افغان امن اور پاکستان

پیر 23 مارچ 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

طویل مذکرات کے بعد20فروری2020ئکو قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔جس پر عملدارآمد شروع ہو گیا۔اس معاہدے سے قبل امیدیں تھیں، خدشات تھے اور تناو بھی۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدہ پر ردعمل میں کہا تھاکہ''یہ وقت اپنے فوجیوں کو واپس گھر لانے کا ہے''۔امریکی افواج نائن الیون کے بعد افغانستان میں داخل ہوئیں۔

اس کے بعد سے 2400سے زائد امریکی فوجی، ہزاروں افغان شہری اورجنگجو ہلاک ہوئے۔
پاکستان بھی امریکہ کی حمایت کے فیصلہ اور خطہ میں جنگ کے نتیجہ میں بری طرح متاثر ہوا۔ دہشت گردی کی آگ نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ افواج پاکستان نے دہشت گردی کے براہ راست مقابلہ میں جانیں قربان کر کے پاکستان کو محفوظ بنایا۔

(جاری ہے)

سیاست اور سفارت کاری متوازی جاری رہی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امن معاہدہ پر وزیر خارجہ مائیک پومپیو، وزیر دفاع مارک ایسپر اور امریکی عوام کو مبارک باد بھی دی۔
امن معاہدہ ہونے کے ساتھ ہی افغانستان میں صدارتی انتخابات کے بعد دنیا میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ سامنے آیا۔افغان صدر اشرف غنی اور صدارتی امید وار عبداللہ عبداللہ دونوں نے ایک ہی روز الگ الگ تقریبات میں صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

طالبان کی جانب سے امن معاہدہ توڑنے کی خبریں، قیدیوں کی رہائی سے انکار جیسے معاملات کے باوجود امریکہ نے سیاسی عدم استحکام کے ہوتے ہوئے امن معاہدے پر عملدارآمد شروع کردیا جو خطہ کے لیے خوش آئند ہے۔
امریکہ افغان امن معاہدے پر افغانستان کے اندر بھی خدشات ہی پائے جاتے ہیں۔ایک خوف ہے کہ کہیں تاریخ خود کو نہ دہرائے۔
امن کے لیے سب سے بڑی قیمت افغانستان اور پاکستان کو چکانا پڑی۔

یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب 1979ء میں سویت یونین نے افغانستان کی دعوت پر اپنی فوج وہاں اتاری اور افغانستان پر روس کا قبصہ ہوا جس طرح آج امریکی تسلط قائم ہے۔25دسمبر 1979ء کو سویت افواج کابل میں داخل ہوئیں اور جینواء معاہدے کے نتیجہ میں 1989ء کو مکمل طور پر افغانستان سے نکلیں۔اکتوبر 2001ء امریکی فوجیں افغانستان میں موجود ہیں۔اب امید ہے اگلے 14ماہ میں امریکی یہاں سے چلے جائیں گے۔

بشرطیکہ امن معاہدہ پر مکمل عمل ہو۔
پاکستان افغانستان میں عمل کا سب سے زیادہ خواہاں ہے۔ اس معاہدہ پر پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے میڈیا بریفنگ میں کہا تھا کہ ''طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے''۔
عام پاکستانی افغان امن معاہدہ پر افواج پاکستان کے کردار سیکس حد تک مطمئن ہے اس کا ایک ثبوت اوکاڑہ میں ایک دیوار پر آویزاں فلیکس کی تحریر سے باآسانی ہوجاتا ہے۔

صدر اوکاڑہ پریس کلب شیخ شہباز شاہین جو جہاں دیدہ شخصیت ہیں اور بین الاقوامی صحافتی تنظیم سے منسلک ہیں۔ انکی جانب سے لگائی گئی فلیکس پر تحریر کچھ یوں تھی۔'' امریکہ طالبان کے کامیاب مذاکرات اور افغانستان سمیت پورے خطہ میں پائیدار امن میں اہم کردار ادا کرنے پر پاک فوج اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ''۔

پاکستان نے امن معاہدہ میں سہولت کاری کے حوالہ سے ایک اہم کردار ادا کیا''_
سفارتی اور عکسری کوششوں سے ہی خطہ میں امن کی امید پیدا ہوئی ہے۔عالمی سطح پر پاکستان کے کردار کو سراہاگیا۔صدر پریس کلب اوکاڑہ شیخ شہباز شاہین کے موقف کی تایئد امریکی وزیر دفاع مارک ایسر نے بھی کردی۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔

اور مستقبل میں پاکستان کے ساتھ قریبی تعاون کا اعادہ کیا۔مارک ایسر نے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردارکو سراہا۔ دو طرفہ سیکیورٹی تعاون کا عزم کیا۔
پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت کو افغانستان میں موجود طالبان یا افغان قیادت کے ساتھ معاملات میں مشکل نہیں۔اب عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو پھر نہ دہرائے۔بھارت کے کردار کو محدود رکھا جائے۔

افغان تناظر میں یہ دوسرا بڑا تاریخی معاہدہ ہے۔ اس سے قبل 1988ئمیں جنیوا معاہدے کے بعد بھی خطہ کا امن واپس نہیں لایا جا سکا تھا۔ اب امریکہ اور افغان قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے مثبت کردار کو نظر انداز نہ ہونے دے۔افغان امن کا مطلب ہے خطہ میں استحکام اور اقتصادی ترقی۔ مضبوط افغانستان کا وجود ہی پاکستان اور افغانستان کے عوام کے لیے ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :