مشکل حالات میں بہترین بجٹ

پیر 22 جون 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

71 کھرب اور 37 ارب روپے کے وفاقی بجٹ برائے سال 2020-21ء میں 34 کھرب اور 37 ارب روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں کرونا متاثرین اور بے روزگار مزدور طبقات کو مزید ریلیف دیتے ہوئے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایاگیا ہے۔ وفاقی مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بجٹ کے حوالے سے اقتصادی سروے رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے قومی معیشت کو تین ہزار ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔

ان کے بقول صنعت اور رینٹل ٹرانسپورٹ مینو فیکچرنگ کی گروتھ منفی ہو گئی ہے۔ قومی معیشت یوں تو شروع سے ہی سنگین چیلنجز سے نبرد آزما چلی آ رہی ہے لیکن پچھلے چند ماہ کے دوران کورونا کی عالمی وباء کے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر سخت منفی اثرات کے باعث اس کا گراف تیزی سے نیچے آیا ہے۔

(جاری ہے)

ایک ہزار ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف مقرر کئے جانے کے باوجود کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے جس پر عملدرآمد کیا گیا تو یقیناً یہ ایک بڑا کارنامہ ہو گا ۔


تعمیراتی شعبہ میں ٹیکسز کی جس صورتحال کو سامنے رکھا گیا اس سے زیادہ سے زیادہ اپنی دولت کو اپنے منصوبوں پر اس غرض سے خرچ کریں گے کہ اس میں انہیں ٹیکس کی بے بہا چھوٹ ہے۔ تعمیراتی شعبے میں کسی سے نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ نے پلازے کی تعمیر میں کتنا سرمایہ خرچ کیا ہے کیونکہ اس پر گرفت تو صرف ٹیکس لگانے سے ہی ہو سکتی ہے اور پھر جو پراپرٹی خرید رہا ہے اس سے بھی سوالات نہیں پوچھے جائیں گے کہ آپ کے پاس یہ سرمایہ کہاں سے آیا ہے۔

اگر ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا ہے تو امورٹڈ سگریٹس، سگار پر جس کی شرح 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کیفین والے مشروبات جس سے نوجوان نسل عجیب کیفیت اور عادت کا شکار ہو رہی تھی ان کی پسندیدہ اشیاء پر شرح ٹیکس 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دیا گیا ہے۔ڈبل کیبن گاڑیوں پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ یہ وہ ٹیکس ہیں جن سے عوام کے ماتھے پر لکیریں نہیں بنیں گی۔

آئندہ مالی سال کے لئے لاہور، وفاق اور کراچی کے ہسپتالوں کے لئے 13 ارب مختص کئے گئے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کے لئے مختص رقم کو 59 سے بڑھا کر 64 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ پہلے یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ 50 ہزار کی خریداری پر شناختی کارڈ پیش کرنا لازم تھا جسے بڑھا کر 1 لاکھ کر دیا گیا ہے۔ اس کا فائدہ چھوٹے کاروباری حضرات کو ہو گا۔ بجٹ میں مختلف شعبوں کے سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

مالی سال کے بجٹ میں غیر ملکی کرنسی کے لین دین پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کئے جانے کا امکان ہے۔ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے حکومت نے حتی الوسع کوشش کی ہے کہ غریب آدمی پر بوجھ نہ پڑے۔ کورونا کے تدارک کے لئے 1200 ارب روپے سے زائد پیکیج کی منظوری دی ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے سہولیات دینے کے لئے 50 ارب روپے رعایتی اشیاء کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔

سب سے بڑھ کر بجلی اور گیس کے مٴوخر بلوں کے لئے 100ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
پینشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جو گزشتہ برس پیش کئے جانے والے ترمیمی بجٹ میں رکھی گئی رقم میں ایک اعشاریہ تین فیصد کا اضافہ ہے۔ ملک میں ترقیاتی مقاصد کے لئے مختص پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لئے 650 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس بجٹ کا کل تخمینہ 65 کھرب 73 ارب روپے ہے جس میں سے ایف بی آر ریونیو 49 کھرب 63 ارب روپے ہے جب کہ غیر ٹیکس شدہ ریونیو 16 کھرب 10 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس سال ایف بی آر کی وصولیوں کا ہدف 49 کھرب اور 63 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ گزشتہ سال بجٹ میں احساس پروگرام کے لئے 187 ار روپے رکھے گئے ہیں جسے بڑھا کر 208 ارب روپے کر دیا گیا ہے جس میں سماجی تحفظ کے دیگر پروگرام جیسے انکم سپورٹ پروگرام، پاکستان بیت المال اور دیگر محکمے شامل ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لئے 28 کھرب 74 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

زرعی شعبے کو ریلیف پہنچانے کے لئے اور ٹڈی دل کی روک تھام کے لئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے لئے ایچ ای سی کو گزشتہ برس کے مقابلے میں پانچ ارب روپے اضافے کے ساتھ 64 ارب روپے دئے گئے ہیں۔ یکساں نصاب کی تیاری، معیاری نظام، امتحانات وضع کرنے، اسمارٹ اسکولوں کا قیام، مدرسوں کی قومی دھارے میں شمولیت سے تعلیمی نظام میں بہتری لائی جائے گی، جس کے لئے رقم مختص کر دی گئی ہے اور ان اصلاحات کے لئے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

21ویں صدی کے معیاری تعلیم پر پورا اترنے کے لئے تحقیق اور دیگر جدید شعبہ جات مثلاً مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، آٹو میشن اور سپیس ٹیکنالوجی کے شعبے تحقیق اور ترقی کے لئے کام کیا جا سکتا ہے، لہٰذا تعلیم کے شعبے میں جدت اور اس کے حصول کے لئے 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے کورونا اور دیگر آفات کی وجہ سے انسانی زندگی پر ہونے والی منفی اثرات کو زائل کرنے اور معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لئے خصوصی ترقیاتی پروگرام وضع کیا گیا ہے جس کے لئے 70 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

اسی طرح کورونا وائرس سے متعلقہ 61 اشیاء پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے جب کہ کورونا اور کینسر کی تشخیصی کٹس پر ڈیوٹی وٹیکسز ختم کر دئے گئے ہیں۔
عوام کی سہولت اور معاشی سرگرمی بڑھانے کے لئے سیمنٹ، سریا، پاکستان میں تیار ہونے والے موبائل فون، آٹو رکشا، موٹر سائیکل سمیت 200 سی سی تک کی گاڑیاں، کپڑے، جوتے، ایل ای ڈی لائٹ، سینیٹری وئیرز سستے کر دئے گئے ہیں اور شادی ہالوں پر عائد عد ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔

سروس سیکٹر، ٹول مینو فیکچرنگ کے لئے ٹیکس میں کمی، انشورنس پریمیم، ڈیلرز اور آڑھتیوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم، ہوٹل انڈسٹری کے لئے ٹیکس میں دو تہائی کمی کے علاوہ کھیل، چمڑا، ٹیکسٹائل، ربڑ، کھاد، بلیچنگ اور گھریلو اشیاء میں استعمال ہونے والی درآمدی آئٹمز پر کسٹم اور ایکسائز ڈیوٹیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ غیر منقولہ جائیداد کی فروخت پر آمدن میں ٹیکسوں میں ریلیف کے لئے کیپیٹل گین ٹیکس کی مدت کو 8 سال سے کم کر کے چار سال کر دیا گیا ہے۔


ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ کورونا وائرس نے صرف پاکستان کی معیشت کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ اس عالمگیر وباء سے بین الاقوامی معیشتوں کی اقتصادی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔ وباء سے پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کے ساتھ ساتھ مستحکم معیشتوں والے ممالک کی جی ڈی پی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس وباء نے عالمی سطح پر نہ صرف صحت اور انسانی جانوں بلکہ معیشتوں کے تمام شعبوں کو نقصان پہنچایا ہے اور تمام ممالک اس صورتحال میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

وباء کی وجہ سے عالمی معیشت کی مجموعی پیداوار کو 9000 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اگر کورونا وائرس کی دوسری لہر سامنے نہیں آتی ہے تو اس صورت میں 2019ء کے مقابلے میں 2020ء میں برطانیہ کی جی ڈی پی منفی 11.5، فرانس منفی 11.4، اٹلی منفی 11.3، اسپین منفی 11.1، یورو خطہ منفی 9.1، روس منفی 8، برازیل منفی 7.4، امریکہ منفی 7.3، جرمنی منفی 6.6، جاپان منفی 6، بھارت منفی 3.7 اور چین منفی 2.6 فیصد تک گر سکتی ہے۔ ان اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ پاکستان کی جی ڈی پی میں منفی 0.4 فیصد تک کمی کا اندازہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :