بھنگ کاشت نہ کریں بلکہ جنگلی زیتون کی کرافٹنگ کرایں

منگل 6 اکتوبر 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں بھنگ کی کاشت کے منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ ”بھنگ کی کاشت کیلئے پشاور‘ جہلم اور چکوال کے علاقوں کا انتخاب کیا گیا ہے‘بھنگ کینسر سمیت ان دیگر بیماریوں کی ادویات بنانے کیلئے استعمال ہوگی جن میں مریض شدید درد کے شکار ہوجاتے ہیں۔

“میں جو کافی عرصے تک اس گمان میں رہی کہ بھنگ کی کاشت کا شوشہ ازراہ تفنن چھوڑا گیا )جیسا کہ صوبائی اور وفاقی وزراء کی عادت ہے(لیکن حالیہ انکشاف کے بعد مجھے یہ تکلیف دہ اندازہ ہوا کہ وفاقی وزیرواقعی ”سنجیدہ “ہیں ۔ صد ہائے افسوس کہ سوچنے سمجھنے کی زحمت کئے بغیر حکومتی حلقے بس”کہہ “دیتے ہیں ‘ اس سے زیادہ تاسف اس بات پر ہے کہ یہ وہ نادان ہیں جو ”کہنے“ کے بعد اپنے ”کہے “ پر قائم رہنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

جیسا کہ اس عظیم الشان اعلان کے بعد کراچی یونیورسٹی میں قائم ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) کو تحقیق کی ہدایت کردی گئی جنہوں نے بھنگ کی کاشت کیلئے تین علاقوں کی نشاندہی کی جن میں مری ایکسپریس وے سے ملحقہ علاقہ موضع لوکوٹ‘ صوبہ خیبر پختونخواہ کا ضلع ہری پور اور سندھ کے ضلع ٹھٹہ کا علاقہ میرپور ساکرو شامل ہے۔

“جبکہ ناچیز کی رائے میں اگر حکومت وقت ”بھنگ “کے بجائے ”جنگلی زیتون“کی کرافٹنگ پرتوجہ دیتے ہوئے اس ضمن میں عملی اقدامات کرے تو یقینا مستقبل قریب میں پاکستان کی معیشت بدحالی سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔میں نے بھی یہ رائے قائم کی امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق کی ایک تقریر سننے کے بعد ‘جو انہوں نے گزشتہ دنوں لوئر دیر میں میدان کے مقام پر زیتون کے باغ کے افتتاح کے موقع پر کی ۔

سینیٹر سراج الحق کے مطابق”حکومت زیتون کی کاشت پر توجہ دے تو ملک کو اربوں روپے کا زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے ۔پنجاب‘خیبر پختونخواہ ‘ فاٹا اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں موجود جنگلی زیتون کے کئی کروڑ درخت قدرت کا بیش بہا انعام ہیں لیکن افسوس کہ آنے اور جانے والی حکومتوں نے بڑے پیمانے پر قلم کاری کے ذریعے اس بے حد مفید درخت کا فائدہ نہیں اٹھایاجبکہ عملی طور پر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جنگلی زیتون کے درختوں پر قلم کاری کرکے ملک کو اربوں روپے سالانہ کی آمدنی حاصل ہوسکتی ہے۔

بیرونی ممالک سے زیتون منگوانے پر اربوں روپے کا زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے نتیجے میں نہ صرف زر مبادلہ کی بچت ہوگی ‘مقامی نوجوانوں کو اُن کے اپنے علاقوں میں باعزت روزگار ملے گا بلکہ چند سالوں کے اندر اندر زیتون کے تیل سمیت دیگر مصنوعات کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ میں ہوں گی۔اگر حکومت ملاکنڈ کو وادی زیتون قرار دے کر اس منصوبے کی مالی و تکنیکی سرپرستی کرے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ پوٹھار کے علاقے کی طرح یہ خطہ بھی زیتون کی پیداوار کا مرکزنہ بن سکے۔

جماعت اسلامی کشمیر اور لوئر دیر میں 1800 درختوں کی گرافٹنگ کا ارادہ رکھتی ہے جو18 کروڑ درختوں کی گرافٹنگ کا سبب بنے گی‘مارچ 2012ء میں کئی علاقوں میں 10000 درختوں کی گرافٹنگ کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ “
چلیں کچھ بات ہوجائے جنگلی زیتون کے حوالے سے ۔جنگلی زیتون ( Olive Rassion)کو اردو میں سینزلہ‘ عتمہ جنگلی زیتون ‘تنگ برگہ ‘کہونہ یا خونہ‘ شینا میں گونیر (گونڈیر) اور بلتی زبان میں سرسینگ کہتے ہیں۔

اس پودے کوسب سے زیادہ پانی برداشت کرنے والا واحد پودا قرار دیا جاتا ہے۔زیتون کا درخت سدا بہار ہے جس کی بلندی15میٹر جبکہ پھیلاوٴ 10میٹر تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔زیتون کے پودے تپتے صحرا سے لے کربرف پوش پہاڑی چوٹیوں تک میں اُگائے جا سکتے ہیں ۔زیتون کے پودے عام طور پر4سے 5سال کی عمر میں پھل دینا شروع کرتے ہیں۔پھول آنے کیلئے سرد موسم ضروری خیال کیا جاتا ہے اسلئے موسم سرما میں اس پودے کو کم از کم ایک ماہ تک 5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔

پھول آنے کا عمل زیتون کی قسم اور موسمی حالات پرانحصار کرتا جبکہ پھول آنے کے بعد 4 سے 5 ماہ تک پھل پک کر تیار ہو جاتا ہے۔زیتون کیلئے موسم گرما میں زیادہ درجہ حرارت اور سردیوں میں کہیں زیادہ ٹھنڈک درکار ہوتی ہے اور وہ علاقے جہاں اوسط درجہ حرارت 20سے25سینٹی گریڈ ہو وہاں زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔
ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ خوردنی تیل کے سالانہ ملکی اخراجات 50ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں ‘ پاکستان خوردنی تیل کی ضرورت کا صرف 32 فیصد پیدا کررہاہے لہٰذا 68 فیصد درآمدی تیل سے نجات کیلئے زیتون کی کاشت کو فروغ دینا ہی مسئلے کا واحد حل ہے ۔

جنگلی زیتون کی پیوند کاری یا گرافٹنگ کر کے زیتون کی تجارتی اقسام آٹوبراٹیکا ‘ کورا ٹینو‘ فرانتویو اور لسینو کی ترویج کے روشن امکانات موجود ہیں اور ان اقسام کو ترقی دے کر زیتون کے تیل کی بڑی مقدار حاصل کی جا سکتی ہے جس سے ملکی ضروریات کیلئے درآمد کئے جانے والے خوردنی تیل پر خرچ ہونے والاکثیر زر مبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وادی سون جیسے پہاڑی علاقوں میں زیتون کی کاشت کو تجارتی بنیادوں پر متعارف کرایا جائے۔


جنگلی زیتون کی افادیت اور معاشی استحکام میں اس کی اہمیت تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے اور یہی سچ ہے کہ جنگلی زیتون کے چند کروڑ درختوں کی گرافٹنگ ملک کی معیشت کو بدحالی سے نکالنے کا نہایت سستا اور آسان نسخہ ہے جوتجرباتی نہیں عملی طور پر کامیاب منصوبہ ہے۔ خیبر پختونخواہ‘ آزاد کشمیر اور پوٹھوہار میں جنگلی زیتون کے چھ کروڑ درخت ہیں‘ یہاں پیوند کاری سے چھ سو ارب روپے سالانہ کی آمدن ممکن ہے۔

کہو کے ایک درخت پر قلم لگانے کیلئے دو سے دس شاخیں درکار ہوتی ہیں۔ ایک شاخ کی قیمت تیس روپے یعنی زیادہ سے زیادہ تین سو روپے کے اخراجات۔ زیتون کا درخت ایک سو سال تک پھل دیتا ہے۔ ایک کلو زیتون کی قیمت تین ہزار روپے ہوسکتی ہے اور ساری دنیا اس کی خریدار ہے۔لوئر دیر میں جس باغ کا افتتاح سراج الحق نے کیا اس باغ میں پندرہ سو کے قریب اعلیٰ نسل کے جنگلی زیتون کے درخت بڑی تعداد میں موجود ہیں تاہم لیکن ماضی اور حال کی کسی بھی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے کروڑوں کی تعداد میں ان درختوں کی موجودگی کے باوجود پاکستانی عوام قدرت کے اس انعام سے محرومی کا دکھ جھیل رہے ہیں۔

آج تک ان درختوں کو کارآمد بنانے پر کسی قسم کے اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے آج بھی ہم اربوں روپے کا زرمبادلہ خرچ کر کے بیرونی ممالک سے زیتون منگوانے پر مجبور ہیں۔
زیتون کی کاشت سے زرمبادلہ کی بچت کیساتھ مقامی نوجوانوں کو ان کے اپنے ہی علاقوں میں باعزت روزگار ملے گا اور توقع ہے کہ چند سال کے اندر اندر وطن عزیز زیتون کے تیل میں نہ صرف خودکفیل ہوجائے گا بلکہ اس کی برآمد بھی ممکن ہوسکے گی۔

وزیراعظم صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اس ضمن میں بردباری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں‘ اُن کے مشیر مرغی‘ انڈے‘ کٹے اور بکری کے بعد بھنگ کی کاشت جیسے مضحکہ خیز اعلانات کرکے ان کیلئے تمسخر کا باعث بن رہے ہیں ۔ایسے میں ان کیلئے نہایت ضروری ہے کہ کچھ تو ایسا کریں کہ ان کے جانے کے بعد لوگ انہیں اچھے حوالے سے یاد رکھیں۔
بھنگ کے بجائے جنگلی زیتون کے چند کروڑ درختوں کی گرافٹنگ ملک کی معیشت کو بدحالی سے نکالنے کا آسان نسخہ ہاتھ آنے کے بعد حکومت کو اس جانب سنجیدگی سے سوچنا چاہئے ۔

اس حوالے سے فوری طور پر نوجوانوں کو گرافٹنگ کی تربیت دی جانی چاہئے اور تربیت کیلئے خصوصی مراکز قائم کئے جانے چاہئے ۔ جس طرح جماعت اسلامی اس اہم کام کی سرپرستی کررہی ہے اسی طرح سے دیگر جماعتوں کو تمام آپسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان عمل میں آکر اس منصوبے کی کامیابی کیلئے اپنا ‘اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیوں کہ زیتون کی کاشت سے ایک جانب مالی فوائد حاصل ہوسکیں گے ‘ دوسری جانب اسلامی کلچر کے فروغ میں بھی معاونت حاصل ہوگی۔ اگر اس جانب توجہ دی گئی تو اُمید ہے کہ پاکستان اگلے چند سالوں میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سودی قرضوں سے نجات پالے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :