''نیا سال نئی امیدیں''

منگل 12 جنوری 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان اگرچہ جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں معرض وجود میں آیا۔ قائداعظم کے افکار بہت واضح اور جمہوری اصولوں پر استوار تھے، لیکن روز اول سے آج تک مستحکم حکومت اور بہترین جمہوریت ایک خواب ہی ہے۔2021ء کا آغاز تبدیلی سرکار اور پی ڈی ایم کے درمیان سیاسی کشیدگی اور فنکشنل لیگ کی طرف سے نئے سال میں جمہوریت کے لیے نئے راستے کی تلاش سے ہوا۔

محمد علی درانی نے شہباز شریف سے ملاقات کے بعد 31دسمبر کو مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی۔ 2020کی آخری میڈیا ٹاک اس ملاقات کے بعد سننے کو ملی۔ محمد علی درانی کی طرف سے ٹکراو کی بجائے مذاکرات کی تجویز دی۔فنکشنل لیگ حکومت کی اتحادی جماعت ہے اس لیے یہ کوشش قابل تعریف ہے۔ مذاکرات اور پھر قومی مسائل پراتفاق رائے بہت ضروری ہے۔

(جاری ہے)

مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں حکومت اپنی توانائی عوام کی بہتری کے لیے صرف کرنے کی بجائے اپوزیشن کو ذلیل کرنے میں ضائع کررہی ہے۔

حکومت اگر بہتر کارکردگی کامظاہرہ کرتی تواپوزیشن کا بیانیہ خود بخود مسترد ہوجاتا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے ضمنی الیکشن اور سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کی بات کرکے اضطراب میں امید کی کرن دکھائی۔ سیاست کو بند گلی کی طرف لیجانے کی بجائے بہتری کی طرف بڑھنے کی کوششیں ہی حقیقی جمہوریت کا راستہ کھولتی ہیں۔نیا سال نئی امیدوں سے شروع ہوا ہی تھا کہ مچھ میں انتہاہی دلخراش واقعہ رونما ہوا۔

اسکے بعد لواحقین نے میتیں رکھ کر دھرنا دے دیا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کوئٹہ پہنچے انکے بعد علی زیدی اور زلفی بخاری آئے۔ لواحقین اور دھرنا شرکا کے ساتھ مذاکرات ہوئے مگر معاملہ خراب ہوتا گیا۔ احتجاج ملک بھر میں پھیل گیا۔ مریم نواز اور بلاول سمیت اپوزیشن کوئٹہ پہنچی۔ میتوں کی تدفین کی درخواست کے ساتھ بیان بازی حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے جاری رہی۔

میتوں کی تدفین وزیراعظم عمران خان کی آمد سے مشروط کردی گئی۔ وزیراعظم عمران خان پہلے روز ہی لواحقین کے سر پر ہاتھ رکھ دیتے تو یہ تنازعہ شروع ہی نہ ہوتا۔ شیخ رشید کی اہلیت عیاں ہوگئی۔ چرب زبان وزیر ناکام، مسلک کی بنیادپر پہنچنے والے زلفی بخاری اور علی زیدی نے صورتحال سنبھالنے کی بجائے بگاڑ دی۔ اپوزیشن نے تو یہی کچھ کرنا تھا جو کیا مگر حکومت نے اپنی نااہلی ثابت کردی۔

نئے پاکستان کے دعوے دار اتحاد اور قومی یکجہتی پر شاید یقین ہی نہیں رکھتے۔ اس سانحہ کے بعد حکومت اگر اپوزیشن سے رابطہ کرتی اور حکومت اور اپوزیشن مل کر پاکستانیوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کرتی تو بہتر تھا۔ بدقسمتی وطن عزیز میں ہمیشہ ذاتی انا ہی مقدم ٹھہری۔ صوبائی حکومت نے تو مستعفی ہونے کی بات کی مگر وزیر داخلہ شیخ رشید نے قوم کا دکھ سگار کے دھوئیں میں اڑا دیا۔

وزیر موصوف کو ایک دن بھی اپنے عہدے پر نہیں رہنا چائیے تھا۔ وزیراعظم نے بھی اپنے ایسے وزیر کو فارغ نہ کیا جو ماضی میں چپڑاسی بننے کا بھی اہل نہیں تھا۔کیا کہیں بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ کچھ بھی تو بہتر انداز میں نہیں ہوا۔ وزیراعظم عمران خان بلیک میل نہ ہوئے اور میتیں بھی دفنا دی گیئں۔
قارئین کرام! ہزارہ برادری کے ساتھ یہ ظلم پہلی بار نہیں ہوا۔

یہ ظلم بار بار ہوتا ہے۔ احتجاج دھرنا بیان بازی اور بالآخر تدفین تو کرنا ہی ہوتی ہے۔حکومت اور ریاست ان پے در پے واقعات کے متعلق جواب کیوں نہیں دیتی۔ سوال تو بنتا ہے کہ ریاست کہاں ہے۔۔۔؟
یہ سیاست نہیں اور خون ناحق کوئی سیاسی ایشو بھی نہیں۔ معاملہ بیان بازی اورالزام تراشی سے حل ہونے والا بھی نہیں۔ ریاست اور اسکا ہر شہری جواب دہ ہے کب تک یہ ظلم ہوتا رہے گا۔

اس بہیمانہ جرم کا کسی معاشرہ میں کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ہزارہ کا دکھ ہر پاکستانی کا دکھ ہے۔ خون ناحق سے حکومتیں قائم نہیں رہتیں لیکن وطن عزیز میں دلخراش واقعات ہر دور میں ہوتے آرہے ہیں۔ آخر اس کو روکے گا کون۔۔؟
غیر ملکی ہاتھ کو روکنا حکومت کا فرض ہے ایسے میں اپوزیشن کا رویہ بھی ذمہ دارانہ ہونا چائیے۔ قومی اتفاق رائے سے تشکیل نیشنل ایکشن پروگرام پر عمل درآمد پر بات ہونی چائیے۔

یہ بیان بازی اور الزام تراشی بہت ہوگئی۔ ہم سب ذمہ دار ہیں اتنی قربانیوں کے بعدبھی قسمت میں بدامنی تو سوچنا چائیے ہم درست سمت نہیں بڑھ رہے۔ اب وقت کا تقاضہ ہے کہ حل کی طرف بڑھا جائے۔ سب سے پہلے شیخ رشید کو فارغ کیا جائے اور حکومت اپوزیشن کے ساتھ ملکی سلامتی کے لیے بیٹھے اور تمام معاملات طے کرنے کے بعد مشترکہ طور پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ فوج مخالفین کا علاج بہت ضروری ہے امن مخالفین کے خاتمہ کے لیے حکومت، قوم اور ریاستی ادارے ایک پیج پر نظر آئیں اور اس گریٹ گیم کو اب ختم کریں۔نئے سال میں نئی امیدوں کے ساتھ آگے بڑھیں۔زبانی جمع خرچ بہت ہوگیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :