ریاستی امیج اور خارجہ پالیسی

جمعرات 24 جون 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ انٹرویو کے بعد ملکی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بین الاقوامی کردار اور ہمارے امیج کے بارے میں نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ امریکی چینل ایچ بی او پر صحافی جوناتھن کے سوالات کے جواب میں افغانستان کے حوالہ سے امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے صاف انکار ایک بڑی خبر ہے۔ اور جرات مند اظہار بھی، لیکن اسکے ساتھ خواتین کیلباس کو ریپ کے محرکات قرار دینا بہت ہی غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔

چین اور کشمیر پر سوال کے جواب میں وزیراعظم پاکستان نے محتاط رویہ اختیار کیا۔ میڈیا پر پالیسی بیان ضروری بھی نہیں۔
بہتر ہوتا وزیراعظم عمران خان لباس کو ریپ سے نہ جوڑتے۔ راقم الحروف کے نزدیک عمران خان نے نامناسب بات کی۔دنیا بھر میں اس جواب کو لیکر تبصرے ہورہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس جواب کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ہمارے امیج کا سوال ہے۔

سوچ کو معاشرتی رجحان کی عکاسی سمجھا جاتا ہے۔
عمران خان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو ایمان دار سمجھتے ہیں دو ٹوک بات کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ انکے حمایتی انہیں ویژنری لیڈر سمجھتے ہیں۔ اس زعم میں وہ یہ فرق بھی روا نہیں رکھتے کہ کس فورم پر کونسی بات کررہے ہیں۔ مغرب کو بہت بہتر جاننے کا دعوی بھی کرتے ہیں لیکن حقائق کو ماننے پر تیار بھی دکھائی نہیں دیتے۔

انکے حمایتی بھی اپنے لیڈر کی ہر بات اور فعل میں بہتری ہی تلاش کرتے ہیں۔ اسکے لیے چاہے ہٹ دھرمی تک بات چلی جائے مخالف رائے کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ اپوزیشن پر تنقید، اپنے سخت موقف پر قائم رہنا پی ٹی آئی کی پالیسی بن چکی ہے۔ سیاسی معاملات کبھی بھی ایسے نہیں چلتے۔ مفاہمت اور احترام رائے ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ ماضی میں وزیراعظم عمران خان نے تاریخ کے حوالہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کے ذکر کی بات کی، جو کہ غلط اور غیر مناسب تھی۔

حساس معاملات پر بلخصوص مذہبی موضوعات پر بات کرنے میں احتیاط برتنا ضروری ہے۔
ریپ ایک مجرمانہ فعل ہے اور پردے کے احکامات ایک مختلف موضوع ہیں۔ اس لیے اس سوال پر ممتاز سکالر جاوید احمد غامدی نے درست کہا کہ ریپ مجرمانہ فعل ہے اس کا پردے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ واقعات باپردہ معاشرہ میں بھی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔
مذہبی معاملات پر سیاسی لیڈران کی جانب سے حتمی رائے دینا مناسب نہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے سیاسی کامیابی کے لیے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا۔ اسامہ بن لادن پر بھی پی ٹی آئی کا موقف قابل قبول نہیں۔ دنیا اسامہ بن لادن کو عالمی دہشت گرد ہی سمجھتی ہے۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر امریکی کاروائی پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے لیکن اس کردار کی حمایت غیر مناسب ہے۔
افغان میڈیا طلوع نیوز کے میزبان لطف اللّہ نجفی زادہ نے اسامہ بن لادن کے بارے پاکستان کا موقف جاننے کے لی? سوال کیا تو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چند لمحوں کی خاموشی اختیار کی اور پھر کچھ سوچ کر انھوں نے اس سوال کا جواب نہ دینا ہی مناسب سمجھا۔


وزیر خارجہ کی اس خاموشی پر بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر پاکستان کی پالیسی کے بارے میں سوالات اٹھانے لگے۔ اس سے قبل وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے قومی اسمبلی میں انھیں 'شہید' کہا اور اب شاہ محمود قریشی اس بیان سے اختلاف کرنے سے کچھ کتراتے نظر آئے۔ کیا سیاسی وفاداری ملکی سالمیت سے بھی مقدم ہے؟ وزیرخارجہ حکومتی موقف واضح کریں دنیا اس مسئلہ پر حکومت پاکستان کے موقف پر ردعمل دیتی ہے۔

عمران خان کی ذاتی رائے اہمیت نہیں رکھتی۔ ویسے وزیراعظم ذاتی رائے دیا بھی نہیں کرتے۔ وزیراعظم کا موقف ہی ملک کا موقف ہوتا ہے۔ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور سنجیدہ موقف بہت ضروری ہے۔ وزارت خارجہ حکومتی پالیسی واضح کرے جو ملکی مفاد کے تابع ہو۔
 اسی طرح پردے کے احکامات پر رائے مذہبی سکالر جاوید احمد غامدی کی ہی معبتر قرار دی جاسکتی ہے۔

مذہب کے حوالہ سے سطحی علم اور سوچ کے حامل لیڈر بیان بازی سے گریز کریں تو بہتر ہے۔ پاکستانی سیاست پہلے ہی انتشار کا شکار ہے کوئی دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ تقسیم گہری سے گہری ہوتی جارہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا یہ کہنا درست ہے کہ کوئی بھی جماعت تن تنہا پاکستان کے مسائل حل نہیں کرسکتی۔ ملکی سیاست میں تو مراد سعید، اسد عمر، حماد اظہر اور فواد چوہدری زبانی چوکے چھکے مارتے رہیں اس پر تو تالی بج سکتی ہے لیکن خارجہ محاذ پر اظہارِ خیال کے لیے سنجیدگی، ذہانت اور بہتر انداز ضروری ہے۔

اگرچہ یہ خوبیاں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی میں بدرجہ اتم موجود ہیں مگر اس کے ساتھ واضح ریاستی موقف کا ہونا بھی ضروری ہے خاموشی، اگر مگر اور محرکات کا بیان سودمند نہیں ھو سکتا ریاست کا موقف کبھی مبہم نہیں ہوتا واضح اور دو ٹوک موقف سے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ ضیاء الحق کے افغان جہاد کی پھیلائی بربادی اور اپنی سوچ کو مسلط کرنے کے لیے جبر کی پالیسی نے معاشرہ کو تقسیم کیا۔

مختلف سوچ اور مکالمہ پر سخت موقف ڈکٹیٹر کی مجبوری تھی جمہوریت میں ایسا رویہ قابل قبول نہیں۔ جرم کو جرم رہنے دیں، دہشت گردی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے میں فرق روا رکھنا ضروری ہے۔ کشمیر کے مسئلہ پر عالمی حمایت کی خواہش اسامہ بن لادن کو مجاہد کہنے یا سمجھنے سے پوری نہیں ہوسکتی۔ معاملات اور چیزوں کو مکس کرنے سے بہتر ہے باہمی اتفاق کے لیے حکومت ذمہ داری لے۔

میں نے اپنے پچھلے کالم میں بھی یہی لکھا تھا کہ خارجہ پالیسی میں اتفاق رائے کی کوشش کی جائے۔ اس پر ایک صاحب نے تبصرہ کیا کہ کیا خارجہ پالیسی ہم نے سکھانی ہے۔ایسا نہیں صرف ملکی مفاد کے لیے مشاورت ضروری ہے سیاست کے لیے سیاسی ایشوز پر اختلاف کریں، عقائد پر، نظریات میں اور امن کے امکانات پر اتفاق کریں۔ خارجہ پالیسی میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار مشعل راہ ہے سیاسی قیادت کے لیے سبق ہے۔

ضیاء الحق اور انکی سوچ کو بھٹو کی مخالفت میں اپنانا ماضی کے زخموں کو تازہ کرنے کے مترادف ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے ضیاء الحق سے انکے نظریات سے خود کو فاصلے پر کرلیا۔ اب دوبارہ ایسی کوششں کسی کے لیے بھی سود مند نہیں۔
اپنے سابقہ کالم اور ان سطورِ بالا میں میں جو معروضات پیش کی ہیں انکی اساس یہی ہے کہ معاشرے میں سوچ کو تقسیم کرنے سے بہتر ہے اتفاق کے لیے کوشش کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :