حقائق سے سچ تلاش کریں

پیر 11 اکتوبر 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

 ریاست مدینہ کے دعوے داروں کے قول و فعل میں مسلسل تضاد ان کی پہچان بن رہاہے اور تبدیلی کا خواب ایک گھسا پٹا نعرہ بن کر رہ گیا ہے ۔اسی دو عملی کو دیکھتے ہوئے ماضی کے حکمرانوں کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں کہ جن کی نوازشوں نے رنگیلے شاہوں کا ریکارڈ توڑ دیا تھا وہ بھی اعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ ”گزر گیا وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے ، بنے گا سارا جہاں مہ خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا “۔

روز اول سے ہی برسر اقتدار حکومت کا ہر فیصلہ ہی میرٹ اور سنیارٹی کی دھجیاں اڑارہا ہے یہی وجہ ہے کہ کابینہ نظر ثانی کی زد میں اور وزیراعلیٰ پنجاب کی تعیناتی تو ہمہ وقت ہر سطح پر زیر بحث رہتی ہے اور اپوزیشن برملا چوٹ کرتی نظر آتی ہے کہ” جسے دوکان بھی چلانی نہیں آتی ،آپ نے اس کے حوالے پنجاب کر دیا ہے “۔

(جاری ہے)

ویسے تو جنھیں نعرے بازی کے سوا کچھ بھی نہیں آتا تھا میاں صاحب نے انھیں بھی وفاقی وزیر لگا دیا تھا اورجو مرنے کے قریب تھے انھیں گورنر لگا دیا تھا ۔

۔انھی نا انصافیوں کے خلاف دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لیکر جناب عمران خان نکلے تھے لیکن نوازشیں بھی ویسی رہیں اور کرپشن کیسسز کے نتائج بھی نا قابل یقین سامنے آ رہے ہیں ۔۔ایک انگلش ناول کا پیرا گراف یاد آگیا کہ ایک بیوی نے اپنے اپنے شوہر سے کہا کہ ”تمھارا قریبی دوست الیگزینڈر مجھ پر بری نظر رکھتا ہے “۔شوہر غصے میں بولا ” بکواس بند کرو ،میرا دوست ایسا نہیں ہے ۔

“بیوی نے ملتجائی لہجے میں کہا ”یقین کرو ،میں جھوٹ نہیں بول رہی ،وہ مجھے کئی بار رقم بھی آفر کر چکا ہے مگر میں نے ٹھکرا دی “۔ شوہر نے پوچھا :” کتنی رقم آفر کی ہے “؟ بیوی نے جواب دیا :” 5000 ڈالر “۔ شوہر :” اگر وہ 10000 ڈالر آفر کرے تو “؟ بیوی :”ہر گز نہیں “۔ شوہر :” اگر 20000 ڈالر ہوں تو “؟ بیوی :”کبھی بھی نہیں “۔ شوہر :” اگر 50000 ڈالر ہوں تو “؟ بیوی شرماتے ہوئے بولی کہ پھر سوچا جا سکتا ہے “۔

شوہر مسکرایا اور کہا کہ پھر فرق تو صرف قیمت کا ہوا نا ۔۔“تو جناب یہاں سب بکتا اور سب چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ کرپشن بیانیہ بھی پٹ چکا ہے کہ بیان بازی سے ملک و قوم کو اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں ملا اور نا ہی مستقبل قریب میں کوئی نوید ہے ۔البتہ روایتی سیاسی شعبدہ بازیاں ،بیانیے اور ڈرامے عروج پر ہیں ۔جنھیں دیکھ کر عوام سخت نالاں ہیں کیونکہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی عوامی مسائل پر آواز نہیں اٹھاتا الٹااپنی بقاء کی فکر میں گھوم رہے ہیں جبکہ حالات بد سے بدتر نہیں بد تر سے بد ترین ہو گئے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتے بڑھتے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں مگر کسی کو پرواہ نہیں ،ڈالر آسمان کو چھو رہا ہے جس کیوجہ سے مہنگائی بھی بڑھتی جا رہی ہے ۔

بے حسی کا عالم اور کیا ہوگا کہ مذکورہ جاری ستم پر ایک بھی ٹویٹ نہیں کی گئی لیکن ٹیکس اکٹھا ہونے پر ٹویٹ کی گئی جوکہ ان طبقات سے لیا گیا ہے جو ہمیشہ سے دیتے تھے اور اگر دیگر کیسسز کی طرح اس کی بھی شفاف تحقیقات ہوں تو یقینا یہی بیان سننے کو ملے گا کہ مافیاز کو بچنے کے راستے آتے ہیں ۔
 بچنے سے یاد آیا کہ میاں شہباز شریف کو برطانیہ نے منی لانڈرنگ کیس سے بری کر دیا ہے اور نیب کو بھی کوئی خاص ثبوت نہیں ملا دوسری طرف بلاول زرداری اور آصف زرداری کی نیب طلبیاں اورپیشیوں نے نیا بھٹو پیدا کر دیا ہے۔

تبدیلی سرکار کو لگتا تھا کہ میدان صاف ہے اسی خوش فہمی میں وہ نظریاتی کارکنان ناراض کر بیٹھے اور پرانے سیاسی شعبدہ بازوں کو گلے سے لگا لیا تاکہ کرسی محفوظ رہے اور وہ مفادات کی تسکین نہ ہونے کیوجہ سے مرچیں چباتے رہتے ہیں اور سوچے سمجھے بغیر بیانات داغتے ہیں جنھیں میڈیا اچھال کر مزید کسر پوری کر دیتا ہے تاہم امتحان اب ہوگا جو سیکھا ہے کیونکہ پنجاب میں کایا ہی پلٹ گئی ہے۔

ن لیگ اپنا کھویا وقار بحال کرنے میں کامیاب نظر آرہی ہے؛ دیکھنا یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کا نعرہ ”کام کو ووٹ دو “ مزید کیا رنگ دکھاتا ہے اور میاں شہباز شریف کس پلیٹ فارم پر گونجتے ہیں”میں نہیں مانتا ‘میں نہیں مانتا“۔
 افسوس ہمارے سبھی لیڈران گفتار کے غازی ہیں اور ہر وقت سر بکف مجاہد ہیں مگر ٹارگٹ”کرپشن بچاؤ مہم “ کے سوا کوئی بھی نہیں ہے ۔

اندازہ کریں کہ جعلی بینک اکاؤنٹس نکلے تو آصف زرداری سے سوال کیا گیا تو مسکرا کر ٹال دیا اور بلاول کی نیب پیشی ہوئی تو بیان داغ دیا کہ ”یہ ہماری کمزوری تھی کہ ہم نے نیب کے کالے قانون کو ختم نہیں کیا اس لیے میں آج یہاں کھڑا ہوں “ ۔یہ بیان نیب کی کار کردگی پر سوالیہ نشان تھا لیکن سب قصہ پارینہ ہو چکا اور کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق کوئی پیسہ واپس نہیں آیا اور نہ ہی قابل ذکر ریکوری ہوئی بلکہ اب تو خان صاحب کہتے ہی نہیں ہیں ”میں کسی کو نہیں چھوڑونگا “ کہ کچھ جگر ٹوٹوں کے نام بھی آتے ہیں ۔

یہی دوعملی ہے کہ اشرافیہ اور انکے پیروکاروں کا ہر قسم کا کہا ، سنا ،کیا اور دیا معاف ہے جبکہ عام آدمی سوشل میڈیا پر گڈ گورننس کے فقدان پر سوال بھی اٹھا دے تو زیر عتاب ہے۔یہ کیسا احتساب ہے ؟ یہ کیسی تبدیلی ہے ؟ یہ کیسا انصاف ہے ؟ گذشتہ چار برسوں میں موجودہ حکومت نے تعمیراتی منصوبوں کو ختم کرنے اور پرانے پراجیکٹس پر اپنے نام کی تختی لگانے کے سوا پورے ملک میں کون سا ایسا کام کیا ہے جس کی ثمرات براہ راست عوام کو حاصل ہوئے ہوں؟ مختصراً کرپشن بھی ہوئی ، اقربا پروری بھی کی گئی ، وفاداروں کو بھی نوازا گیا ،عہدوں کی بندر بانٹ بھی کی گئی ، اکثر قلم کاروں اور میڈیا ہاؤسزکو بھی زرخرید بنایا گیا کہ وہ عوام کو تشہیری منصوبوں میں الجھائے رکھیں۔

عوامی فلاح و بہبود اور گڈ گورننس کی مد میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا ۔صحت و تعلیم سوالیہ نشان بن گیا ، ناقص خوراک اور گدلا پانی عام آدمی کا مقدر بنا ، موسم گرما میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور سرما میں گیس کی لوڈشیڈنگ نے عوام الناس کو کرب و احتجاج میں مبتلا کئے رکھا ، تہواروں پر مہنگائی کے بوجھ تلے دب کرایک غریب موت کو گلے لگانے پر بھی مجبور ہوا مگر نہ زنجیر عدل ہلی ، نہ ہی ایوان لرزے ،بلکہ کورونا جیسی وبا میں امداد کو بھی سیاسی وابستگیوں سے مشروط کر دیا گیا اور اب کہا جارہا ہے کہ اتنا سیکھا جو پوری زندگی میں نہیں سیکھا تھا ۔

یہ ریاست ہے تجربہ گاہ نہیں ہے اور حساب طے ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ حقائق سے سچ تلاش کریں اور پھر حل تجویز کریں تاکہ تبدیلی کا نعرہ شرمندہ تعبیر ہو سکے کیونکہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :