پھولے نہ سمانا

جمعہ 22 مئی 2020

Sahib Shiraz

صاحب شیراز

مراد راس ۶ جون ۱۹۶۹ ء کو گجرات میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔ ۱۹۹۳ء میں آپ نے فنانس میں (EKU) ایسٹرن کنٹکی یونیورسٹی امریکا سے (B.B.A) بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن پاس کیا۔ پھر ۲۰۱۰ء میں (AHUSC)امریکن ہیریٹیج یونیورسٹی آف جنوبی کیلی فورنیا نے آپ کو بزنس ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا ۔ اس طرح اپنے نامِ نامی اسمِ گرامی سے پہلے ’ڈاکٹر‘ کا سابقہ لگوانے میں کامیاب ہوگئے۔

پی ٹی آئی کے ٹکٹ پرpp-152 لاہورکا الیکشن ۲۰۱۳ء میں معجزانہ طور پر جیت گئے اور یوں بطور ممبرصوبائی اسمبلی پانچ سالہ تجربہ حاصل کرکے اپنی پروفائل کو ہائی کرلیا۔ 
۲۰۱۸ء میں دوسری بار PP-159 لاہور سے الیکشن جیت کرسیاسی حلقوں میں نہ صرف اپنا لوہا منوایالیا بلکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی بننے والی پہلی حکومت کی کابینہ میں بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔

(جاری ہے)

پنجاب حکومت نے انھیں وزارتِ تعلیم کا قلمدان سونپ کرملک کے سب سے بڑے صوبے جس کی آبادی ملک کی کل آبادی کے نصف سے بھی زائد ہے کے بچوں کا مستقبل ان کے کرشماتی ہاتھوں میں تھمادیا۔ 
قارئین اکرام ! میں بطورِ استاد اپنی کم علمی کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں اپنے وزیرتعلیم کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا۔ وزیر موصوف جس طرح دن بدن شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ان کا شمارقائداعظم اور علامہ اقبال جیسی عظیم شخصیات کے زمرے میں ہونے لگے اور کوئی خیراندیش ان کی شخصیت پر مضمون نگاری کو کسی سطح پرتعلیمی کورس میں شامل کردے اور مجھے اپنے شاگردوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے کیونکہ اتنا تو وہ بھی جان جائیں گے یہ چند سطور لکھنے سے پندرہ نمبر کے سوال میں تیرہ سے چودہ نمبر ملنے سے رہے اورآج کل امتحانات کا مقصد کسی کی علمیت جانچنا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ نمبروں کا حصول ہی ہوتا ہے اس لیے آپ سے التماس کرتا ہوں میرے پیارے وزیر جناب مراد راس کے بارے میں مجھ سے پوشیدہ ان کی خصوصیات کو مجھ پر افشا کرکے ثوابِ دارین حاصل کریں اور مجھے شرمندہ ہونے سے بچائیں۔

 
۲۷ اگست بروزپیر ۲۰۱۸ء یہ وہ دن ہے جس کو دیکھنے کے لیے کپتان نے دو دہائیوں سے زائد عرصہ سخت جدوجہد کی ہم جیسے ورکرز نے دن رات ایک کیا۔ اس دن پنجاب حکومت کی نوزائیدہ کابینہ کی تقریبِ حلف برداری براہِ راست تقریباً تمام ٹی وی چینلز پر دکھائی جارہی تھی۔ فتح کے جزبے سے سرشار آنکھوں میں مستقبل کے خواب سجائے ہم بھی اس منظرکو بڑے اشتیاق سے دیکھ رہے تھے۔

وزراء ایک قطار میں کھڑے اپنے ہاتھوں میں حلف نامہ اٹھائے اس میں رقم عبارت کو قائم مقام گورنر چودھری پرویز الٰہی ،جو ان سے حلف لے رہے تھے، کے ساتھ ساتھ دوہرا تے جارہے تھے جس طرح مدارس میں طلبہ اپنے استاد کے ہمراہ دوہراتے ہیں۔ نجانے کیوں قطار میں کھڑے سب سے پستہ قدوزیر کو دیکھ کر میراماتھا ٹھنکا! یہ میری چھٹی حس تھی یا استادانہ پیش بینی دل گواہی دے رہا تھا ”اس سے نہیں ہو گا“ لیکن جیسے تیسے دل کو تسلی دی اپنی بدظنی پرخود کو کوسا اور سوچا کوئی بات نہیں”کپتان ہے ناکیوں فکر کرتے ہوسب ٹھیک ہوجائے گا“ لیکن ڈاکٹر مرادراس صاحب کو وزارت کیا ملی کہ خوشی یا اس انہونی پر پھولے نہ سمائے۔

موصوف ایسے پھولے کہ سمانا ہی بھول گئے اور ابھی تک ان کا پھولنا جاری ہے۔ ان کے پھولنے کے پھیلاوٴکی وجہ سے شعبہ تعلیم سکڑاوٴ کا شکار ہونے لگا ہے اگر ان کو مزید پھولنے سے نہ روکا گیاتو امکانِ غالب ہے شعبہ تعلیم کی بنیادیں ان کی نااہلی اور پھولاوٴکی زد میںآ کر کرچی کرچی ہوجائیں اور ناقابل تلافی نقصان بھگتنا پڑے۔ 
میرے انجانے خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب تعلیمی سال ۲۰۱۹ء کا آغاز ہوتے ہی پیف کی جانب سے پیف پارٹنرز کو نئی داخلہ پالیسی کا پروانہ ملاجس میں موصوف کا ہاتھ ہی نہیں بلکہ پاوٴں اور سر بھی شامل ہے۔

نئی پالیسی کے تحت پیف سکولزکو آئندہ اپنے طلبہ کی تعداد بڑھانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی یعنی جتنے بچے پاس آوٹ ہونگے اتنے بچوں کو داخل کیا جاسکے گا۔ 
معزز قارئین اس حکم نامے پر تھوڑا غورتو کریں! کیا اس حکم نامے میں آپ کو امتیازیت، تعصب ، وزیر موصوف کی نااہلی اور انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آرہی؟ وہ دن ہے اور آج کا دن بیچارے پیف پارٹنرز کے ساتھ وہ ناروا سلوک کیا گیاکہ الامان الحفیظ! کبھی داخلوں پر پابندی، کبھی شرم ناک کٹوتیاں، کبھی پیمنٹ میں غیر ضروری تاخیر ، کبھی مافیا کہنا، کبھی فیک بچوں کا الزام ، جھوٹ پہ جھوٹ وعدہ خلافیاں موصوف کا وطیرہ بن چکاہے ۔

 
 پیف کے ساتھ ان کا رویہ اس طرح ہے جیسے انڈیا کا پاکستان کے ساتھ یا شاید کسی سوتن کا سوتن کے ساتھ یا پھرکسی سوتیلی ماں کاسوتیلے بچوں کے ساتھ۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے وزیر صاحب ہمارے نظام تعلیم کے حروف ابجد سے بھی واقف نہیں۔ ان کی سی وی بھی اس بات کی گواہی دے رہی ہے شعبہ تعلیم کے پاس سے ان کاکبھی گذرتک نہیں ہوا ۔ تعلیم کی وزارت کسی ماہر تعلیم کے حوالے کی جانی چاہیے تھی۔

جانے کس نے اور کیوں انھیں یہ وزارت دی ۔ وزیر اعظم نے اداروں کو مضبوط کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کے وزیر موصوف بنے بنائے ادارے کو تہہ وبالا کرنے پر مصر ہیں جو وزیراعظم کے ویژن کے خلاف ہے۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ تو عرض کرتا ہوں وزیراعظم عمران خان کے مطابق ملک پر مافیا قابض ہے اسی وجہ سے انھیں حکومت چلانا مشکل ہو رہی ہے تو کیا یہ مافیا پنجاب پر قابض نہیں تھا! مجھے تو لگتا ہے وزیر تعلیم اسی مافیا کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔

یقینا ان کو بریف کیا گیا ہے کہ پنجاب میں شعبہ تعلیم کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ پیف ہے حالانکہ پیف پنجاب گورنمنٹ کاہی ادارہ ہے جو قانون سازی کے نتیجے میں وجود میں آیا اس میں سیاسی مداخلت بذاتِ خود ایک کرائم ہے مرادراس جس کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ بھی ان کی نا اہلی کا ثبوت ہے۔ یا پھر معاملہ ذاتی مفاد کا ہے جو ایک بزنس ایکسپرٹ کے ذہن میں پل رہا ہے جسے سوچ کر پیف کے حصے کا فنڈ دیکھ کر شاید ان کے منہ میں پانی بھر آتا ہو۔

شنید ہے کہ موصوف انصاف سکولز سسٹم بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے ان کے قریبی لوگوں نے بلڈنگز بھی کرائے پہ لے لی ہیں ۔ 
کہیں جناب کا ارادہ پیف کو ختم کرنے کااس لیے تو نہیں کہ اس فنڈ کو ہوسِ زر بجھانے کے لیے ا ستعمال کرنا چاہتے ہوں۔ ویسے میرے وزیر کی باڈی لینگویج پی ٹی آ ئی سے زیادہ ن لیگی نظر آتی ہے۔ ان کی ۲۰۱۳ء کے الیکشن میں جیت کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی تو راز ہوگا! ان کا سوشل میڈیا پر اپنی شخصیت کو پرموٹ کرنے میں مصروفِ عمل نظر آنا شہباز شریف کی شوبازیوں سے مشابہت رکھتا ہے اور خیر سے آپ لاہوری بھی ہیں ! آخر کیوں پچھتر سو سکولوں ، چار لاکھ کے قریب اساتذہ اور تیس لاکھ سے زاید طلبہ کے مستقبل کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں؟ کرونا زدہ ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ اگر اس ملک میں کوئی قاعدہ قانون ہے تو کوئی توہو جو ان سوالات کا جواب دے۔

کیا اس پر چیف جسٹس ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا سوموٹو لینا نہیں بنتا؟ سخت گرمی میں روزے کی حالت میں سڑکوں پرذلیل ہوتے ہوئے اساتذہ اکرام اور پیف پارٹنرز کسی کو دکھائی نہیں دے رہے! کیوں آخر کیوں؟ دیکھتے ہیں وزیر موصوف کی’ پھولے نہ سمانا‘ کی بیماری کیا گل کھلائے گی؟ لیکن انجام تو طے ہے غبارہ ہو، گاڑی کا ٹائر ہو یا کوئی وزیر تعلیم پھولے نہ سمانے پر پھٹ جایا کرتا ہے!!! 
 غریبوں کے لیے یہی خبر خاص آئی ہے 
 لے کے ڈاکٹر ثانیہ پروگرام ’احساس‘ آئی ہے
 کوئی ہو جو سنے فریاد پیف پارٹنرز کی شیراز#
 جنھیں کپتان کی ’مراد ‘ نہ ’ راس‘ آئی ہے 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :