
نظریہ ضرورت
ہفتہ 13 فروری 2021

سیف اعوان
(جاری ہے)
پھر یہاں سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمد منیرنے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قراردے دیا۔
سپریم کورٹ کے ججز نے دور غلامی کے ایکٹ کے تحت غلام محمد کے اقدام کو درست قراردیا۔یہ فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے دیا گیا۔پاکستان میں سب سے پہلے جن چار ججز نے جمہوریت کا تختہ الٹنے والے گورنر جنرل غلام محمد کے اقدام کے حق میں فیصلہ دیا ان میں چیف جسٹس محمد منیر،جسٹس محمد شریف،جسٹس ایم ایس اکرم اور جسٹس ایس اے رحمان شامل تھے۔جس جج نے غلام محمد کے اقدام سے اختلاف کیا وہ جج جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئس تھے۔جن کے نام سے آج لاہور میں ایف سی کالج کا انڈ پاس منسوب کیا گیا ہے۔جسٹس کارنیلئس نے لکھا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اس کی اسمبلی کو اب 1935کے ایکٹ کے تحت برطرف نہیں کیا جاسکتا۔اس فیصلے کے بعد ”نظریہ ضرورت“نے جنم لیا ۔اسی نظریہ ضرورت کے تحت بعد میں آنے والے آمروں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔پھر جب 1999کو آرمی چیف پرویز مشرف نے جمہوریت کا تختہ الٹایا اور آئین معطل کیا تو ان کے اس اقدام کیخلاف سپریم کورٹ کے ججز نے 13اکتوبر کی رات ایک ججز کی میٹنگ بلائی۔ججز نے میٹنگ میں کہا ہم نے آئین پاکستان کے تحت حلف اٹھایا اور جنرل مشرف نے ایمر جنسی نافذ کرکے آئین ہی معطل کردیا ہے جس کا انہیں اختیار ہی نہیں اس کا ہمیں سوموٹو نوٹس لینا چاہیے اور اس معاملے کو میرٹ پر دیکھانا چاہیے۔لیکن اس میٹنگ میں موجود زیادہ ججز نے اس عمل کی مخالفت کی۔میٹنگ میں بیٹھے ایک جج جسٹس منیر اے شیخ نے کہا اس وقت صدر پاکستان رفیق تارڑ ہیں پہلے ہمیں ان کے اقدام کا انتظار کرناچاہیے وہ کیا ایکشن لیتے ہیں۔میٹنگ اس بات پر ختم ہو گئی اور ججز میں کوئی اتفاق نہ ہونے کے باعث پرویز مشرف کو اتنا وقت مل گیا کہ وہ اپنے پاؤں مضبوط کرسکیں۔سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان اپنی کتاب ”اے ہسٹری آف دی جوڈیشری ان پاکستان“میں لکھتے ہیں کہ اگر ججز اس رات سوموٹو نوٹس لے لیتے تو مارشل لاء ناکام ہو جانا تھا۔اب پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے ججز میں سے اپنے لوگ تلاش کرنا شروع کردیے ان میں سے پرویز مشرف کو جسٹس ارشاد حسن خان مل بھی گئے۔ایک جج کے ملنے سے مشرف کو فائدہ نہیں ہو سکتا تھا اب چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کو اپنے ساتھ ملانا یا ان کو ہٹانا بہت ضروری تھا۔آئین پاکستان میں ایسا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ کوئی آرمی چیف کسی جج کو عہدے سے ہٹاسکے۔تحریک انصاف کے سابق رہنما حامد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”پرویز مشرف نے چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی سے ملاقات کا فیصلہ کیا،چیف جسٹس نے کہا ان کے اقدام کو کسی صورت جائز قرارنہیں دیا جاسکتا ہاں ایک صورت میں ممکن ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری اگر نوازشریف کو بھیج کر دستخط کرالیے جائیں تو وہ سمری صدر پاکستان رفیق تارڑ کو بھیج دیں تو ممکن ہے۔چیف جسٹس نے کہا اگر نوازشریف سے اسمبلیاں تحلیل کرانے کی سمری پر دستخط کرالیے جائیں تو وہ انتخابات کی تاریخ بڑھانے میں تعاون بھی کرسکتے ہیں۔پرویز مشرف نے اسی رات جنرل محمود کو نوازشریف کے پاس بھیجا کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری پر نوازشریف سے دستخط کرالائیں۔اس حوالے سے میاں نوازشریف اپنی کتاب ”غدار کون“میں بتاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک سے زیادہ فوجی افسر اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کرانے کیلئے آتے رہے۔لیکن ان سب کو میرا ایک ہی جواب تھا کہ ”اوور مائی ڈیڈ باڈی“۔پرویز مشرف جب نوازشریف سے اسمبلیاں تحلیل کرانے میں ناکام رہے تو انہوں نے سوچا کہ اب کوئی اور راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔اب سپریم کورٹ میں مسلسل مارشل لاء کے خلاف درخواستیں دائر ہو رہی تھیں تو چیف جسٹس نے تمام درخواست کو یکجا کرکے زیر سماعت قراردیتے ہوئے 31جنوری کی تاریخ مقرر کردی۔پرویز مشرف نے پھر چیف جسٹس سے 25جنوری کی شام ایک اور ملاقات کی اور انہیں کہا کہ 31جنوری کو فیصلے میں میرے اقدام کو قانونی قراردیں ،دو سال تک انتخابات التواء میں رکھنے کا بھی حکم دیں اورہمیں آئین میں ترمیم کی بھی اجازت دیں۔چیف جسٹس سعید الزاماں صدیقی نے صاف انکار کردیا تو پھر اگلے دن پرویز مشرف نے تمام ججز کو آئین پاکستان کے تحت نہیں پی سی او”پروویژنل کانسٹی ٹیوشنل آرڈر“ یا عبوری حکم نامے کے تحت حلف اٹھانے کا حکم دیا۔ اس سارے واقعے کے بعد اب پاکستان کے چیف جسٹس بنے جسٹس ارشاد حسن خان جہنوں نے مشرف کی پہلے ہی تمام شرطیں تسلیم کرلی تھیں۔پھر 31جنوری کا سورج طلوع ہوا ،بارہ ججز کے فل بینچ کے سربراہ بھی چیف جسٹس ارشاد حسن خان تھے ۔فل بینچ نے پرویز مشرف کے 12اکتور کے اقدام کو جائز قراردے دیا۔سپریم کورٹ کے بینچ نے ”نظریہ ضرورت“کو بنیاد بناکر متفقہ فیصلہ دیا۔فل بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا”حکومت کا آئین معطل کرنے اور حکومت پر قبضہ کرنے کا اقدام جائز اور درست ہے یہ اقدام قومی مفاد میں تھا اور لوگوں نے اس اقدام کو خوش آمدید کہا ہے“۔یہ صرف پاکستانی ججز کے دو فیصلوں کی کہانی بیان کی گئی ہیں ۔راقم الحروف مزید فیصلوں کی بھی نشاندہی کرسکتا ہے لیکن جگہ کی کمی کے باعث محدود کررہا ہوں۔اس طرح چیف جسٹس ثاقب نثار نے الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017کو کالعدم قراردے دیا جس کو پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے پاس کیا ۔اس ایکٹ کے تحت نوازشریف اپنی جماعت کے صدر بن سکتے تھے۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سیف اعوان کے کالمز
-
حکمت عملی کا فقدان
منگل 2 نومبر 2021
-
راولپنڈی ایکسپریس
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
صبر کارڈ
منگل 26 اکتوبر 2021
-
مہنگائی اور فرینڈلی اپوزیشن
بدھ 20 اکتوبر 2021
-
کشمیر سیاحوں کیلئے جنت ہے
جمعہ 15 اکتوبر 2021
-
چوہدری اور مزارے
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
نیب کی سر سے پاؤں تک خدمت
منگل 28 ستمبر 2021
-
لوگ تو پھر باتیں کرینگے
ہفتہ 25 ستمبر 2021
سیف اعوان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.