کیا نوازشریف غدار ہے؟

بدھ 7 اکتوبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

پاکستان میں آج کل غداری کے میڈلز ایسے تقسیم ہو رہے ہیں جیسے داتا صاحب کے مزار پرلنگر تقسیم ہوتا ہے۔غداری کی تعریف اور کچھ تاریخ پر لکھنے سے پہلے میں آئین پاکستان کا جائزہ لینا چاہتا ہوں آئین پاکستان غدار کی تعریف کیا کرتا ہے۔آئین پاکستان کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ ’ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئین پاکستان کو منسوخ، تحلیل، معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا یا ایسا کرنے کی سازش میں شریک ہوتا ہے۔

‘یہ آئینی تعریف کی وہ شکل ہے جو آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد سامنے آتی ہے۔غداری کا لفظ پہلی مرتبہ سنہ 1973 کے آئین میں استعمال ہوا۔ تاہم اس وقت دیے جانے والے غداری کے تصور میں اٹھارویں ترمیم کے بعد تبدیلی آئی۔

(جاری ہے)

جو اضافہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ ’آئین کو معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرنے والا شخص یا ایسے شخص کی امداد کرنے والا شخص غدار ہو گا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس شق کا استعمال سابق فوجی جنرل پرویز مشرف پر لاگو کیا گیا اس شق کے مطابق پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سیٹھ وقار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم دیا اور تین دن تک ڈی چوک میں لٹکائے رکھنے کا بھی حکم دیا پھر کچھ ہی دنوں پر لاہور کی ایک عدالت کے جج نے خصوصی عدالت کا یہ فیصلہ کالعدم قراردے دیا ۔

ویسے تو پاکستان میں غداری کے سرٹیفکیٹ زیادہ تر سیاستدانوں کو ملتے رہے ہیں ۔سیاستدانوں کے بعد کبھی قوم پرستوں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کیے گئے ہیں ۔لیکن آج کل تو دھڑا دھڑ یہ سرٹیفکیٹ تقسیم ہو رہے ہیں جیسے غداری کے سرٹیفکیٹ کے کنٹینر سوڈان اور شام سے منگوائے گئے ہیں ۔
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنی جماعت کے لوگوں سے خطاب کیا جو پورے میڈیا پر مسلسل لائیو چلا اس خطاب کے بعد جیسے ملک میں ہلچل سی مچ گئی ہو اسلام اور راولپنڈی کی جانب سے نوازشریف پر جوابی حملے شروع ہو گئے۔

پھر اچانک سے رات کو تقریبا دو ڈھائی بجے لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں بدر رشید نامعلوم محب وطن شہری کی درخواست پر نوازشریف سمیت دو سابق وزراء اعظم،تین سابق جنرلز سمیت کئی سابق وفاقی وزراء اور دس خواتین پر غداری و بغاوت کا مقدمہ درج کرلیاجاتا ہے۔پھر اگلے دن فلم میں نیا سین تب آتا ہے جب حکومت کے ایک وزیر انکشاف کرتے ہیں وزیراعظم کو اس مقدمے کا علم ہی نہیں اور انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

حکومت کے وزیر کے اس بیان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی اور انتظامی معاملات وزیراعظم کی بجائے کہی اور سے چلائے جا رہے ہیں ۔وزیراعظم کو اکثر معاملات کا علم ٹی وی دیکھ کر،بشریٰ بیگم سے یا وزراء کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے ۔
”نوازشریف آج کے غدار نہیں وہ آج سے تقریبا 23سال پہلے ہی غدار بن چکے تھے جب پرویز مشرف،عزیز اور محمود نے نوازشریف کو بتائے بغیر کارگل پر چڑھائی کردی ۔

اس واقعہ کے کچھ تفصیل نوازشریف اپنی کتاب ”غدار کون“ میں بتاتے ہیں کہ مجھے بحیثیت وزیراعظم کارگل کے مسئلے پر اعتماد میں ہی نہیں لیا گیا تھا اور جب چار ماہ بعد کچھ بتایا گیا تو یہی کہا گیا کہ اس حملے سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا اور جانی نقصان بھی نہیں ہوگاجبکہ مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ فوج حملے نہیں کرے گی بلکہ مجاہدیں حملے کریں گے۔

لیکن جب کارگل کا معاملہ شروع ہوا تو پوری کی پوری نادرن لائٹ انفنٹری آڑ گئی۔2700جوان شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔شہداء کی یہ تعداد 1965اور 1971کے دونوں جنگوں کے شہداء سے زیادہ تھی۔نوازشریف مزید بتاتے ہیں میں 4جولائی کو ہنگامی حالات میں پرویز مشرف کے کہنے پر امریکہ بل کلنٹن سے ملنے گیا کیونہ پرویز مشرف بار بار کہہ رہا تھا میاں صاحب اب ہماری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے کسی بھی طریقے سے ہمیں محفوظ راستہ لے کر دیں۔

اس دن امریکہ کا یوم آزادی ہوتا ہے اس کے باوجود امریکی صدر نے مجھے ملاقات کیلئے چار گھنٹے کا وقت دیا ۔ہم کارگل کی جنگ بری طرح ہاررہے تھے لیکن مجھے اپنی فوج کی عزت عزیز تھی ۔اس وقت کارگل کی ساری ذمہ داری میں نے اپنے کندوں پر لے لی میں اپنی فوج کو کسی قسم کی بڑی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنے دوں گا۔نوازشریف کہتے ہیں کارگل ایک حقیقت ہے اگر سقوط ڈھاکہ نہیں چھپ سکا تو کارگل کی حقیقت بھی انشاء اللہ ایک دن قوم کے سامنے آئے گی“۔

یہ کچھ مختصر سا نوازشریف کی غداری کا تعارف ہے ۔نوازشریف نے عالمی سطح پر اپنی فوج کو بدنامی سے بچایا ۔ایسی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی سزا بھی تو ملتی ہے ۔ہاں اگر اب بھی نوازشریف غدار ہے تو پاکستان میں اب تک جتنے بھی وزیراعظم گزرے ہیں چاہے وہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں وہ بھی سب غدار ہیں کیونکہ یہ سب سویلین وزیراعظم تھے انہوں وردی نہیں پہنی تھی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :