مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال!

جمعرات 9 جنوری 2020

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

امریکی حملے کے دوران ایران کے ملٹری کمانڈڑ جنرل قاسم سلیمانی کی موت کے بعد مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونیوالا تناؤ عملی کشیدگی میں بدل چکا ہے ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈرون حملے میں ملک کے اعلیٰ کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لئے عراق میں امریکہ کے دو فضائی اڈوں کو ایک درجن سے زائد بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں وہاں پر مقیم امریکی اسی فوجی ہلاک ہوئے تاہم ایران کے اس دعوئے کے کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آئے کہ امریکی فوج کو کوئی جانی نقصان پہنچایا گیا ہے۔

دوسری جانب ٹرمپ نے کہا کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا البتہ پینٹا گون نے ایرانی حملوں کی تصدیق ضرور کی ہے ۔ایران نے عراق میں موجود جن دو امریکی فضائی اڈوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے ان میں ایک الاسد ائیر بیس دوسرا اربیل ائیر بیس شامل ہیں جو 1980ء میں عراق کی فوج نے تعمیر کئے تھے اور2003ء میں عراق میں امریکی فوج کی آمد کے بعد الاسد ائیر بیس امریکہ کے فوجی دستوں کے بڑے اڈوں میں سے ایک ہے۔

(جاری ہے)

ایک اندازے کے مطابق پورے عراق میں پانچ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عراقی پارلیمان میں امریکی فوجیوں کے انخلاء کی ایک قرار داد پاس ہوئی لیکن اس پرامریکہ اور آسٹریلیا نے تو عمل در آمد نہیں کیا لیکن جرمنی نے اپنی محدود فوج واپس بلوانے کا اعلان کیا ہے ا مریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی فوجوں کے عراقی فوج کو تربیت‘غیر ملکی کمپنیوں اور تنصیبات کی حفاظت کے لئے عراق کے مختلف علاقوں میں تعینات ہیں امریکہ نے اپنے چند بمبار طیارے برطانیہ اور بحر ہند میں متعین اپنے بحری بیڑوں کے لئے روانہ کر دئیے ہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا کہ اگر عراق نے امریکی فوجیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تو اسے سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور چند دن قبل امریکی سیکرٹری دفاع مارک ایسپر نے عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی تردید بھی کی ہے امریکہ اور ایران میں جاری کشیدگی کی صورتحال مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کی بساط بچھا رہی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ان دو ممالک کے مابین جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا تو پھر تیسری عالمی جنگ دنیا پر مسلط ہو جائیگی اور اس کرہ ارض پر قائم کوئی بھی ملک اس جنگ کی تپش سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔

دونوں ممالک کے مابین جاری کشیدگی اگر جنگ کی شکل اختیار کر گئی تو اس تناظر میں ماہرین کے خیال میں اس کے مشرق وسطیٰ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ صورت حال جہاں فریقین کے لئے سود مند نہیں ہو گی وہیں دیگر ممالک کو بھی سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا موجودہ حالات کے تناظر میں ناقدین کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ جلد کشیدگی کے اس حصار سے نکلنے والا نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ حالات ایسی کروٹ لیں جس کا کسی کو ادراک بھی نہ ہو ۔

ان تمام قیاس آرائیوں کے درمیان اب صورتحال نے یہ تشویش پیدا کر دی ہے کہ مستقبل میں خطے کے حالات کس کروٹ بیٹھیں گیااگر کشیدگی بد ستور بڑھتی رہی تو اس کے منفی اثرات سے پوری دنیا محفوظ نہیں رہ پائے گی اور ایران کے خام تیل پر انحصار کرنے والے مشرقی ممالک زیادہ متاثر ہوں گے حالات بگڑنے سے بین الااقوامی سطح پر تیل کے داموں میں اضافہ ہو گا اور جس سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو جائیگا ۔

قاسم سلیمانی کی موت کے بعد اب دنیا بھر میں امریکہ اور ایران کے سنجیدہ دوست اس صورتحال پر سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ اس صورتحال میں وہ کس ملک کے ساتھ کھڑے ہونگے جس کا اندازہ قاسم سلیمانی کی موت پر دنیا بھر سے آئے مذمتی پیغامات سے لگایا جا سکتا ہے ان حالات میں پاکستان سمیت بعض محتاط ممالک نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ بھی کیا ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ان ممالک نے امریکہ اور ایران کو مزید کشیدگی میں اضافہ کرنے سے گریز کرنے کی اپیل کی ہے لیکن یہ تو وقت طے کریگا کہ یہ دونوں ممالک خطے کے امن و استحکام کے لئے کس حد تک ان اپیلوں پر عمل در آمد کے لئے تیار ہوتے ہیں اوران کی اپیلوں کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔

اس وقت ایران اور عراق کے بیانات میں جو امریکہ کیخلاف نفرت‘دھمکیاں اور غم و غصہ کی جوشدت پائی جا رہی ہے وہ خطے کے امن و استحکام کے پر سکون مستقبل کی جانب تو ہر گز اشارہ نہیں دے رہی اور اس سے محسوس ہو رہا ہے کہ خطہ میں کشیدگی میں کمی لانے کے لئے کوئی سعی کامیاب نہیں ہو گی۔ایرانی سپریم لیڈر نے جس انداز میں امریکہ کو دہشت گرد کے لقب سے للکارا ہے اور جوہری توانائی کے معاہدے کو توڑنے کا اعلان کیا ہے اس سے ایران نے امریکہ کو بے وقعت کرنے کی کوشش کی ہے اور عراقی پارلیمنٹ کی جانب سے کئے گئے اقدامات ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ اس ہنگامی صورتحال میں ایران کے ساتھ کھڑا ہے حالانکہ ایسے حالات میں تمام فریقین اقوام متحدہ کے چارٹرکے اصولوں کی پاسداری کے پابند ہوتے ہیں لیکن اس سارے معاملے میں ایسے عالمی ادارے کی جانب سے خاموشی بہت معنی خیز ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ادارے کے قواعد و ضوابط پر طاقتور ممالک کس حد تک حاوی ہیں ۔

ایران اور امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں ٹکراؤ کو ٹالنے کے لئے یورپی یونین کے بشمول مختلف ممالک سر گرم عمل ہیں لیکن فوری طور پر ایران کا نیو کلئیر معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کرنا امریکی فوجیوں کو دہشت گرد قرار دینا عراق کی پارلیمنٹ کا امریکی فوجیوں سے انخلاء کا مطالبہ کرنا جیسے اقدامات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ خطے میں کوئی بڑا جنگ کی شکل میں بحران آنیوالا ہے ۔

تاہم ٹرمپ کے اس غیر دانشمندانہ اقدام کی وجہ سے ایران‘عراق اور شام پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں امکان ہے امریکہ اور ایران کے مفادات پر حملوں کے لئے عراق میدان جنگ بنے گا اگر ایران نے اسرائیل کو ٹارگٹ کیا تو اس جنگ کی لپیٹ میں شام بھی آئے گا اگر حزب اللہ نے اس صورتحاہل میں یہودیوں سے انتقام لینے کی کوشش کی تو گولان کی پہاڑی میدان جنگ بن سکتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اگر کوئی لڑائی یا محدود کارروائی سامنے آتی ہے تو سعودی عرب اس میں کیا رول ادا کرے گا کیوں کہ یمن کی وجہ سے ایران کے ساتھ اس کے تعلقات میں بھی شدید تناؤ اور کشیدگی پائی جاتی ہے امریکہ نے عراق اور لیبیا میں حکمرانوں کے مظالم کا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے عوامی برہمی کے نام پر ان حکومتوں کا تختہ الٹایا تھا لیکن ماضی کی نسبت امریکہ ایران کے ساتھ ایسا نہیں کر سکااس سے قبل بھی ایران میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں ۔

نیوکلےئر مسئلہ پر جاپان اور جنوبی کوریا کے اعتراض کے باوجود شمالی کوریا کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے والا ٹرمپ ایران کے تعلق پر دوہری پالیسی اپنائے ہوئے ہے اس کی وجہ اسرائیل ہے جو ایران کے وجود کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کسی نہ کسی بہانے مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کی تباہی‘خون خرابے‘نقل مکانی کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اگر امریکہ نے ایران کے ساتھ مزید کشیدگی کو بڑھایا تو حالات مزید ابتر ہو جائیں گے اور اس صورتحال کے پیش نظر دونوں ممالک کی قیادتوں کی جانب سے کسی خوش آئند اقدام کی توقع نہیں کی جا رہی ان حالات کے پیش نظر مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران امریکہ سے براہ راست ٹکراؤ سے گریز کرے گا لیکن کیا امریکہ ایسا کرے گا اس پر تشویش پائی جا رہی ہے بحر حال دونوں فریقین کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے علاقائی سالمیت کے احترام کو ملحوظ رکھنا چاہیے تا کہ مشرق وسظی کے امن و استحکام برقرار رکھا جا سکے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :