''تبدیلی ناگزیر''

جمعہ 30 جولائی 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان کی سیاست میں اقتدار کی خواہش تمام جمہوری اصولوں اور اخلاقی روایات پر مقدم ہی رہی۔ پاور پالیٹکس کیاس کھیل میں سیاستدان خفیہ ہاتھ پر بیعت بھی کرتے رہے اور بوقت ضرورت انقلاب، جمہوریت اور ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ سیاسی نظام میں نظریاتی سیاست کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ معروف کالم نگار کا ایک یہ فقرہ اس سیاسی نظام کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں ''ووٹ لیکر نہیں ووٹ چھین کر آتے ہیں'' -جمہوری نظام میں ووٹ چھیننے کی بات بظاہر عجیب لگتی ہے لیکن یہاں ووٹ دینے اور لینے دونوں صورتوں میں معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ بظاہرسیاسی جماعتیں ضرور سرگرم رہتی ہیں اور دلفریب نعرے بھی گونجتے رہتے ہیں لیکن اول و آخر مقصد صرف اقتدار ہے اورجبر کے سایے ہمیشہ قائم رہے۔

(جاری ہے)


منشور، نظریات سیاسی تربیت سب ایک طرف، برادری، علاقہ میں اثرورسوخ اور دولت سیاسی اننگز کے آغاز کے لیے شرط اول ہے۔

خاندانی اجارہ داری نے سیاسی نظام کو جکڑ رکھا ہے۔سیاسی جماعتیں ان شخصیات کی محتاج ہیں۔ سیاسی خانزادے وقت کے مطابق عوامی، اسلامی انقلابی ہر روپ میں اسمبلیوں میں موجود رہتے ہیں۔یہ ہے ہماری جمہوریت، یہ ہے ووٹ کی عزت۔۔۔
جسے تم ووٹ کہتے ہو نظامِ زر کی بستی میں
یہ رسم تاج پوشی ہے درندوں اور لٹیروں کی
مسلم لیگ (ن) کا مقبول عام نعرہ ''ووٹ کو عزت دو'' اس نعرے پر غور کریں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قابل عزت ووٹ صرف وہی ہے جو نواز شریف کو کاسٹ ہو۔

مخالفت میں ڈالے جانے والے ووٹ صرف چوری شدہ ہی سمجھے جائیں گے۔ اس روش اور خواہش سے جمہوریت کیسے مستحکم ہوسکتی ہے۔ الیکشن میں کامیابی، جمہوریت کی کامیابی اور عوام کی فتح، ناکامی پر دھاندلی کی چیخ و پکار،آزاد کشمیر میں ناکامی پر سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کشمیری عوام کو غلام قرار دیں اور ایک امیدوار بھارت سے مدد مانگنے کی بات کرے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ صد افسوسإِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعونَ
گلگت بلتستان کے الیکشن کے بعد کشمیر بھی مسلم لیگ(ن) روبہ زوال ہے۔

سیاست میں کامیابی اقتدار کی طاقت کے ساتھ ہے۔ عوامی طاقت کو متحرک کرنے کے لئے عوام کے درمیان رہنا بھی ضروری ہے اور طاقتور سیاسی شخصیات کے مقابلہ کے لیے عام آدمی کو خوشحال کرنا بھی ضروری ہے۔ روزی روٹی کے چکر میں مبتلا ووٹر علاقائی با اثر شخصیت کو چیلنیج نہیں کرسکتا جب لیڈر شپ مشکل وقت میں بیرون ملک نکل جائے۔ اقتدار کے لیے پاوں پڑنے تک کی بات ہو تو ووٹ کو عزت کیسے مل سکتی ہے۔

اصولوں پر مصلحت غالب ہو تو وقتی کامیابی تو مل سکتی ہے لیکن حقیقی اقتدار نہیں مل سکتا۔میوزیکل چیئر کا یہ کھیل جاری رہے گا۔
عمران خان کی 22سال کی جدوجہد کا نتیجہ صرف ایک نشست تھی۔لیکن جب عمران خان نے طاقتور طبقہ سیہاتھ ملایا تو کے پی کے سے اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ، گلگت اور مظفر آباد تک اقتدار دسترس میں آیا۔ان کامیابیوں کے بعد اب انکا اگلا ہدف سندھ ہے۔

صوبہ سندھ میں 2008ء سے پی پی پی برسراقتدار ہے۔ تین بار مسلسل الیکشن جیتنے والی پی پی پی عمران خان کے لیے قابل قبول نہیں انکے نزدیک سندھی ذہنی غلام ہیں۔ سندھ بد حال ہے باقی سارا پاکستان خوشحال ہے۔ یہ ہے ہماری جمہوری سوچ یہ ہے ہمارے جمہوری رویے یہ ہے ہماری جمہوریت جسکے کے لیے عام آدمی سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔
سندھ میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

وفاقی وزرا کا بس چلے تو وہ آج ہی کراچی میں تبدیلی کا اعلان کر دیں۔قادر مندوخیل کی فتح انکے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی۔عوام کا فیصلہ صرف عمران خان کی خواہش کے مطابق ہو تو ٹھیک بصورت دیگر کچھ بھی قابل قبول نہیں۔تبدیلی سرکار کے نزدیک آزاد کشمیر کی عوام کا فیصلہ بہترین لیکن سندھ کا فیصلہ ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔سندھ سے تعلق رکھنے والے مسترد شدہ سیاسی یتیموں کو زیر سایہ لاکر سندھی ووٹر کے سامنے لانے کا فیصلہ ہوچکا۔

بس تبدیلی ناگزیر ہے۔
قارئین کرام! آزاد کشمیر کی وزارت عظمی حاصل کرنے کے لیے تینوں سیاسی جماعتوں نے بھرپور مہم چلائی۔ اس گرماگرمی اور عدم برداشت کے رویے سے دو بے گناہ معصوم شہری جان سے گئے۔ اتفاقی کار حادثہ میں پاک فوج کے جوان شہید ہوئے سب سے اہم تو یہ جانیں ہیں۔کون کامیاب ہوا اور کون ناکام یہ عوام پر چھوڑ دیں۔عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔

نظام چلتا رہا تو سیاسی اجارہ داریاں بھی ختم ہوسکتی ہیں۔سیاسی جماعتیں خود جمہوریت کو اپنائیں۔اداروں پر تنقید سے بہتر ہے تنظم سازی پر توجہ دیں۔ تنظیم سازی کا مطلب ہے عام آدمی کو سیاسی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ویسے طلال چوہدری نے تو تنظیم سازی کا بھی ایک الگ مطلب متعارف کروایا ہے۔ سیاسی جماعتیں الیکٹیبلز سے خود کو آزاد کروائیں تو پھر کسی دباوکا شکار نہیں ہونگی۔


 پاکستانی بن کے سوچیں۔ ملکی حالات کی بہتری کے لیے حقیقی تبدیلی ناگزیر ہے کیونکہ پاکستان کو آگے بڑھنا ہے۔ جمہوریت کو قائم رہنا ہے۔ حقیقی تبدیلی سیاسی سوچ اور رویوں کے تبدیل ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ چہروں کی تبدیلی، سیاسی وابستگیوں کا بدلنا نہ تو تبدیلی ہے نہ سیاسی کامیابی، یہ سیاسی میوزیکل چیئر پر بیھٹنے کا کھیل ہے جو عرصہ سے جاری ہے۔ اس کھیل کو ختم کرنا ہوگا۔
تبدیلی سرکار سندھ فتح کرنے کی بجائے سندھ کی عوام کے فیصلہ کا احترام کرے۔ سیاست میں تلخی کم کرنے کے لیے اپوزیشن سے مشاورت کا عمل شروع کرے۔ ملکی سیاسی قیادت باہم مشاورت سے الیکشن اصلاحات پر متفق ہونیکی کوشش کرے۔ اصل اور حقیقی تبدیلی یہی ہوسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :