شہباز شریف اور زرداری صاحب کی پھرتیاں

منگل 28 دسمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو کامیابی ملی ہے مگر پھرتیاں کہیں اور نظر آ رہی ہیں، یہ ایک سیاسی اور انتخابی مہم ھے کہ" دال میں کچھ کالا ہے"، یہ امر افسوسناک ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب نے پی ٹی آئی حکومت میں ھونے والے پاکستان کی تاریخ میں پہلے حقیقی بلدیاتی انتخابات کو مان لیا مگر عمران خان کے مینڈیٹ کو نہیں مانتے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب جیت گیا تو ٹھیک ، ہار گیا تو میں نہ مانوں، اس کے برعکس عمران خان نے شکست بھی تسلیم کی اور غلطی بھی مان لی یہ بھی تاریخ میں پہلی دفعہ ھوا ھے، یہی نہیں الیکشن اصلاحات سے لیکر پارلیمنٹ میں بچوں، عورتوں کے تحفظ کے قوانین، منی لانڈرنگ روکنے ، یکساں نصاب تعلیم، ڈیجٹلزیشن اور رجسٹریشن،  اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے جعلی لوگوں کو نکالنے کے تاریخی کام بھی شامل ہیں، اور سنیں  گیلپ سروے کے مطابق احساس پروگرام سے 88 فیصد لوگ واقف اور بہترین پروگرام قرار دے رہے ہیں،  76 فیصد کی رائے ھے کہ اس سے غریبوں کی شفاف مدد ھو رہی ہے، مگر اس وقت یہ موضوع نہیں، 45 سال میں کوئی بھی انتخاب ایسا نہیں ھوا جس پر دھاندلی کی آواز نہ اٹھی ھوئی، مگر اس بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کی آواز بھی نہیں اور برسر اقتدار حکومت نے شکست بھی تسلیم کی، کیا اس کے علاؤہ بھی کچھ کر سکتے تھے، ھاں اختیارات، آرڈیننس، حیلے بہانے اور بہت کچھ تھا مگر ایک ہی لمحہ ضائع کیے بغیر شکست مان، اور اگلی ٹھان لی،
شہباز شریف صاحب کیوں لنگوٹ کس رہے ہیں، حالانکہ ایسے موقعوں پر "کمر کسنے" کا عمل بہتر تھا مگر ان کی، اور حمزہ شہباز کی کمر میں تکلیف ھے اس لئے لنگوٹ کس لیا، یہ تکلیف بھی اسی وقت ھوتی ھے جب "ٹی ٹیوں' کے گواہ پیش ھونا شروع ھو گئے، وہاں انہیں غصہ آتا ہے، اور اللہ معاف کرے"چور مچائے شور" والا محاورہ  کھل کر اصل معنوں میں سامنے آ دھمکتا ھے، اس کے ثبوت بھی بہت ہیں، اور حقیقت جاننے والے بے شمار، بشیر، منیر، سفیر، اور کتنے توقیر ہیں جن کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے ٹی ٹیوں کے ذریعے منتقل ہوئے اس لئے اب گریبان پکڑنے کے علاؤہ چارا نہیں کوئی نہیں تھا، سرگرمی تب ھوتی ھے جب دال میں کچھ کالا ہے، تاثر یہ دے رہے ہیں کہ ھمارے معمالات طے پا گئے، ایک پیج پھٹ گیا، گویا ووٹ کو اب جنید صفدر کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے،
دوسری طرف  زرداری صاحب بھی جارحانہ انداز میں میدان میں اتر آئے ہیں، شہباز شریف لنگوٹ کسنے اور گریبان پکڑنے کا اعلان کر چکے اور زرداری صاحب کہہ رہے ہیں کہ"وہ کہہ رہے ہیں" ھمیں نکالیں، وہ کیسے کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ پیپلز پارٹی تو عوامی حیثیت کئی دفعہ کھو چکی ہے صرف سندھ کارڈ پر ووٹ لے کر دعویٰ نہیں کیا جا سکتا، غالباً زرداری صاحب بھی ن لیگ کو بتا رہے ہیں کہ ھمارے معمالات طے پا گئے، افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ دعویٰ جمہوریت کا اور کوئی سی وی لیکر وائٹ ہاؤس اور کوئی پنڈی بیٹھا ھوا ھے، دال میں فی الحال یہی کالا ھے، ورنہ دال پوری کالی ھوتے دیر نہیں لگتی، آپ الیکشن کی تیاری کریں، خان صاحب بڑے سخت موڈ میں ہیں یہ نہ ہو کہ شکست کھا کر اٹھنے والا پھر آپ کی کھیر چھین لے، اور آپ دیکھتے رہ جائیں کیونکہ عمران خان نے کمر اور لنگوٹ کس لیا ھے نئی سپریم کمیٹی اور تنظیم سازی کا عمل شروع ھوگیا، پنجاب اصل میدان ھو گا پی ٹی آئی کو جہانگیر ترین مل گئے تو حالات مختلف ھوں گے، باقی شہباز شریف صاحب کو حساب تو دینا ہے آج نہیں تو کل سہی عدالت میں نہیں تو عوامی عدالت میں، جس جس نے پاکستان کے ساتھ، لوگوں کے ساتھ برا کیا ، ایک دن مکافات عمل کا شکار ہونا ھوتا ھے جلد یا بدیر، اللہ کرے مہنگائی قابو آگئی تو سب کچھ قابو اجائے گآ، چلیں مان لیں میاں نواز شریف صاحب کے ساتھ زیادتی ھوئی ھے لیکن  پلیٹ لیٹس والا جھوٹ تو سب نے دیکھا ہے کیا ایسے بندے پہ اعتبار کیا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :