آزادی صحافت اور آرٹیکل 19

ہفتہ 20 جولائی 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری عمر سرفراز چیمہ نے اپنے اخباری بیان میں کہا کہ رائے عامہ کی تشکیل میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے ، تبدیلی لانے میں میڈیا ہمارا شریک ہے اور ہم اسکے کردار کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے کہا تحریک انصاف میڈیا کی آزادی کی حامی ہے میڈیا غیر جانبدار ، سچا اور با مقصد ہونا چاہئے ۔ قومی روزنامہ میں شائع اس بیان کے ساتھ اسلام آباد سے خبر شامل اشاعت ہے کہ راولپنڈی ، اسلام آباد یونین آف جرنلسٹ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں یوم سیاہ منایا گیا ۔

نیشنل پریس کلب میں سیاہ پرچم لہرایا گیا اور احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ میڈیا تنظیموں کے عہدیداران کے مطابق صحافیوں اور میڈیا آرگنائزیشنز پر غیر اعلانیہ سنسر شپ و بندش ، میڈیا ورکرز کی جبری بر طرفیوں، تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف منظم تحریک کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

اور ملک بھر میں آئین کے آرٹیکل 19کے تحت دی گئی اظہار رائے کی آزادی کی بحالی تک جاری رہے گا ۔

کراچی پریس کلب کے باہر بھی احتجاجی مظاہرہ ہوا ، حیدر آباد، سکھر سمیت سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں بھی پریس کلبوں پر سیاہ پرچم لہرائے گئے ۔ پشاور ، کوئٹہ، لاہور اور پنجاب کے اکثر شہروں سے صحافیوں کا احتجاج رپورٹ ہوا۔
قارئین کرام ! کیا واقعی پاکستان میں میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسر شپ ہے اور تبدیلی سرکار میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے ۔

۔ ؟ تو اسکا سادہ اور آسان جواب ہاں میں ہے ۔تبدیلی سرکار ہی نہیں پاکستان میں اکثر حکومتیںآ زادی صحافت کی بات تو کرتی ہیں مگر اس آزادی کو برداشت نہیں کرتیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ہمیں مارشل لاء کے صدمے برداشت کرنے پڑے ، سنسر شپ، پابندیاں ،مارشل لاء دور میں اعلانیہ جب کہ جمہوری دور حکومت میں غیر اعلانیہ طور پر حکومتوں کا رویہ ایسا ہی رہا ۔

حکومتی دباؤ ہر دور میں رہا ۔ آج کی اپوزیشن مسلم لیگ ن کے رہنما میں نوازشریف نے اپنے دور حکومت میں میڈیا کو معاف نہیں کیا تھا ۔ طوالت سے بچنے کیلئے مجھے اس بات کو ماننے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ بظاہر ملک میں میڈیا آزاد لیکن آج بھی صحافت پابندیوں کا شکار ہے ۔ حکومتی پابندیاں ایک طرف ، معاشرتی دباؤ بھی حق اور سچ کی بات کو ظاہر کرنے میں رکاوٹ ہے ۔

صدر اوکاڑہ پریس کلب عتیق چوہدری نے اس حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا جس ملک میں کیمرے کی انشورنس ہو اور صحافی انشورڈ نہ ہوں وہاں آزادی صحافت کا تصور کیسے ممکن ہے ۔میڈیا مالکان اور کارکن صحافیوں کے مسائل اور مشکلات الگ الگ ہیں۔
روائیتی تعلیم کے درجات ہیں جبکہ شوق مطالعہ اور فن تحریر کی کوئی حد نہیں۔ اوائل عمری ہی سے مطالعہ کا شوق تھا ، پڑھنے کے ساتھ لکھنے کی خواہش بھی پروان چڑھی۔

قلم قرطاس سے تعلق مجھے بھی شعبہ صحافت میں لے آیا ۔ گریجوایشن کے بعد دی فرنٹئیر پوسٹ لاہور سے منسلک ہو کر عملی صحافت کا آغاز کیا اور روزنامہ مساوات میں کالم لکھنا شروع کیا ۔ لکھنے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔الحمداللہ لکھنے پڑھنے کا شوق میری آبائی وراثت ہے ۔ علاقائی صحافت سے تعلق بہت گہرا ہے ،مقامی صحافی اور صحافت گلی محلے سے شروع ہو کر ڈ ی پی او آفس تک محدود ہے ۔

تعلیم اور تربیت کی کمی آزادی صحافت میں رکاوٹ ہے ۔فری لانسر صحافی پولیس کے روائیتی کردار کے سامنے طاقتور نہیں۔ صحافیوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیا جاتا ہے ۔سب سے بڑھ کر باہمی اختلافات بھی آئیڈیل ماحول میسر نہیں آنے دیتے ۔ حکومت جو مرضی کہتے رہے صحافت ریاستی ، معاشرتی اور معاشی دباؤ کا شکار ہے ۔اوکاڑہ پریس کلب کے چئیر مین شہباز شاہین جو بہتر سے بہترکی جستجو میں رہے انہوں نے صحافت برائے صحافت نہیں کی بلکہ اس پلیٹ فار م کو تعلیم ، تربیت اور قومی تعمیر کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی ۔

علاقائی صحافت سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر صحافت اور جدید صحافتی رجحانات ، مسائل کو قریب سے دیکھا۔ اظہار رائے کی آزادی اور آزادی صحافت کے بارے میں انہوں نے ایک نشست میں مختصراً یہ تبصرہ کیا کہ پاکستان صحافیوں کیلئے خطر ناک ترین ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے اور پاکستان کا صحافی مالی طو ر پر مستحکم نہیں۔ ایسے میں آزادی صحافت کا تاج ہم اپنے سر پر سجا ہی نہیں سکتے ۔


اوکاڑہ ہی کے نجی چینل سے منسلک صحافی عباس علی جٹ نے میری توجہ ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال ساہیوال میں آویزاں ایک بورڈ کی جانب توجہ مبذول کروائی جس پر درج ہے "ہسپتال میں کسی بھی شعبہ میں براہ راست میڈیا پرسن کے داخلے پر پابندی ہے، بحکم ایم ایس میڈیا پرسن کسی بھی طرح کی معلومات کیلئے فوکل پرسن سے رابطہ کر سکتے ہیں"کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ مریض یا اس کے ساتھ آئے افراد کا موقف ، حادثہ کے متعلق معلومات، طبی سہولیات کی فراہمی، ڈاکٹروں کا رویہ، حتیٰ کہ ہسپتال میں تڑپتے، سسکتے مریضوں کے مسائل کیمرے کی آنکھ میں محفوظ نہیں کر سکتے ۔

ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ڈاکٹر دوران ڈیوٹی چائے اور دیگر مصروفیات میں ملوث ہوں تو موقف صرف فوکل پرسن ہی دے گا۔یہ پابندی آزادی صحافت پر قدغن ہے ، آزادی صحافت پر پابندی ہے ، آزادی اظہار پر پابندی ہے ۔آزادی اظہارمحض صحافیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے ۔آزادی رائے کا حق 30بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے جس کی ضمانت عالمی منشور برائے انسانی حقوق دیتا ہے۔


عالمی منشور انسانی حقوق آرٹیکل 19میں لکھا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور اسکو ظاہر کرنے کا حق حاصل ہے اس حق میں یہ امر بھی شامل ہے کہ ہر شخص آزادی کے ساتھ بغیر کسی قسم کی مداخلت کے اپنی رائے پر قائم رہے اورجن زرائع سے بھی چاہے ملکی سرحدوں کے حائل ہوئے بغیر معلومات اور خیالات کا حصول اور ترسیل کرے ۔سب سے بڑھ کر معلومات تک رسائی انسان کا فطری حق ہے ۔


آئین پاکستان کا آرٹیکل 19اور 19-A آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ آرٹیکل 19میں لکھا ہے کہ ہر شہری کو تقریر و تحریر ، اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق ہو گا ، پریس آزاد ہوگا۔آئین پاکستان کے دئیے گئے حق کو سلب کرنے کا اختیار ہسپتال کے ایم ایس کو کس نے دیا۔یہ ایک بے بنیاد بات ہے کہ میڈیا پرسن علاج معالجے کی سہولت میں حائل ہوتے ہیں۔

میڈیا پرسن کی موجودگی ہی فوری علاج اور بہتر کئیر کی ضمات ہے ۔ ڈاکٹر کی غفلت ، مریضوں کے لواحقین کے احتجاج کے نتیجہ میں سامنے نہیں آتی بلکہ کیمرے کی آنکھ ہی ہسپتالوں میں تڑپتی انسانیت کو سامنے لاتی ہے۔جس ملک میں ایک ہسپتال کا ایم ایس میڈیا پرسن کو دور رکھنا چاہتا ہے ایسے معاشرے میں حکومتیں میڈیا اور آزادی رائے کیسے برداشت کر سکتی ہے۔

اپوزیشن کے دور میں میڈیا اچھا لگتا ہے اور حکومت میں آکر یہی میڈیا طبعیت پر گراں گزرتا ہے۔ ریاستی ادارے منصوبہ بندی سے میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں، اشتہارات کا اجراء اور بندش سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے جس سے میڈیا ہاؤسز حکومت کے تابع ہوا کرتے تھے۔ پاکستان میں حکومت بدلی تو میڈیا پر دباؤ کے طریقے بھی بدل گئے ۔سوشل میڈیا پر حکومتی موقف سے اتفاق نہ کرنے والے میڈیا پرسنز کے خلاف مذموم پراپیگنڈہ یہاں تک کہ کفر کے فتوے اور غدار ی کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی مہم ہمارے معاشرے کا حصہ ہے ۔

حکومت کچھ بھی کہے تحریک انصاف کو میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کا سامنا ہے ۔لندن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں عالمی میڈیانے شاہ محمود قریشی کا بائیکاٹ کیا اور ایک صحافی نے وزیر خارجہ کو کہا آپ نے پاکستان میں سچائی کا گلہ گھونٹ دیا ہے میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں۔یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے ۔

حکومتی بیانات کچھ بھی ہوں ملک بھر میں صحافیوں کا احتجاج حکومت کے تمام دعو وں کی نفی ہے۔آزادی اظہار محض صحافیوں کا مسئلہ نہیں یہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے ۔ سیاسی جماعتیں سیاست چمکانے کیلئے نہیں آزادی صحافت کیلئے صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہوں۔ صحافت اور سیاست میں فرق ہے تحریر صحافت کے زمرے میں آتی ہے تقریر نہیں، میں جو درست سمجھتا ہوں لکھنا چاہتا ہوں ۔

مجھے کسی خطرے اور خوف کے بغیر لکھنے کی آزادی ہونی چاہئے ، ایسا نہیں جو میں سمجھتا ہوں وہی حرف آخر ہے ۔پی ٹی آئی اوکاڑہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر لعن طعن اور گالیاں مجھے دباؤ میں لانے کی کوشش ہے ، تبدیلی سرکار آزادی رائے کو برداشت کرنا سیکھیں، مجھے اپنی رائے کے اظہار کا مکمل حق ہے آئین پاکستان کا آرٹیکل 19مجھے اسکا مکمل حق دیتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :