مینار پاکستان گئی کیوں؟

ہفتہ 21 اگست 2021

Saif Awan

سیف اعوان

قوموں کی تاریخ میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو ان کے ضمیر جھنجوڑ کررکھ دیتے ہیں ۔کچھ قوموں کے ضمیر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہوجاتے ہوجاتے ہیں کچھ کے ضمیر صرف ہلکی سے انگڑائی لیتے ہیں اور کچھ کے ضمیر مردہ ہی رہتے ہیں ۔جبکہ پاکستانی قوم تینوں کیٹیگری میں سے دوسری کو زیادہ فالو کرتی ہے ۔اس قوم کے ضمیر صرف کسی بھی سانحے پر ہلکی سے انگڑائی لیتے ہیں ۔

ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں ابھی کچھ باضمیر لوگ موجود ہیں جو قوم کو ہر سانحے پر جگانے کی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں ۔اکثر اوقات ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کو کبھی لبرلز ازم کے پیروکار اورکبھی مغربی ایجنڈے کے پیروکارکے القابات سے نوازاجاتا ہے لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ انہی چند لوگوں کی وجہ سے قوم کوکسی بھی سانحے پر متحد ہونے کا وقتی موقع ملتا ہے۔

(جاری ہے)

ایسے لوگ سچ میں خراج تحسین کے مستحق ہیں جو سب الزامات کے باوجود قوم کو جگانے میں مصروف عمل میں رہتے ہیں ۔
ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ اس کو ہر سانحے کو چند دن بعد بھول جانے کی عادی بنادیا گیا ہے ۔جبکہ یہ حقیقت میں ایسی ہرگز نہیں ہے۔چند سال قبل پاکستان میں مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آتا ہے تو یہی لوگ کسی کی درندگی کا شکار بننے والی مختاراں مائی کی آواز بنتے ہیں تو پوری دنیا کی توجہ پاکستان کی جانب مبذول ہوجاتی ہے پھر یہی لوگ پاکستانی قوم کو بھی جگاتے ہیں دیکھو تمہاری قوم کی بیٹی کو کیسے درندوں نے نوچ ڈالا ہے اور تم سورہے ہو۔

قوم پھر ہلکی سے انگڑائی لیتی ہے اور پھر سوجاتی ہے ۔پھر کچھ سال بعد پشاور میں سانحہ اے پی ایس پیش آتا ہے جس میں درجنوں بچے دہشتگردی کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔قوم پھر چند دنوں کیلئے انگڑائی لیتی ہے اور پھر سوجاتی ہے ۔سانحہ اے پی ایس کے بعد قصور میں ذینب نامی بچی سے زیادتی کا واقعہ پیش آتا ہے تو پھر وہی لوگ قوم کے ضمیر جھنجوڑتے ہیں ۔حسب روایت قوم پھر انگڑائی لیتی ہے ۔

جیسے ہی ماحول ٹھنڈا ہوتا ہے قوم پھر سوجاتی ہے ۔پھر سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کے ساتھ اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کا واقعہ پیش آتا ہے تو قوم پھر جاگ جاتی ہے ۔پاکستانی قوم کی صورتحال بالکل بھارتی ادا کار عامر خان کی فلم گجنی جیسی ہے ۔اس فلم میں اداکار عامر کی ہر پندرہ منٹ کیلئے یاداشت آتی ہے اورپھر واپس چلی جاتی ہے ۔پاکستان قوم بھی ہر سانحے کے بعد پندرہ دن جاگتی ہے پھر سو جاتی ہے۔


لاہور میں مینار پاکستان پر 14اگست کو ایک عائشہ اکرم نامی ٹک ٹاکر خاتون کے ساتھ چار سو درندے پونے تین گھنٹے تک کھلونے کی طرح کھیلتے ہیں ۔اس واقعے کے تین دن بعد جب پاکستانی قوم کا ضمیر انگڑائی لیتا ہے اور ساری قوم یک زبان ہوکر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتی ہے۔اللہ بلا کرے انگریزوں کا جہنوں نے ٹویٹر ایجاد کیا جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو گھر بیٹھے ہی ملک کے کسی بھی کونے میں پیش آنے والے ایسے افسوسناک سانحات کے متعلق معلومات مہیا کردی جاتی ہیں۔

ٹک ٹاکر خاتون کے ساتھ پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بعد پوری پاکستانی قوم میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے ۔اس حوالے سے میں نے لوگوں سے تجاویز لی کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کیا اقدامات ہونے چاہیے۔ان لوگوں کی تجاویز میں آپ کے ساتھ بھی شئر کردیتا ہوں۔اس سے متعلق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کچھ صارفین نے اس واقع میں ملوث ملزمان کو سزا دینے اور ٹک ٹاکر کے متعلق کچھ اپنے تاثرات کا اظہار کیا وہ یقینا وزیراعظم عمران خان اور ریاستی اداروں کے ساتھ بھی شیئر کرنے کے قابل ہیں ۔

سماجی کارکن عمار علی جان نے کہا مینار پاکستان واقعہ عوامی سطح پر خواتین کیخلاف معاشرے کی دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔اگر یہی ہماری ثقافت ہے تو ہمیں اس کو فوری ختم کرنا چاہیے۔عریشہ مانو نے نامی صارف نے لکھا ہم عورت اسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو۔باقی ہمارے لیے عورت نہیں ہوتی ہیں ،بس گوشت کی دکان ہوتی ہے ۔ہم اس دکان کے باہر کھڑے کتوں کی طرح ہوتے ہیں۔

جن کی ہوس زدہ نظر ہمیشہ گوشت پر ٹکی رہتی ہے۔خضرت حیات نے کہا اگر عدالتیں ٹھیک ہو جائیں بروقت انصاف ملے اور ایسے لوگوں کو سزائیں ملیں تو یہ سدھر سکتے ہیں۔سلمان احمد نے کہا اسلامی احکامات پر عمل کریں یا پھر خود کو غیر مسلم قراردے دیں۔عمران شبیر نے کہا اس واقع کی ذمہ داریہ لڑکی خود تھی لیکن ان چار سو لوگوں کو کسی نے اشتعال دلایا تو یہ واقعہ ہوا۔

عروسہ عثمان نے کہا یہ سارا قصور ٹک ٹاکر کا ہے ان کو لگادی جائے۔والدین اپنی اولاد پر نظر رکھیں۔ظفر بنگش نے کہا واقعہ افسوسناک ہے لیکن اس خاتون نے بھارتی جھنڈا اٹھایا جس کی وجہ سے لوگوں میں اشتعال پھیلا۔علی رضا نے کہا ان سب ملزمان کو پکڑ کر سرعام سو سو کوڑے لگائے جائیں۔عرفان خٹک نے کہا جب ملک کا وزیراعظم عورتوں کے بارے میں گمراہ کن بیانات دے گا تو ایسے واقعات پیش آئیں گے۔

محمد اویس بٹ نے کہا نظام عدل ٹھیک ہو جائے تو ایسے واقعات نہیں ہونگے۔شاہد جٹ نے کہا جس طرح خود کش بمبار کو نہیں رو سکتے اس طرح اگر کو اپنی عزت خود نیلام کرنا چاہے تو اس کو روک نہیں سکتے۔عبدالعزیز نے کہا الیکشن کمیشن ان ملزمان کو کبھی الیکشن میں حصہ نہ لینے دے۔طاہر لاہوتی نے کہا اس لڑکی نے سب فین کو خود وہاں بلایا اور ان کتوں کو نوچنے کا موقع دیا۔

خالد خان نے کہا پارکوں اور تفریحی مقامات کو صرف فیملی کیلئے مختص کیا جائے۔علی رضاساہی نے کہا والدین اگر وقت پر بچوں کی شادی کردیں تو ایسے واقعات نہ ہوں۔زاہد بٹ نے کہا کچھ نہیں ہوسکتا ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں معمول ہیں۔احمد سرفراز اعوان نے کہا جن کی اپنی ماں بہن کے گوشت سے جی نہیں بھرتا وہ بازار میں بنت حوا کو تماشا بناتے ہیں۔

ارم ڈار نے کہا میرے خیال میں سب پلان تھا۔ٹک ٹاکر نے فالور بڑھانے کیلئے ایسا کیا۔طلحہ ریاض نے کہا اس لڑکی نے مقدس جگہ کا انتخاب کیوں کیا؟محمد اکبر نے کہا رول آفٓ لاء لگو ہوں تو معاشرہ ٹھیک ہوگا۔ساجد اقبال راجہ نے کہا جو پہلے قوانین بننے ان پر بس عمل ہوجائے تو ایسے واقعات نہیں ہونگے۔جواد حیدر نے کہا قوانین کو موثر بنائیں اور جزاء و سزا کا عملی نفاذ کیا جائے۔

نعیم راجپوت نے کہا اٹھارہ سال کے بچے کی شادی کردینی چاہیے۔ایلیفنٹ ٹویٹس نے کہا سکول میں ہراسمنٹ کے بارے میں آگاہی دی جائے۔رانا ظہیر نے منٹو کا قوم شیئر کیا کہا ہم عورت اس کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو،باقی ہمارے لیے عورت نہیں گوشت کی دکان ہے۔صباء نامی صارف نے کہا اس کا بہترین حل پولیس کے پاس ہے۔راجہ احسن نے کہا اگر یہ عورت باپردہ ہوتی تو کسی میں جرات نہ ہوتی۔

مانو معیز نے کہا ان ملزمان کو اولٹا لگادینا چاہیے۔عبدالرافع نے کہا شرعی سزائیں دی جائیں۔عمر حیات عباسی نے اس کو موجودہ حکمرانوں کی نااہلی قراردیا۔واجد نے کہا ایرانی پاسدان انقلاب کی طرح فورس بنائیں جو ایسے واقعات روک سکے۔منال سمین نے کہا بے حیائی پھیلانے والی ایپس کو فوری بند کیا جائے۔عاطف سلیم نے ملزمان کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

سہیل ملک نے اس واقعہ کا ذمہ دار سیکیورٹی اداروں کو قراردیا۔محمد آصف خان نے طالبان کا نظام لانے کا کہا۔خرم حیات نے کہا انسانیت کی تعلیم و آگاہی دی جائے۔احسان نے کہا جب جاہل اور کم ظرف حکمران ہونگے تو عوام بھی ایسی ہو گی۔عشرت عمر نے کہا عمران خان کے جلسوں میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ناصرہ عظیم خان نے کہا بیٹوں کی تربیت پر وقت لگاؤ اور ان کو انسان بناؤحیوان نہیں،حمزہ افتخار نے سرعام سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

انسہ اختر نے کہا ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ مجرموں کو سرعام سخت سے سخت سزا دی جائے۔کوکو کینگ نے کہا سرعام اسی پارک میں کوڑے مارے جائیں۔بشری پی ایم ایل این نامی صارف نے کہا لیڈیز کیلئے الگ جگہ مخصوص کی جائے۔مونا ایڈوکیٹ نے کہا یہ پلان ڈرامہ تھا۔جواد اعوان نے کہا پورے ملک میں شرعیت نافذ کردی جائے۔جبکہ سابق وزیر میاں نوازشریف کی پیروکار امبر مغل نامی صرف نے لکھا کہ میری تجویز یہ ہے کہ توں نہ لکھ۔

اگر پاکستانی قوم ایسے ہی سانحے کے بعد ہلکی سے انگڑائی لے کر پندرہ دن کیلئے جاگتی رہنے کا معمول نہیں چھوڑتی تو ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہے۔پاکستانی قوم کو اپنے ضمیر مستقل طور پر زندہ کرنے ہونگے۔اس میں جو ریاست کی ذمہ داریاں ہیں ان کو بھی پورا کرنا ہوگا سب کچھ لبرلز ازم پر ڈالنے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :