''ملک کوتو چلنے دو''

پیر 7 جون 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

جمہوری ادوار میں سیاسی استحکام ہو تاریخ میں ایسا منظر کم ہی دیکھنے میں آیا-پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد قائم ہونے والی پہلی جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر آئین منظور تو کرلیا لیکن اسی اسمبلی کے قائد ایوان ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ناصرف غیر آئینی طریقہ سے ختم ہوئی بلکہ پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیا۔

اس عمل سے پاکستان کی جمہوری طاقتوں نے کیا سیکھا اسکا جواب 18اکتوبر 1999کو پھر جمہوریت پسندوں کو مل گیا۔ آمریت کی نرسری میں ہر دور میں نئی سیاسی قیادت سامنے آئی۔ جمہوریت، ملکی مفاد بس یہی نقطہ نظر سیاست میں بیان کیا جاتا رہا ہے۔
قارئین کرام! تاریخ میں زندہ نہیں رہا جاسکتا۔ لیکن تاریخ کے سبق کو فراموش کرکے آگے بڑھنا بھی ممکن نہیں۔

(جاری ہے)

آج پی ٹی آئی برسراقتدار ہے اور مسلم لیگ(ن) اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔ کیفیت، حالات، بیانات سب کچھ ماضی سے مختلف نہیں۔حکمران جماعت پر خفیہ طاقت سے مدد کا الزام زبان زد عام ہے جبکہ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف سزا یافتہ ہونے کے باوجود ملک سے باہر ہیں۔نوازشریف کے کارکن اور رفقاء کار انقلاب اور نظریات کی بات کر رہے ہیں۔

عمران خان اپنی حکومت کو 22سالہ جدوجہد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ لگا کر نیا پاکستان بنانے کے داعی ہیں۔
سیاسی استحکام بہتر معیشت کے لیے ضروری ہے۔ پالیسیوں میں تسلسل شرط اول ہے۔آج بھی ایسا کچھ نہیں۔ صرف بیانات اور دعوے ہیں۔حقیقت میں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) میں دو بیانیے موجود ہیں ایک مریم نواز کا ''ووٹ کو عزت دو '' جس میں احتجاج ہے اعتراض ہے اور انکار ہے۔

دوسرا اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا مفاہمت پر مبنی بیانیہ ہے جسکے تحت ریلیف اور طاقت میں شراکت داری ہے۔ نظام کی تبدیلی کی بجائے صرف بہتر انتظام مطمع نظر ہے۔
حکمران جماعت پی ٹی آئی احتساب کے نعرہ پر برسراقتدار آئی لیکن احتساب کے عمل پر سب سے بڑا سوالیہ نشان نواز شریف کا بیرون ملک روانہ ہونا اور جہانگیر ترین پر الزامات سامنے آنے پر پارٹی کے اندر ترین گروپ کی تشکیل ہے۔

حکمران جماعت بھی تقسیم اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت میں بھی واضح تقسیم نظر آتی ہے، متحدہ اپوزیشن یا اتحاد تو پی ڈی ایم کی موجودہ صورتحال میں ممکن نہیں۔
 گردشِ ایام کا چکر دیکھیں مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلز پارٹی سے سینٹ الیکشن پر وضاحت مانگ رہی ہے۔ ترجمان مریم نواز محمد زبیر کی ملاقاتیں اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو مسترد کرنے والے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا طرز سیاست یہ منظر ہمارے نظام کے استحکام کو واضح کرتا ہے۔

سینٹ الیکشن میں پنجاب کی سطح پر پی ٹی آئی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی مفاہمت درست مگر باپ پارٹی سے ووٹ لینا مسلم لیگ (ن)پیپلر پارٹی کا جرم،اس سیاسی سوچ نے پی ڈی ایم کی حقیقت کو خواب میں تبدیل کردیا۔اپوزیشن خود اپوزیشن پارٹی کی اپوزیشن بن گئی۔ حکومت وقت کو اپنا کھیل کھیلنے میں اگر مشکل کا سامنا ہے تو اسکی وجہ اپوزیشن نہیں اسکے اپنے منختب نمائندوں کا ایک سرمایہ دار غیر منتخب شخصیت کے زیر سایہ پارٹی کے اندر تشکیل شدہ گروپ ہے۔

اپوزیشن میں دم خم نہیں۔
بلاشبہ سیاست صرف اور صرف سیاستدانوں کا کام ہے لیکن سیاست دان تو عوام کی حمایت سے ہی بنتے ہیں اورانکی ترجمانی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں سب کچھ ایسا ہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کامسئلہ نوازشریف کی جانشینی ہے اور عمران خان لیگی قیادت کے ملک سے باہر جانے کو ہر قیمیت پر روکنا چاہتے ہیں۔تمام تر توانائیاں اسی چکر میں صرف ہورہی ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں سب کچھ دو نمبر ہے۔ قیادت بھی سیاسی جماعتیں بھی ایسے میں تنقید ریاستی اداروں پر اور ہدف تنقید بااثر شخصیات کو بنانا میوزیکل چئیر کے کھیل کا حصہ بننے کی خواہش سے زیادہ کچھ نہیں۔ اب بجٹ پاس کروانے میں حکومت کو چیلنج کرنے کی باتیں سب غیر مناسب ہیں-حکومت اپنی معاشی ناکامیوں کو اپوزیشن کے منفی کردار کے لبادے میں چھپانے کی کوشش میں ہے۔

عام آدمی مشکلات کا شکار ہے اور روزبروز اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ان مشکلات کا حل کس کے پاس ہے۔ بہتر اور مضبوط پاکستان بنانے میں بنیادی کردار کون ادا کرے گا۔۔۔؟
 کونسا انقلاب،کیسا احتساب اور کیسی جمہوریت۔۔۔؟ سب کچھ ایسے ہی چلانا ہے تو عام آدمی کو تو جینے دو، ملک کو تو چلنے دو۔
 بہ زبانِ شاعر
صبح کے خواب دیکھنے والو
دعا کرو کے شب گزر جائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :