تیل کی قیمتوں میں تاریخی گراوٹ

پیر 4 مئی 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

امریکہ میں تیل کی قیمت گرتے گرتے اس مقام پر آ گئی ہے کہ پیداواری کمپنیاں اپنے صارفین کو تیل وصول کرنے کے لئے پیسے دینے کو تیار ہیں۔ پیداواری کمپنیوں کی گبھراہٹ بے وجہ نہیں ہے امریکہ میں تیل ذخیرہ کرنے کے مقامات بھرتے جا رہے ہیں اور جلد ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پرہوں گے۔ اس کے بعد ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ تیل رکھنے کی جگہ نہیں ہو گی۔

کورونا وباء سے پہلے دنیا کی اوسط تیل کی کھپت 9 کروڑ 70 لاکھ بیرل تھی اور پیداوار 10 کروڑ بیرل تھی۔ مارکیٹ میں اس فرق کی بناء پر قیمتوں پر دباوٴ تھا لیکن اس سال کے شروع میں تیل کی قیمتیں 55 سے 60 ڈالر فی بیرل پر مستحکم تھیں۔ لاک ڈاوٴن کے نتیجے میں دنیا بھر کی صنعتی و تجارتی سرگرمیاں محدود ہو گئیں جس سے تیل کی طلب ساڑھے 6 کروڑ بیرل رہ گئی، اسی دوران چین کی منڈی پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے روس اور سعودی عرب کے درمیان قیمتوں کی جنگ شروع ہو گئی۔

(جاری ہے)

کورونا کی عالمی وباء میں تیل کی کھپت کم ہو جانے کے باعث دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت منفی سطح تک گر گئی ہے۔ پوری دنیا کی طرح امریکہ میں بھی عوام کو گھروں پر رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں، لوگ سفر نہیں کر رہے ہیں اور دفاتر و کاروباری مراکز بھی بند ہیں۔ اس کی وجہ سے تیل کی کھپت انتہائی کم ہو چکی ہے لیکن رسد بدستور اسی سطح پر ہے۔


گزشتہ ماہ کے وسط میں امریکی تیل کی کمپنیوں کے مروجہ معیار ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کے ایک بیرل تیل کی قیمت منفی 37.63 ڈالر تک گرچکی تھی۔ گزشتہ ماہ کے آخری ہفتہ میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں انتہائی گراوٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تیل کی خریدو فروخت اس کی مستقبل کی قیمت کے حساب سے کی جاتی ہے اور مئی تک کے کئے گئے معاہدے گزشتہ ہفتے ختم ہو گئے۔

لہٰذا تیل نکالنے والی کمپنیاں ان معاہدوں کے تحت خریدے گئے تیل کو متعلقہ ممالک کے حوالے کرنا چاہتی ہیں تا کہ انہیں اس کو ذخیرہ کرنے کے لئے اضافی اخراجات برداشت نہ کرنا پڑیں۔ جب کہ اس کے ساتھ ساتھ امریکی تیل کی کمپنیوں کے معیار ڈبلیو ٹی آئی کے تحت رواں برس جون کے لئے خریدے جانے والے خام تیل کی قیمت بھی بہت کم ہے اور گزشتہ ماہ کے آخر میں عالمی منڈی میں اس کا کاروبار 20 ڈالر فی بیرل کے قریب رہا۔

امریکی بینچ مارک میں مسلسل زائد سپلائی کے خدشات کی وجہ 7 فیصد سے زیادہ مزید کمی دیکھی گئی۔ جون کے لئے ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کی ڈلیوری 7.2 فیصد سے 15.72 امریکی ڈالر فی بیرل کم ہوئی۔ یورپ اور دیگر دنیا کے لئے تیل کی قیمت کا تعین کرنے والی خام تیل کی کمپنی برینٹ کروڈ کے تیل کی قیمت میں بھی اپریل میں 8.9 فیصد کمی دیکھنے میں آئی اور اس کی عالمی منڈی میں خرید و فروخت 26 ڈالر فی بیرل سے کم رہی۔

گزشتہ روز خام تیل کی برطانوی منڈی میں ڈبلیو ٹی آئی کے جون کے سودے 15 فیصد مزید کمی کے بعد 14.40 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئے۔ عالمی منڈی میں برینٹ کروڈ آئل کی قیمتوں میں بھی مزید کمی دیکھی گئی اورا س کے جون کے سودے 6.2 فیصد کمی سے 20 ڈالر فی بیرل پر کئے گئے۔
عالمی سطح پر تیل کی صنعت اس وقت تیل کی گرتی ہوئی طلب اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے درمیان اس کی پیداوار کو کم کرنے پر اختلافات جیسے مسائل کا شکار ہے۔

اپریل کے شروع میں اوپیک ممالک اور اور اس کے اتحادیوں نے عالمی پیداوار میں 10 فیصد تک کمی کرنے کے ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا ۔ یہ معاہدہ تیل کی پیداوار میں اب تک کی سب سے بڑی کمی تھی جس پر اتفاق کیا گیا تھا۔ تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ تیل کی پیداوار میں کی جانے والی کمی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ اس سے تیل کی صنعت پر کچھ فرق پڑتا۔ اس طرح موجودہ شرائط کے ساتھ اوپیک ممالک کا معاہدہ تیل کی منڈیوں میں توازن پیدا کرنے کے لئے کافی نہیں ہو گا۔

اوپیک ممالک اور اس کے روس جیسے اتحادی پہلے ہی تیل کی پیداوار کو ریکارڈ سطح تک کم کرنے پر اتفاق کر چکے ہیں جب کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک نے تیل کی پیداوار کو کم کرنے کے فیصلے خالصتاً تجارتی بنیادوں پر کئے ہیں۔ مگر عالمی سطح پر اب بھی خام تیل کی رسد دنیا کی طلب سے زیادہ ہے اور مسئلہ صرف یہ نہیں کہ دنیا اس تیل کو استعمال میں لا سکتی ہے یا نہیں بلکہ بڑا مسئلہ کیا دنیا اس اضافی تیل کو اس وقت تک ذخیرہ کر سکتی ہے جب تک دنیا کورونا کے باعث لگنے والے لاک ڈاوٴن میں نرمی کرنے کی پوزیشن میں آتی ہے اور تیل کی مصنوعات کی اضافی طلب پیدا نہ ہو جائے۔

عالمی منڈی میں تبدیلی کا دارومدار تیل کی طلب پر ہو گا اور اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ صحت کے بحران کے بعد کیا حالات سامنے آتے ہیں۔
تیل نکالنے والی کمپنیاں چاہتی ہیں کہ وہ تیل بیچ کر جان چھڑائیں ورنہ انہیں ذخیرہ کرنے کی لاگت برداشت کرنا پڑے گی۔ تیل پیدا کرنے والی کمپنیاں اس حد تک مجبور ہو چکی ہیں کہ وہ آئل ٹینکرز یعنی تیل منتقل کرنے والے بحری جہاز کرائے پر لے کر تیل کو ذخیرہ کرنے پر مجبور ہیں۔

تیل کے اس عجیب بحران کی بڑی وجہ یقینی طور پر کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال ہے لیکن اس کی دوسری وجہ بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سخت کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے پیداوار بڑھانے کے اعلانات کر رہے تھے۔ اپریل کے آغاز میں کشیدگی کم ہونے کے بعد پیداوار 10 فیصد کم کرنے کا سمجھوتا ہو گیا تھا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی یعنی مئی اور جون میں تیل کی پیداوار ایک کروڑ بیرل کم ہو گی۔

اس کے باوجود دستیاب تیل کی طلب کہیں موجود نہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں قیمتیں اور کم ہوں گی۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس آئل کریش کو قومی ذخائر بھرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی کا فائدہ تبھی اٹھایا جا سکتا ہے جب کانگرس اس کی خرید کے لئے فنڈز کی منظوری دے اور وہ سات کروڑ بیرل تیل اسٹاک کرنا چاہتے ہیں تاکہ قیمتوں میں بہتری آنے پر اضافی تیل فروخت کر کے منافع کمایا جا سکے۔


اس حوالے سے گزشتہ ماہ سعودی فرماں روا سلمان بن عبدلعزیز ، روسی صدت پوٹن اور امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا تھا جس میں تیل کی عالمی منڈیوں میں استحکام پر بات چیت ہوئی تھی۔ سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی رائیٹر کے مطابق اس مشترکہ بات چیت میں توانائی کی منڈیوں کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے تیل پیدا کرنے والے ممالک کے درمیان مشترکہ تعاون کی اہمیت پر بھی تبادلہٴ خیال ہوا۔

تینوں عالمی سربراہان کے درمیان مشترکہ بات چیت اوپیک پلس اتحاد کی جانب سے تیل کی پیداوار کم کرنے کے اعلان کے بعد ہوئی ہے۔ اعلان میں کہا گیا ہے کہ مئی اور جون میں تیل کی یومیہ پیداوار ایک کروڑ بیرل کی کمی کی جائے گی۔ اس اقدام کامقصد کرونا وائرس کے بحران کے سبب گر جانے والی قیمتوں کو بڑھانا ہے۔ اوپیک تنظیم اور اس کے ساتھ اتحاد میں شامل تیل پیدا کرنے والے ممالک کے مطابق جولائی اور دسمبر کے درمیان یومیہ پیداوار کی کمی 80 لاکھ بیرل کر دی جائے گی۔

بعد ازاں جنوری 2021ء اور اپریل 2022ء کے درمیان اس یومیہ پیداوار کی کمی کو 60 لاکھ بیرل کر دیا جائے گا۔ اوپیک پلس کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ وہ تیل کی منڈی کا جائزہ لینے کے لئے دس جون کو ایک ا ور ورچوئل کانفرنس کا انعقاد کرے گی۔ ادھر سعودی وزیرِ توانائی نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور برازیل جیسے ممالک اوپیک پلس گروپ کی ان کوششوں میں شامل ہو جائیں گے جو وہ تیل کی منڈی میں استحکام لانے کے واسطے کر رہا ہے۔

سعودی وزیرِ تیل شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے میڈیا سے بات کرتے ہو ئے کہا ہے کہ تیل کی عالمی یومیہ پیداوار میں ایک کروڑ بیرل کی کمی کے حوالے سے اوپیک پلس کا سمجھوتا میکسیکو کے پیداوار کم کرنے کے عمل سے مشروط ہے۔ سعودی وزیر کا کہنا تھا کہ میکسیکو اس کو اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے فائدے کو نہیں بلکہ پوری دنیا کے مفاد کو مدِ نظر رکھنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :