بھنگ کاشت نہ کریں بلکہ جنگلی زیتون کی کرافٹنگ کرایں
منگل 6 اکتوبر 2020
(جاری ہے)
چلیں کچھ بات ہوجائے جنگلی زیتون کے حوالے سے ۔جنگلی زیتون ( Olive Rassion)کو اردو میں سینزلہ‘ عتمہ جنگلی زیتون ‘تنگ برگہ ‘کہونہ یا خونہ‘ شینا میں گونیر (گونڈیر) اور بلتی زبان میں سرسینگ کہتے ہیں۔اس پودے کوسب سے زیادہ پانی برداشت کرنے والا واحد پودا قرار دیا جاتا ہے۔زیتون کا درخت سدا بہار ہے جس کی بلندی15میٹر جبکہ پھیلاوٴ 10میٹر تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔زیتون کے پودے تپتے صحرا سے لے کربرف پوش پہاڑی چوٹیوں تک میں اُگائے جا سکتے ہیں ۔زیتون کے پودے عام طور پر4سے 5سال کی عمر میں پھل دینا شروع کرتے ہیں۔پھول آنے کیلئے سرد موسم ضروری خیال کیا جاتا ہے اسلئے موسم سرما میں اس پودے کو کم از کم ایک ماہ تک 5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔پھول آنے کا عمل زیتون کی قسم اور موسمی حالات پرانحصار کرتا جبکہ پھول آنے کے بعد 4 سے 5 ماہ تک پھل پک کر تیار ہو جاتا ہے۔زیتون کیلئے موسم گرما میں زیادہ درجہ حرارت اور سردیوں میں کہیں زیادہ ٹھنڈک درکار ہوتی ہے اور وہ علاقے جہاں اوسط درجہ حرارت 20سے25سینٹی گریڈ ہو وہاں زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔
ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ خوردنی تیل کے سالانہ ملکی اخراجات 50ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں ‘ پاکستان خوردنی تیل کی ضرورت کا صرف 32 فیصد پیدا کررہاہے لہٰذا 68 فیصد درآمدی تیل سے نجات کیلئے زیتون کی کاشت کو فروغ دینا ہی مسئلے کا واحد حل ہے ۔ جنگلی زیتون کی پیوند کاری یا گرافٹنگ کر کے زیتون کی تجارتی اقسام آٹوبراٹیکا ‘ کورا ٹینو‘ فرانتویو اور لسینو کی ترویج کے روشن امکانات موجود ہیں اور ان اقسام کو ترقی دے کر زیتون کے تیل کی بڑی مقدار حاصل کی جا سکتی ہے جس سے ملکی ضروریات کیلئے درآمد کئے جانے والے خوردنی تیل پر خرچ ہونے والاکثیر زر مبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وادی سون جیسے پہاڑی علاقوں میں زیتون کی کاشت کو تجارتی بنیادوں پر متعارف کرایا جائے۔
جنگلی زیتون کی افادیت اور معاشی استحکام میں اس کی اہمیت تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے اور یہی سچ ہے کہ جنگلی زیتون کے چند کروڑ درختوں کی گرافٹنگ ملک کی معیشت کو بدحالی سے نکالنے کا نہایت سستا اور آسان نسخہ ہے جوتجرباتی نہیں عملی طور پر کامیاب منصوبہ ہے۔ خیبر پختونخواہ‘ آزاد کشمیر اور پوٹھوہار میں جنگلی زیتون کے چھ کروڑ درخت ہیں‘ یہاں پیوند کاری سے چھ سو ارب روپے سالانہ کی آمدن ممکن ہے۔کہو کے ایک درخت پر قلم لگانے کیلئے دو سے دس شاخیں درکار ہوتی ہیں۔ ایک شاخ کی قیمت تیس روپے یعنی زیادہ سے زیادہ تین سو روپے کے اخراجات۔ زیتون کا درخت ایک سو سال تک پھل دیتا ہے۔ ایک کلو زیتون کی قیمت تین ہزار روپے ہوسکتی ہے اور ساری دنیا اس کی خریدار ہے۔لوئر دیر میں جس باغ کا افتتاح سراج الحق نے کیا اس باغ میں پندرہ سو کے قریب اعلیٰ نسل کے جنگلی زیتون کے درخت بڑی تعداد میں موجود ہیں تاہم لیکن ماضی اور حال کی کسی بھی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے کروڑوں کی تعداد میں ان درختوں کی موجودگی کے باوجود پاکستانی عوام قدرت کے اس انعام سے محرومی کا دکھ جھیل رہے ہیں۔آج تک ان درختوں کو کارآمد بنانے پر کسی قسم کے اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے آج بھی ہم اربوں روپے کا زرمبادلہ خرچ کر کے بیرونی ممالک سے زیتون منگوانے پر مجبور ہیں۔
زیتون کی کاشت سے زرمبادلہ کی بچت کیساتھ مقامی نوجوانوں کو ان کے اپنے ہی علاقوں میں باعزت روزگار ملے گا اور توقع ہے کہ چند سال کے اندر اندر وطن عزیز زیتون کے تیل میں نہ صرف خودکفیل ہوجائے گا بلکہ اس کی برآمد بھی ممکن ہوسکے گی۔ وزیراعظم صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اس ضمن میں بردباری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں‘ اُن کے مشیر مرغی‘ انڈے‘ کٹے اور بکری کے بعد بھنگ کی کاشت جیسے مضحکہ خیز اعلانات کرکے ان کیلئے تمسخر کا باعث بن رہے ہیں ۔ایسے میں ان کیلئے نہایت ضروری ہے کہ کچھ تو ایسا کریں کہ ان کے جانے کے بعد لوگ انہیں اچھے حوالے سے یاد رکھیں۔
بھنگ کے بجائے جنگلی زیتون کے چند کروڑ درختوں کی گرافٹنگ ملک کی معیشت کو بدحالی سے نکالنے کا آسان نسخہ ہاتھ آنے کے بعد حکومت کو اس جانب سنجیدگی سے سوچنا چاہئے ۔ اس حوالے سے فوری طور پر نوجوانوں کو گرافٹنگ کی تربیت دی جانی چاہئے اور تربیت کیلئے خصوصی مراکز قائم کئے جانے چاہئے ۔ جس طرح جماعت اسلامی اس اہم کام کی سرپرستی کررہی ہے اسی طرح سے دیگر جماعتوں کو تمام آپسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان عمل میں آکر اس منصوبے کی کامیابی کیلئے اپنا ‘اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیوں کہ زیتون کی کاشت سے ایک جانب مالی فوائد حاصل ہوسکیں گے ‘ دوسری جانب اسلامی کلچر کے فروغ میں بھی معاونت حاصل ہوگی۔ اگر اس جانب توجہ دی گئی تو اُمید ہے کہ پاکستان اگلے چند سالوں میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سودی قرضوں سے نجات پالے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شازیہ انوار کے کالمز
-
کرونا وائرس کا نیا حملہ ‘بوسٹر لگوائیں‘ احتیاط کریں
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
بریسٹ کینسر کی الارمنگ صورتحال
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
مہنگائی اور ہم
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
عمر شریف کو فوری طور پر بیرونی ملک بھیجا جائے
منگل 14 ستمبر 2021
-
واقعہ کربلا ‘خواتین کی عزم و حوصلے کی لازوال داستان
بدھ 18 اگست 2021
-
ملالہ فیشن میگزین کے سرورق اور عوام کی زبان پر
جمعہ 4 جون 2021
-
کورونا وائرس ‘ مئی کا مہینہ جنوبی ایشیاء کیلئے خطرناک قرار
جمعرات 6 مئی 2021
-
کورونا آگاہی مہم ،آکسیجن ،ویکسین اور فوری طبی انتظامات
ہفتہ 1 مئی 2021
شازیہ انوار کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.