نیب اور سیاسی رویے

پیر 18 مئی 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

نیشنل اکاونٹبیلٹی بیورو(نیب) کی کارکردگی پر سوال نہیں مگر اس پہلو کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جب حکومتی وزراء میڈیا پر آکر نیب کے ترجمان بننے کی کوشش کریں۔ اپوزیشن کے رہنماوں کی گرفتاری سے قبل وزراء اعلان کریں کہ فلاں بندہ پکڑا جائے گا اور وہ پکڑا بھی جائے، نیب کے کردار کو مشکوک کرتا ہے۔
 وفاقی وزیر ریلوے ٹرین کی سپیڈ تیز کرنے اور چلانے کی فکر کی بجائے نیب کی کارروائیوں پر بیان بازی کریں تو نیب پر تنقید ضرور ہوگی۔

شیخ رشید کا دعوی ہے کہ عید کے بعد نیب ٹارزن بننے جارہی ہے۔ گویا ٹارزن کی واپسی ہورہی ہے۔ جھاڑو پھرنے والا ہے۔گرفتاریاں ہونگی۔ اب کیا نیب افسران اور اہلکار انکو آئندہ کے لائحہ عمل سے آگاہ کرتے ہیں یا ان کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

۔۔؟ سوال تو بنتا ہے۔

یہ رویہ نیب پر تنقید کا سبب ہے جو غیر مناسب اور غیر سنجیدہ عمل ہے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ اپوزیشن کی کرپشن کی داستانیں عام ہیں اور انہیں بالآخر پکڑے ہی جانا ہے۔

اگر ایسا ہے بھی تو پھر بھی حکومتی وزراء کانیب کے کردار کو پریس کانفرنسز میں زیر بحث لانامناسب نہیں۔اپوزیشن کو نیب پر تنقید کا جواز ٹارزن بننے کے خواہشمند وزراء ہی فراہم کرتے ہیں۔نیب کا کردار تو طے شدہ ہے، پھر یہ بیان بازیاں نیب کو متنازعہ بنانے کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ 
قارئین کرام! نیب ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے اس کا قیام 16نومبر 1999ء کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہوا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل سید امجد اس کے پہلے چیئرمین بنے۔نیب کا مقصد بدعنوانی کا خاتمہ
 ہے۔اب اگر اپوزیشن کے الزامات اوراعتراضات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو ہم یہ کہیں گے کہ اگر سیاستدانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ظرف ہوتا تو وہ اپنے منشور پر ہی ووٹ لیتے مگر ہمارے سیاسی نظام میں مخالف کو کرپٹ ثابت کرنے میں ہی کامیابی ہے۔ یہ الزام تراشی کا سلسلہ تو 1990ء سے جاری ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو کی عوامی حکومت کو برخاست کیا گیا۔

تو سرے محل، سوئس اکاونٹ،کمیشن پی پی پی کی قیادت پر الزامات کی لمبی لسٹ سامنی لائی گئی۔پھر سینیٹر سیف الرحمن کا احتساب کس کو یاد نہیں۔۔؟
سیاسی انتقام ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔کرپشن کے حوالہ سے نوازشریف بھی ہمیشہ الزامات ہی کی زد میں رہے۔سوال تو یہ ہے کہ دونوں جماعتیں برسر اقتدار رہیں تو احتساب کا نظام بہتر کیوں نہیں کیا۔

اب دیکھنایہ ہے کہ کیا نیب صرف اپوزیشن اراکین کے خلاف ہی انکوائریاں کررہی ہے یا حکومتی وزراء کے خلاف بھی کیسز موجود ہیں۔ احتساب سب چاہتے ہیں لیکن صرف اپنے سیاسی مخالفین کا۔۔۔الزام تراشی تو ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہے۔
انکوائریز اور کیسز کی تعداد کو دیکھیں تو بے شک اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین پر نیب کی توجہ زیادہ ہے۔

گرفتاری کے اختیار کے استعمال پر بھی اعتراضات ہیں۔انکوائری شروع ہو تو صرف الزام کی بنیاد پر گرفتاری قطعی مناسب نہیں۔سب سے بڑھ کر جب کیس فائل نہیں ہوتے اور عدالتی ریلیف مل جاتا ہے تو سوالات تو ضروراٹھائے جائیں گے۔معاملہ نیب کی کارکردگی سے زیادہ حکومتی اراکین کے رویوں کا ہے۔کرپشن پر ریاستی اداروں کو ضرور حرکت میں آنا چاہئے، مگر ان کارروائیوں کے نتائج بھی تو سامنے آئیں۔

۔۔
نیب کے پلی بارگین کے اختیار سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریماکیس دئیے تھے کہ نیب ملک میں بدعنوانوں کا سہولت کارہے۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ نیب کی کارروائیاں ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔شہباز شریف فرماتے ہیں کہ نیب کرپشن ختم کرنے کی بجائے خود کرپٹ ترین ادارہ بن چکا ہے۔

چیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے نیب کے سامنے پیش ہونے کے بعد کہا تھا کہ یہ انکی حکومت کی کمزوری تھی کہ نیب کو ختم نہیں کیا گیا۔
آج پی ٹی آئی کو نیب بہت اچھی لگ رہی ہے کل کو جب پی ٹی آئی اپوزیشن میں ہوئی اور حکومت میں کوئی اور ہوا تو پھر انکی قیادت کی سوچ بھی یہی ہوگی۔پی پی پی تو 1990ء سے احتساب کا سامنا کر رہی ہے۔

قانون سے بالاتر کوئی نہیں سب قانون کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اب محبوب لیڈر عدالت کو جواب دیں اور مطمئن کریں۔ نوازشریف تو خود سخت احتساب کے خواہشمند تھے۔اب موصوف بذات خود، شہبازشریف، حمزہ شہباز، مریم نواز، سلمان شہباز، اسحاق ڈار، خواجہ سعد رفیق، خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف سب احتساب کا سامنا کریں۔آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، خورشید شاہ سب نیب کے ریڈار پر ہیں۔

سسٹم کو بہتر بنانے کی ذمہ داری بھی تو سیاسی قیادت کی تھی۔اب عدالتی فیصلوں کے خلاف بات مناسب نہیں۔نیب کے طریقہ کار میں خامی ہے یا پراسیکیوشن بہتر نہیں تو اس کو لازمی طور پر بہتر کیا جائے۔ سیاسی الزام تراشیاں اور بیان بازیاں میدان سیاست تک ہی مناسب ہیں۔ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم مجرم اور سیاسی قیدی میں فرق کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔

پی ٹی آئی کے نزدیک انکے سیاسی حریف کرپٹ ہیں۔نوازلیگ کے حمایتی تمام لیگی رہنماوں کو سیاسی قیدی سمجھتے ہیں۔۔۔پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ تو راقم الحروف کے نزدیک بھی معصوم ہے کیونکہ 6اگست 1990ء کو پہلی بار آصف علی زرداری گرفتار ہوئے اور آج 30سال بعد بھی ضمانت پر ہیں۔ کوئی ایسا الزام نہیں جو ان پر نہیں لگایا گیا اور کوئی ایک کیس نہیں جو ان پر ثابت ہوا ہو۔ احتساب کو شروع بھی سیاسی قیادت نے کیا اور بدنام بھی سیاسی قیادت ہی کر رہی ہے۔ادارے مضبوط ہوں تو ریاست بہترانداز میں آگے بڑھتی ہے۔حکومتیں پرفارم بھی کرتیں ہیں۔ بصورت دیگر یہ الزام تراشیاں، خواہشات اور خوش فہمیاں ختم نہیں ہو سکتیں اور احتساب ممکن نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :