بھٹو کی پھانسی سے دودن قبل کیا ہوا

بدھ 7 جولائی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں قید تھے اور انہوں نے بھوک ہڑتال کی ہوئی تھی۔2اپریل 1979کو ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کی خلاف اپیلیں کی گئی لیکن ٹھیک دو دن بعد یعنی 4اپریل کو یہ تمام اپیلیں مسترد کردی گئی۔یہ تمام اپیلیں بھٹو خاندان کی طرف سے نہیں بلکہ سیاسی کارکنوں اور وکلاء کی طرف سے کی گئیں تھیں۔اندرون خانہ حکومت ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دینے کی تیاریاں کررہی تھی ۔

جبکہ قانون کے مطابق اگر کسی ملزم کو پھانسی دینے کا وقت قریب آچکا ہوتو اس کم از کم 7دن قبل اس شخص اور اس کے اہلخانہ کوآگاہ کرنا لازمی ہوتا ہے۔لیکن نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کو ذوالفقار بھٹو کی پھانسی سے دو دن قبل آگاہ کیا گیا جبکہ ذوالفقار بھٹو کو اپنی پھانسی کی اطلاع اس وقت ملی جب دونوں ماں بیٹی ان سے آخری ملاقات کرنے جیل میں ان کے سیل میں آئی۔

(جاری ہے)

ذوالفقار بھٹو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں قید تھے جبکہ ان کی بیوی بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی بینظیر بھٹو راولپنڈی کی سہالہ ہاؤس میں نظر بند تھیں۔ بینظیر بھٹو اپنی کتاب ”دختر مشرق“میں لکھتی ہیں کہ فوجی حکام نے دو اپریل کو ان کو بتایا کہ آج ان کی ذوالفقار بھٹو سے ملاقات ہے آ پ نے تیار رہنا ہے ایک گھنٹے پر چند فوجی اہلکار آپ دونوں کو لینے آئیں گے۔

بینظیر بھٹو لکھتی ہیں کہ مجھ پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔میں نے ان فوجیوں کو بیماری کا کہہ کر اگلے دن آنے کا کہا۔بیماری کا بہانہ انہوں نے اس لیے بنایا کہ تاکہ وہ دنیا کو آگاہ کرسکیں کہ ذوالفقار بھٹو کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔بینظیر بھٹو نے دو اپریل کو اپنے ذاتی ملازم ابراہیم کو ایک خط دیا جو انہوں نے اپنی دوست یاسمین کے نام لکھا۔خط میں بینظیر نے لکھا کہ یاسمین ملکی اور غیر ملکی میڈیا سمیت تمام غیر ملکی سفارتکاروں کو بتادیا جائے کہ ان کے والد کو پھانسی دی جانے والی ہے۔

بینظیر بھٹو نے عوام سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کیخلاف تحریک چلائیں۔بینظیر بھٹو کی اپیل بی بی سی کو بھی ملی ۔بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ بینظیر بھٹو کو خدشہ ہے کہ ان کے والد کو پھانسی دی جانے والی ہے لیکن بی بی سی نے عوام کو تحریک چلانے والی لائن نشر نہ کی۔ایک طرف بینظیر بھٹو اپنے والد کی پھانسی رکوانے کی کوششوں میں لگی تھی دوسری طرف فوجی حکومت بھٹو کو غدار اور ملک دشمن ثابت کرنے میں لگی تھی۔

ملکی اخبارات میں تیزی سے ہر روز خبریں شائع کرائی جارہی تھی کہ ذوالفقار بھٹو کی کراچی،نوڈیرو اور اسام آباد والی رہائشگاہوں سے ملکی سالمیت کیخلاف سازش کرنے کی اہم دستاویزات ملی ہیں۔فوجی حکومت نے دعوی کیا بھٹو ان اہم دستاویزات کو بیرون ملک سمگل کرنا چاہتے ہیں۔
جبکہ اے این پی کے خان عبدالولی خان نے دعوی کیا بھٹو پاکستان کے صوبوں کو پڑوسی ممالک کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔

چوہدری ظہور الٰہی نے کہا ذوالفقار بھٹو قاتل ہی نہیں بلکہ ملک دشمن بھی ہے اس کا انجام عبرتناک ہونا چاہیے۔جماعت اسلامی کے میاں طفیل نے کہا بھٹو کی پھانسی کے بعد ملک میں غیر یقینی کی صورتحال ختم ہو جائے گی اور ساری قوم راہ راست پر آجائے گی۔3اپریل کو بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹوذوالفقار بھٹو سے آخری ملاقات کرنے راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل پہنچیں۔

بینظیر بھٹو اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ہمیں ایک تیز رفتار جیت میں جیل پہنچایا گیا تو ہماری گاڑی کے پیچھے ہزاروں لوگ تھے۔ان لوگوں کو شاید معلوم نہیں تھا کہ ان کے وزیراعظم کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔جیل کے میٹرن نے ایک بار ہم دونوں ماں بیٹی کی تلاشی سہالہ کے قید خانے سے نکلتے وقت لی دوسری بار ہماری تلاشی جیل میں داخل ہوتے وقت لی گئی۔


ذوالفقار بھٹو نے جیلر سے پوچھا کیا یہ آخری ملاقات ہے جیلر نے کہا ہاں ۔بھٹو نے پوچھا پھانسی کا وقت کیا ہے ۔جیلر نے کہا صبح پانچ بجے۔اتنی بات کرکے جیلر وہاں سے چلاگیا۔ذوالفقار بھٹو سے جب نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی آخری ملاقات ہوئی تو ان دونوں کو نہ گلے لگ کر رونے دیا گیا اور نہ ایک دوسرے کو چھونے دینے دیا گیا۔تینوں کی آخری ملاقات ان حالات میں ہوئی کہ درمیان میں جالیوں والی دیوارتھی۔

تینوں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے لیکن چھو نہیں سکتے تھے۔انگلیوں سے انگلیاں ٹکراسکتی تھیں لیکن بیٹی باپ کے گلے نہیں لگ سکتی تھی۔ملاقات کے دوران بھی دو فوجی اہلکار ان کے پاس موجود رہے۔قانون کے مطابق ملاقات کا وقت ایک گھنٹہ ہوتا ہے لیکن تینوں کو صرف باتیں کرنے کیلئے آدھا گھنٹہ دیا گیا۔بینظیر بھٹو کے مطابق میرے والد کے آخری الفاظ تھے”خلق خدا میرے بارے میں گیت گائے گی اور میں اس کی کہانیوں کا جاویداں حصہ بن جاؤں گا“۔

راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل کے انچارج کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب ”بھٹو کے آخری 323دن“میں لکھا کہ بھٹو کو آخری وقت تک بھی یقین نہیں تھا کہ ان کوپھانسی ہوجائے گی۔کرنل رفیع لکھتے ہیں کہ بھٹو سمجھتے تھے یہ سب سیاسی ڈرامہ ہورہا ہے تاکہ ان کے سیاسی کیرئیر کو ختم کیا جاسکے۔کرنل رفیع کے مطابق پھانسی والی رات ذوالفقار بھٹو کو شدید بخار ہوچکا تھا وہ چلنے کے بھی قابل نہیں تھے لیکن ان کو سٹیچر پر ہی ہتھکڑی لگاکر پھانسی گھاٹ تک لایا گیااور آخر کار ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

آج ذوالفقار بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو اور داماداسی ولی خان ،ظہور الٰہی اور میاں طفیل کی جماعتوں سے آئندہ الیکشن کیلئے اتحاد بنانے کیلئے خفیہ اور ظاہرن ملاقاتیں کررہی ہیں۔دوسری جانب اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ ان کو دونوں پھانسی دینے یا زہر دینے کی کوشش کی گئی لیکن کو دونوں مرتبہ ہی بچ گئے شاید تقدیر ان کو ابھی مزید امتحانوں میں ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :