بیٹیاں

بدھ 2 دسمبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

کچھ رشتے اللہ کی طرف ایسے بنادیے گئے ہیں جن کامتبادل کوئی نہیں ہو سکتا۔ہمارے اردگرد ایسے بہت سے لوگ ہونگے جو ان رشتوں کی جگہ لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کا پیار اور محبت صرف وقتی ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوجاتا ہے یا بلکل ہی لاتعلق ہو جاتے ہیں۔انہی رشتوں مین بیٹیاں بھی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہیں ۔اکثر سنتے ہیں بیٹی ہی مشکل وقت میں والدین کا سہارا بنتی ہیں جبکہ بیٹے اکھڑ مجاذ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی والدین سے ناطے بھی توڑ دیتے ہیں ان کو بے سہارا و تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔

کچھ بد بخت بیٹے تو جائیداد کیلئے والدین کو قتل تک کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ایسے والدین بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جن کو اچھے اور فرما بردار بیٹے ملتے ہیں ۔آپ کی زندگی میں ایسے واقعات بہت کم ہی سامنے آئی ہونگے جب کسی بیٹی نے جائیداد کیلئے اپنے والدین کو بے سہارا چھوڑا ہوگا۔

(جاری ہے)

ہمیشہ مشکل وقت میں بیٹی ہی والد کا سہارا بھی بنتی ہے ۔
پاکستان کی اگر سیاست کی بات کی جائے تو سب سے پہلے بیٹیوں کے معاملے میں ذوالفقار بھٹو صاحب کی بیٹی بینظیر بھٹو صاحبہ اگر ذکر نہ کیا جائے تو سیاسی بیٹیوں پر بات ہی شروع نہیں ہو سکتی۔

ستم ضریفی کا عالم دیکھیں ذوالفقار بھٹو ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں قید تھے اور ان کی بیوی نصرت بھٹو اور بیٹی بینظیر بھٹو چند کلو میٹر دور سہالہ پولیس ٹریننگ کیمپ میں قید تھیں۔ایک دن اچانک ایک فوجی افسر نصرت بھٹو کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ بی بی آپ آج بھٹو صاحب سے ملاقات کرینگی تیار ہو جائیں ۔نصرت بھٹو فورا بینظیر بھٹو کے کمرے میں جاتی ہیں اور ان کو اس نام سے پکارتی ہیں جس نام سے ان کو فیملی میں پکارہ جاتا ہے ”پنکی“آج ہم نے بھٹو صاحب سے ملاقات کرنی ہے ۔

لیکن بینظیر بھٹو بیماری کا بہانہ کرتی ہے کہتی ہے آج میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے کل ملاقات کرینگے۔بینظیر بھٹو اسی دورا ن ایک اپنی سہلی یاسمین کے نام خط لکھتی ہیں اور وہ اپنے ملازم کے ذریعے اس تک پہنچادیتی ہیں ۔خط میں لکھا جاتا ہے کہ فوجی حکومت کسی بھی وقت میں میرے والد کو پھانسی دے سکتی ہے ۔اس کے متعلق غیر ملکی سفارتکاروں ،میڈیا اور قوم کو آگاہ کردیا جائے۔

خط یاسمین تک پہنچ جاتا ہے ،میڈیا اور غیر ملکی سفارتکاروں کو بھی خبر ہو جاتی ہے لیکن سب کچھ بے سود ثابت ہوتا اور ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دے دی جاتی ہے۔اس وقت کی فوجی حکومت نے یہ ماحول بنایا کہ ذوالفقار بھٹو ملکی سالمیت کیلئے خطرہ بن چکے ہیں لہذا ان کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔
ایک مرتبہ تاریخ پھر دوہرائی جارہی ہے ۔آج کچھ نام تبدیل ہے لیکن موضوع وہی پرانا گھسا پٹا ہے۔

اس بار ذوالفقار بھٹو نہیں نوازشریف کو غدار بھی قراردیا جا رہا ہے اور بھارت کا ایجنٹ بھی کہا جارہا ہے ۔لیکن نوازشریف کی خوش قسمتی ہے کہ وہ پھانسی سے بچ گئے اور علاج کیلئے لندن چلے گئے ہیں ۔نوازشریف جب نیب لاہور آفس میں قید تھے تو رات کو تقریبا دو بجے ان کی اچانک صحت بگڑ جاتی ہے ۔نوازشریف کے داما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اعوان نے اسی رات بیان دیا کہ نوازشریف کو زہر دیا گیا ہے۔

نوازشریف کی بیٹی مریم نواز نے کہا تھا وہ نوازشریف کو مرسی نہیں بننے دیں گئیں۔یہ نوازشریف کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو مریم نوازجیسی بیٹی ملی ہے۔ آج نوازشریف کی بیٹی پوری طاقت کے ساتھ طاقتور وں کا مقابلہ کررہی ہے اور اپنے والد کے بیانیے کو آگے بڑھارہی ہے ۔جبکہ دوسری جانب ذوالفقار بھٹو کی نواسی اور بینظیر بھٹو کی بیٹی آصفہ بھٹو بھی میدان میں آگئی ہے۔

آصفہ بھٹو کی سیاست میں پہلی انٹری کو عوام کی جانب سے مثبت جواب ملا ہے۔
پہلے وقتوں میں بیٹے والد کا دفاع کرنے اور والد کی جگہ پر کرنے کیلئے میدان میں آتے تھے اب بیٹیاں میدان میں آرہی ہیں ۔مریم نواز اور آصفہ بھٹو اب ایک مشن پر چل پڑی ہیں ۔دونوں کا مشن ایک ہی ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت ہو اور آئین کی بالادستی ہو۔ان دونوں بیٹیوں کی باتوں کو عوام میں پذیرائی بھی مل رہی ہے ۔مجھ کسی برزگ نے بتایا تھا کہ عورت کی آواز میں تیزی اور کاٹ زیادہ ہوتی ہے لہذا اس کو برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ان بیٹیوں کی آواز میں کتنی کاٹ اور تیزی ہے جو طاقتوروں کو کمزور کردے اور ان کو آئین کی بالادستی تسلیم کرنے پر مجبور کردیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :