پھولوں کی آرزو میں بڑے زخم کھائے ہیں

اتوار 12 اپریل 2020

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

تاریخِ پاکستان میں قائدِاعظم اور لیاقت علی خاں کے بعد شاید ہی کوئی ایسا لیڈر سامنے آیاہو جس نے عوام کی بھلائی کا سوچا ہو۔ ایوب خاں سے عمران خاں تک کی سیاسی تاریخ سب کے سامنے ۔ایوب خاں کو ڈیڈی کہنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو جب موقع ملا تو وہ اپنے ”ڈیڈی“کے خلاف ہی سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ ایوب خاں کے دَور میں ابھرنے والے صنعتی وتجارتی گروپوں کو ملک کی غربت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے 22 خاندانوں پر معاشی استحصال کا الزام لگاتے رہے۔

اُنہوں نے مغربی پاکستان میں ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کا نعرہ لگا کر تاریخی کامیابی حاصل کی۔ اُس وقت بھی عقیل وفہیم اصحاب کہا کرتے تھے کہ بھٹو کا یہ نعرہ کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تو دنیا سے گئے عشرے بیت چکے لیکن پیپلزپارٹی آج بھی اِسی نعرے کو سینے سے لگائے پھرتی ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے ”خانِ اعظم“ نے بھی اپنی سیاست کا آغاز بھٹو کی پیروی میں کیا۔

اُنہوں نے ”نیاپاکستان“ بنانے کا نعرہ بلند کرتے ہوئے 100 دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کا اعلان کیا۔ ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر بھی اُن کے اعلان کا حصہ ہیں۔ صاحبانِ عقل وفہم یہ جانتے تھے کہ یہ ناممکن ہے لیکن ”زورآوروں“ نے پھر بھی اُنہیں ”شیروانی“ کا حقدار ٹھہرا دیا۔ آج پونے دو سال ہونے کو آئے، ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر تو کجا، بے روزگاروں کی تعداد میں 25 لاکھ کا اضافہ ہو چکا، مہنگائی کا عفریت اور معاشی بربادی اِس کے علاوہ۔


ذوالفقار علی بھٹو منتقم مزاج تھے۔ وہ ادنیٰ سا اختلاف بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ جے اے رحیم پیپلزپارٹی کے بانی رکن اور جنرل سیکرٹری تھے۔ ایک میٹنگ میں ذوالفقار علی بھٹو بہت دیر کے بعد تشریف لائے تو جے اے رحیم نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین سمیت تمام ممبران کو وقت پر آنا چاہیے۔ بھٹو کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ اُسی رات ایف ایس ایف (بھٹو کی اپنی تشکیل کردہ فورس) نے جے اے رحیم کو گھر سے اُٹھا لیا اور بُرے طریقے سے پیٹا۔

بھٹو کی اناپرستی اُن کی ذہانت پر ہمیشہ حاوی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے دیرینہ ساتھی ،غلام مصطفےٰ کھر، خورشید حسن میر، جے اے رحیم، حنیف رامے، معراج محمد خاں، مختار اعوان، محمودعلی قصوری اور احمدرضا قصوری یکے بعد دیگرے اُن کا ساتھ چھوڑ گئے۔ بھٹو کے دَور میں پسِ دیوارِ زنداں اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا۔ اُنہوں نے ایف ایس ایف کے ذریعے اپنے کئی مخالفین کو اپنے راستے سے ہٹایا۔

ڈاکٹر نذیر شہید، خواجہ رفیق شہید اور نواب احمد خاں قصوری ایف ایس ایف کا ہی نشانہ بنے۔
 ہمارے خانِ اعظم کے منتقم مزاج ہونے میں بھی کوئی کلام نہیں۔ ”نہیں چھوڑوں گا“ اُن کا تکیہ کلام بن چکا۔ بھٹو جو کام ایف ایس ایف سے لیا کرتے تھے، خانِ اعظم آجکل وہی کام نیب سے لے رہے ہیں۔ منتقم مزاج ہونے کا یہ عالم کہ واشنگٹن ڈی سی کے جلسہٴ عام میں تقریر کرتے ہوئے میاں نوازشریف کے بارے میں فرمایا کہ واپس جاتے ہی جیل میں اُس کا اے سی اُتروا لوں گا، گھر کا کھانا بند کروا دوں گا۔

حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ میاں صاحب کے دل کے دو آپریشن ہو چکے ہیں اور دِل کی شریانوں میں چھ ”سٹنٹ“ پڑے ہیں۔ اپنے دیرینہ ساتھیوں کے ساتھ اُن کا یہ سلوک کہ پرانی تحریکِ انصاف خواب وخیال ہوگئی۔ اب پیپلزپارٹی، نوازلیگ اور تحریکِ انصاف میں کوئی فرق نہیں۔ یہ الیکٹیبلز کی گیم ہے جو اِدھر اُدھر گھومتے رہتے ہیں۔خانِ اعظم کے ”اے ٹی ایم“ کے بارے میں معروف لکھاری حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا ”عمران خاں جب کبھی جہانگیر ترین کو جیونیوز کے ٹاک شو کیپیٹل ٹاک میں دیکھتے تو مجھ سے پوچھتے، سنا ہے یہ بڑا امیر آدمی ہے، میں کہتا، ہاں سنا ہے بڑا امیر آدمی ہے تو خاں صاحب کہتے کہ یہ ایک مافیا ہے جس نے سیاست پر قبضہ کر رکھا ہے۔

تم اِس مافیا کو اپنے شو پر نہ بلایا کرو، تمہاری ساکھ خراب ہوتی ہے۔ میں جواب دیتا کہ جناب یہ ترین صاحب یا اُن کے کزن ہمایوں اختر کابینہ میں شامل ہیں۔ مجھے حکومتی نقطہٴ نظر کے لیے اُن کو بلانا پڑتا ہے۔ عمران خاں اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہتے دیکھنا میں اِس مافیا کو کلین بورڈ کر دوں گا“۔ حامد میر کے مطابق جہانگیر ترین با اثر سیاستدانوں کا ایک گروپ بنا کر تحریکِ انصاف پر قبضے کے خواب دیکھ رہے تھے۔

جہانگیر ترین نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز میاں شہبازشریف کی ٹاسک فورس کے سربراہ کی حیثیت سے کیا۔ 1999ء میں پرویزمشرف کے حکومت پر غاصبانہ قبضے کے بعد وہ قاف لیگ میں شامل ہوئے اور 2002ء کے انتخابات میں ممبر قومی اسمبلی بنے۔ شوکت عزیز کی وزارتِ عظمیٰ کے دَور میں وہ وزیرِ صنعت تھے۔ اُسی دور میں اُنہوں نے اپنی ایک مِل کے ساتھ 2 اور ملوں کا اضافہ بھی کیا۔

پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد وہ فنکشنل لیگ میں شامل ہو گئے۔ جب اکتوبر 2011ء میں خاں صاحب نے مینارِ پاکستان پر انتہائی کامیاب شو کیا تو ترین صاحب دسمبر 2011ء میں تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے۔ اِس سے پہلے شاہ محمود قریشی بھی تحریکِ انصاف پر قبضے کے چکر میں ہی نومبر 2011ء میں پیپلزپارٹی کو داغِ مفارقت دے کر تحریکِ انصاف میں شامل ہوکر وائس چیئرمین بن چکے تھے۔

شاہ محمودقریشی اور جہانگیر ترین، دونوں ہی بھول گئے کہ سازش کرنے میں خانِ اعظم کا کوئی ثانی نہیں۔ اُنہوں نے کرکٹ سے اپنے کزن ماجد خاں کا پتّا جس طرح صاف کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔
دراصل خاں صاحب کو جہانگیر ترین کے پیسوں اور شاہ محمود کی سیاسی ساکھ کی ضرورت تھی اِس لیے پہلے اُنہوں نے جہانگی ترین کی پیٹھ تھپکی اور جی بھر کے اُن کی دولت سے فائدہ اُٹھایا۔

شاہ محمودقریشی اپنی دال نہ گلتی دیکھ کر مناسب وقت کے انتظار میں پیچھے ہٹ گئے اور ترین صاحب معنوی ڈپٹی پرائم منسٹربن کر سیاہ وسفید کے مالک بننے کی کوشش کرنے لگے۔ اگر سپریم کورٹ نے جہانگیرترین کو تاحیات نااہل نہ کیا ہوتا تو یقیناََ وہ یا تو ڈپٹی وزیرِاعظم ہوتے یا پھر پنجاب کے وزیرِاعلیٰ۔ اُدھر خانِ اعظم روزِ اوّل سے ہی جہانگیرترین کو کلین بورڈ کرنے کا فیصلہ کیے بیٹھے تھے۔

جب اُنہوں نے دیکھا کہ اب ترین صاحب کی ضرورت باقی نہیں رہی تو قریشی گروپ کی پیٹھ تھپتھپانا شروع کر دی۔ اب قریشی گروپ کی ساری ٹیم اُن کی پُشت پر ہے۔
شاہ محمود قریشی کا سیاسی سفر بھی بہت دلچسپ ہے۔ اُن کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی ضیاء الحق کے دَور میں 1985ء سے 1988ء تک پنجاب کے گورنر رہے۔ بھٹو کے سپاہی اور ضیاء کے دوست شاہ محمود قریشی میاں نوازشریف کی کابینہ کے وزیر بھی رہے۔

پھر پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے اور 2002ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کے اُمیدوار کے طور پر وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب بھی لڑا۔ زرداری دَور میں وہ پیپلزپارٹی کے وزیرِ خارجہ تھے اور آجکل تحریکِ انصاف کے وزیرِخارجہ۔ جس زمانے میں شاہ محمود قریشی نے پیپلزپارٹی چھوڑی، اُس وقت فردوس عاشق اعوان پیپلزپارٹی کی وزیرِاطلاعات تھیں۔ اُنہوں نے کہا ”شاہ محمودقریشی سیاسی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں۔

اُن کی تقریر کا سکرپٹ کسی اور نے لکھا۔ اُن کی تربیت ضیاء الحق کے دَور میں ہوئی۔ وہ جسمانی طور پر پیپلزپارٹی میں رہے لیکن ضیاء کے پیروکار ثابت ہوئے۔ پیپلزپارٹی کے سمندر سے اِس طرح کے ندی نالے نکلتے رہتے ہیں“۔ آجکل فردوس عاشق تحریکِ انصاف کی مشیرِاطلاعات ہے۔ محترمہ کی سیاسی قلابازیاں بھی بہت دلچسپ لیکن پھر کبھی ۔
”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے“ کے مصداق جب شوگر مافیا میں جہانگیر ترین کا نام اُبھر کر سامنے آیا تو اُنہوں نے بھی کمر کَس لی۔

ایک انٹرویو میں انکشاف کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ 2013ء کا انتخاب اُن کی جماعت بُری طرح ہاری تھی۔ اُنہوں نے کہا ”میں خاں صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ ہم نے اگلا الیکشن جیتنا ہے لیکن جس طرح ہم نے پچھلا الیکشن لڑا ہے اور ٹکٹ دیئے ہیں، ہم نہیں جیت سکتے۔ اُنہوں نے کہا اِس کا مطلب کیا ہے؟۔ میں نے کہا 50 فیصد سیٹیں جو 2013ء میں ہم ہارے، اُن میں ہم سیکنڈ بھی نہیں آئے۔

ہم ٹیبل پر نہیں تھے، تھرڈ، فورتھ، ففتھ تھے۔ 66 فیصد ایسے تھے جہاں ہمیں 20 فیصد بھی نہیں ملا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اُمیدوار غلط تھے۔ جب تک ہم سیاسی فیملیوں کو لے کر نہیں آئیں گے، آپ وزیرِاعظم نہیں بن سکتے۔ پنجاب میں 60 فیصد وہ لوگ ہیں جو سیاسی فیملیوں کے ہیں جو 2013ء میں ہمارے ساتھ نہیں تھے“۔ خاں صاحب نے جہانگیر ترین ہی سے کہاکہ وہ ”الیکٹیبلز کو گھیرگھار کے تحریکِ انصاف میں لائیں۔

۔۔۔۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر جہانگیر ترین کا یہ انکشاف سچ پر مبنی ہے (یقیناََ یہ سچ ہی ہوگاکیونکہ اُس زمانے میں اعتراض کرنے والوں سے خاں صاحب کہا کرتے تھے ”اگر الیکٹیبلز نہیں ہوں گے تو میں کیسے جیتوں گا؟“ )۔ تو پھر ڈی چوک اسلام آباد میں 126 روزہ دھرنا کیوں دیا گیا؟۔ خانِ اعظم کے اِس دھرنے کے دوران وزیرِاعظم ہاوٴس پر حملہ کیا گیا، پارلیمنٹ ہاوٴس کے گیٹ توڑے گئے، پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیا، شاہراہِ دستور پر قبریں کھودی گئیں، سول نافرمانی کا اعلان کیا گیا، سرِعام یوٹیلیٹی بِلز جلائے گئے، بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کے لیے کہا گیا، چینی صدر کا پاکستان کا دورہ منسوخ ہوا جس کی بنا پر اقتصادی راہداری معاہدے میں تاخیر ہوئی اور لگ بھگ ساڑھے پانچ سو کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

آج وہی خانِ اعظم ہمارے وزیرِاعظم ہیں۔اِس لیے کہنا ہی پڑتا ہے کہ
کانٹوں سے دِل لگائیں نہ اب ہم تو کیا کریں
پھولوں کی آرزو میں بڑے زخم کھائے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :