اسمبلی یا جنرل بس اسٹینڈ۔

جمعہ 18 جون 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

 اسپیکر صاحب، کشمیر اور فلسطین میں ظلم ہو رہا ہے ، ھم پر بھی ظلم ہو رہا ہے سیاسی انتقام ہے، "ھم نے دھیلے کی کرپشن نہیں کی،"لاھور" ھائی کورٹ نے ھمیں انصاف دیا ہے، ھم سرخرو ہو کر نکلے ہیں، عوام ہمارے ساتھ ہیں۔یہ ھمارے ملک کے اپوزیشن لیڈر ہیں جو بجٹ کا تیا پانچہ کرکے اس میں بہتری کے لیے تجاویز دے رہے ہیں، انہوں نے اپنے لیپ ٹاپ پر سارا ڈیٹا، بجٹ کے اعدادوشمار، ماہرین معیشت کی آراء اور متبادل حل ،جس سے عوام کو ریلیف ملے گا جمع کرکے رکھا ہے اور اس کے چیدہ چیدہ نکات پیش کر رہے ہیں، جن کے اختیار کرنے سے ملک میں معاشی انقلاب آئے گا، لاھور پیرس، اور پاکستان ایشیا کا ٹائیگر بن جائے گا، وہ چونکہ تجربے کار ہیں اس لئے کوئی انقلابی حل تلاش کرنا ان کے لیے نہایت آسان ہے، ڈنگی کا فوری حل تلاش کر لیا تھا، کورونا کے لیے بھی ھنگامی لینڈنگ کی تھی کہ اڑنے نہ پائے تھے کہ "پر" کٹ گئے، ان کو صرف کیمرہ، ایک بیوروکریٹ اور خاکی وردی کی ضرورت ہوتی ہے، عزت واپس لوٹانے گھر گھر پہنچ جاتے ہیں، بجٹ کیا چیز ہیں ساری زندگی پیسے میں کھیلے ہیں، ارض مقدس سے ارض فرنگ تک ان کا کاروبار پھیلا ہوتا تھا جہاں سے واپس آنے کی امید معدوم ہوتی جارہی ہے، بلاول بھٹو زرداری کو بھی قبول ہیں،  دوسری طرف پنجاب کے روایتوں کے آمین، تہذیب کی پہچان، اور متقی اور پرہیز گار جناب شیخ روحیل اصغر موجود ہیں جو"ماں بہن کی گالیوں"کو پنجاب کا کلچر قرار دے رہے ہیں، علی نواز اس پر جوابی کلچر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی تصدیق ، محترمہ زرتاج گل اور مریم اورنگزیب اس کی خوبصورت آواز میں تائید کرتے ہوئے گیت گا رہی ہیں "بہارو پھول برساؤ۔

(جاری ہے)

۔۔۔" جس پر خوب ہاہا کار مچی، تقدس بحال ہوگیا اور بجٹ عوام کے لیے ھوگیا،بہت سے عمرانوں میں ہمارے دوست "عمران باجوہ" ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ بجٹ بہترین ہونے کی واضح دلیل موجود ہے کہ اپوزیشن نے اپنی سابقہ مہارت اور سیاسی چالاکی کو استعمال کرتے ہوئے بجٹ بحث کہیں اور پنچا دی اب میڈیا،  اور لوگ صرف گالیوں،  اور تحریک عدم اعتماد کے پیچھے پڑ گئے، بلکہ تیسرا وار محترمہ سرینا عیسیٰ کا لاھور ھائی کورٹ کو خط ہے، ہمارے دوسرے دانشور دوست تقویم انور کا خیال ہے کہ حکومت جوابی دفاع اور بجٹ کی خوبیاں اسٹبلش کرنے میں ناکام ھو گئ، یہی پی ٹی آئی سے گلہ ہے کہ وہ عمران خان کی محنت اور ماہرین کی کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہے ایک تاریخی بجٹ جس میں ہر طبقے کو ریلیف دیا گیا ہو، صنعتوں اور ترقیاتی منصوبوں کی لوٹ سیل ہو وہاں پی ٹی آئی  ٹیم کی ناکامی ہے کہ وہ اس بجٹ کو پسندیدہ بحث نہ بنا سکی، تحریک عدم اعتماد میں بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف ایک صحفہ پر ہیں لیکن اس صحفہ پر کیا لکھا جاتا ہے، لکھا گیا ہے، سامنے آ جائے گا، پی ڈی ایم کی ناکام تحریک نے جب سے ایوانوں کا رخ کیا ہے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تیلی لگا کر آگے پیچھے ہو جاتے ہیں، پیچھے اسمبلی جنرل بس اسٹینڈ بن جاتی ہے، جہاں سانڈے کا تیل بیچنے والے، طرح طرح کے مسافر، ڈرائیور، کنڈکٹر اور منشی گالیوں، جھگڑے فساد اور چند ایک توبہ توبہ کرتے بھی ملیں گے، نفسا نفسی کا عالم ہے ہر کوئی گاڑی کی سیٹ پر قبضہ کرنے کا سوچ رہا ہے، کسی کو وی آئی پی سیٹ ملتی ہے تو کسی کو ڈرائیور کے ساتھ ، گاڑی کچے راستے پر ڈال دی گئی ہے دیکھیں انجام کیا ہوتا ہے۔

بجٹ اجلاس ہو یا تحریک عدم اعتماد حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس کے نتائج بھگتنے ھوں گے، اسد قیصر صاحب نہایت مرنجان مرنج آدمی ہیں، اپوزیشن ان کے ساتھ زیادتی کرتی ہے، پھر بھی بڑے دل سے معاف کرتے ہیں اور پورا وقت دیتے ہیں، ویسے وقت لے کر سب نے جلی کٹی سنانی ہوتی ہیں، عوام کے فائدے کی کوئی چیز یا قانون سازی میں حصہ نہیں لیا جاتا، بجٹ بہترین ہے مگر اس پر بحث اور بہتر تجاویز لا سکتی ھے، جنرل بس اسٹینڈ سے باہر نکلیں تو، ایک گالیوں کا تحفہ عوام تک پہنچا دیا گیا ہے جو زبان زدِ عام ھو گا ، بچے سیکھیں گے، بڑے مذاق کریں گے، سخت بحث کریں مگر خدارا اس کلچر کو ختم کریں، آپ کا عوام کا بھلا اسی میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :