہیں، اس نیم صحت مندی میں بھی وہ " سیاست اور مفاہمت" کا پیغام پہنچا رہے ہیں  ایک طرف مسلم لیگ ن اور مولانا صاحب کو خبر دی ہے کہ اسٹبلشمنٹ سینٹ انتخابات سے لاتعلق رہے گی، دوسری یقین دہانی یہ کروائی کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائے گی، استعفوں سے وہ ھمیشہ بھاگتے ہیں کیونکہ "میدان خالی نہیں چھوڑنا" ورنہ نوجوان آگے آ جائیں گے، سندھ میں تبدیلی آ سکتی ہے، یہ خوف نمایاں ہے، دوسری طرف ن لیگ، اور مولانا ہر حال میں تبدیلی کو روکنا چاہتے ہیں، مارچ میں، لانگ مارچ، پھر "ڈبل مارچ" بھی ہو سکتا ہے، بڑے مرشد، آزاد ممبران قومی اسمبلی ، ناراض کھلاڑیوں، اور مفاہمتی حلیفوں سے ملاقات کے لیے نکل پڑے ہیں آئین اور قانون رکاوٹ ہے تو آرڈینس بحث کا باعث ہے، متناسب نمائندگی سے انتخاب ھوئے تو بریف کیسوں کو "مور"نہ پڑ جائیں، ایک نیا انداز فروخت بھی سامنے آیا ہے کہ "مال" جہاں چائیے وہاں پہنچا دیا جائے گا، الیکشن ایکٹ 2017ء ترمیم کے لیے اسمبلی میں بھی آیا، سپریم کورٹ کی ابزرویشن بھی ہے، آئین میں ممبران پر پابندی نہیں، قانون میں پابندی ھے، کچھ اخلاقیات بھی ہوتی ہے وہ تو بس جناب مشاہد اللہ خان صاحب کے ساتھ ہی دفن ھو چکی ھے، ھمارے زمانے میں ایک بندا الیکشن میں کھڑا تھا، نتائج کے بعد اس کے حصے میں تین ووٹ آ ئے، اس نے کہا! ایک میرا ووٹ، دوسرا میری بیوی کا، یہ تیسرا بے غیرت کون تھا، جس نے ووٹ دیا،؟یہاں سینٹ میں بھی ایسا ہی ہے، اچانک کسی کو ووٹ بڑ جاتے ہیں، کوئی کیسے پوچھے؟چارٹر ڈیموکریسی ھو، مسلم لیگ ن کے ماضی کے بیانات، خود گیلانی صاحب کی حکومت سمیت ہر دور میں سینٹ انتخابات شفاف بنانے کی بات ہوئی اب اگر خان صاحب، اوپن بیلٹ کروانا چا رہے ہیں تو اعتراض کس بات کا؟ وہ گیارہ جماعتوں کا اکیلا مقابلہ کر سکتا ہے، جب اپوزیشن میں تھا تو نواز شریف کی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا تھا تو دل پر ھاتھ رکھ کر بتائیں کہ آپ۔

(جاری ہے)

اسے غیر جمہوری طریقہ سے ھٹا کر خود کیسے حکومت کر سکتے ہیں؟ اس لئے " بڑے مرشد" کی بات مان لیں، لانگ مارچ آپ کریں گے، مستقبل آپ کا ڈبل مارچ ھو سکتا ھے۔توشہ خانے کے پیسے ہیں یا آف شور کمپنیوں کے، بریف کیسوں کو سنبھال لیں کوئی اور نہ لے جائے، جیسے عمران خان نوجوانوں کو کہتا تھا لیپ ٹاپ شہباز شریف سے لے لو ووٹ ھمیں دے دو، سینٹ میں سب سے دلچسپ مقابلہ "سیدی، مرشدی حضرت پیر یوسف رضا گیلانی صاحب المعروف ملتانوی، پگاڑوی، گجراتوی اور جلالوی کا ہے، جیت گئے تب بھی تعجب اور ہار گئے تو بھی حیرانی  بڑے مرشد اور بہت بڑے مرشد کا کچھ نہیں پتا ہوتا کچھ بھی ہو سکتا ہے، چیلنج اس وقت سب کے لیے ھے، شو آف ھینڈ یا اوپن بیلٹ کا پی ٹی آئی کو زیادہ نقصان ھے، وہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کھل کر مخالفت میں ووٹ دے سکتے ہیں، البتہ باقی جماعتوں میں "مرشد" کے سامنے کوئی نہیں بول سکتا، مسئلہ وفاداری کا ھے، یہ کب تک استوار رہتی ہے، یہ اس سینٹ انتخابات میں واضح ھو جائے گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :