شروع کرتا ہوں رب جلیل کے نام سے جو بڑا ہی مہربان اور نہایت رحیم ہے۔۔۔
پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہونے کے باعث اس وقت ترقی پذیر ممالک سے لیکر ترقی یافتہ ممالک کے تمام افراد اپنے اپنے گھروں میں آئسولیٹ ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس لاک ڈاؤن اور آئسو لیٹ ہونے کی بنا پرتقریباً ہر انسان اپنے گھروں میں موجود کمپیوٹر، لیپ ٹاپ پر اور کچھ نہیں تو اپنے اپنے ہاتھوں میں سمارٹ فون تھامے انٹرنیٹ پر پوری دنیا میں کرونا وائرس کے باعث ہونے والی ساری تباہی وبربادی کا پورا علم رکھتا ہے۔
جونہی وہ صبح بستر سے بیدار ہوتا ہے تو اس کے وائٹس ایپ، فیس بک اور یوٹیوب پر وائرل ہونیوالی کئی ویڈیوز کو دیکھتا ہے اور دیکھتے ہی ذہنی اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ ان ویڈیو کلپس میں روزانہ کی بنیاد پر ایک نئی افواہ گردش کرتی ہوئی نظر آتی ہے جسے دیکھ کر وہ اسے ہی سچ سمجھ لیتا ہے ۔
(جاری ہے)
ابھی کچھ دنوں سے طرح طرح کے کلپس میں ایک کلپ وائرل ہو رہا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین کے طور دنیا کے امیرترین شخص بل گیٹس نے ایک مائیکرو یا نینو چپ تیار کر لی ہے، جو خوردبین سے ہی دیکھی جا سکتی ہے، جو تجرباتی طور پر دنیا بھر میں پیش کی جائیگی اور کوشش یہ کی جاسکتی ہے کہ اس نہایت چھوٹی یعنی چاول کے ایک دانے کے برابر چپ کو انسانی ہاتھ انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان میں ایک انجیکشن سرج کے ساتھ ڈالا جائیگا اور اس کے بعد اس انسان کا رابطہ ڈائریکٹ مائیکرو سافٹ کمپنی کے سپر کمپیوٹر سرورکے ساتھ جڑ جائیگا جس کے بعد اس انسان کی نقل و حرکت کا جو چاہے جب چاہے جہاں چاہے معلوم کیا جا سکے گا کہ وہ کہاں ہے ، کیا کر رہا ہے،کیسے کر رہا ہے۔
اس کے بعد اگر کمپیوٹر کا مین سرور اس انسان کو کنٹرول بھی کرنا چاہے تو کر سکے گا، وغیرہ وغیرہ۔
اس افواہ کے بعد پچھلے ہی ہفتے جب بل گیٹس بیلجئم کے شہر برسلز میں کسی کانفرنس میں شرکت کیلئے پہنچے تو وہاں موجود کچھ افراد نے ان پر حملہ بھی کر دیا، اور سیکورٹی کے بہت سے اہلکاروں نے بل گیٹس کو حملہ آور افراد سے بچایا۔یاد رہے کہ بل گیٹس اس طرح کی تمام خبروں کی تردید کر چکے ہیں کہ انہوں نے کوئی چپ ویکسین کی صورت میں تیار کی ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ، یورپ کے تمام ممالک میں سینکڑوں افراد نے اس اقدام سے باز رکھنے کیلئے بڑی بڑی ریلیاں بھی نکالنی شروع کر دی ہیں۔ اب اگر اس چپ کے اوپر غور کرتے ہوئے سوچا جائے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیونکہ کرونا جیسی موذی بیماری کیلئے جو ویکسین کی تیاری پوری دنیا کے سارے ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دان اور ڈرگ کمپنیاں اپنے اپنے طور پرکر رہے ہیں، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ سب کے سب اس ایک بل گیٹس کی مائیکرو چپ پر سمجھوتہ کر لیں گے۔
اور اگر امریکن کمپنی اس ویکسین کو تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ظاہر ہے وہ اس ویکسین کو اپنے امریکن باشندوں پر تجرباتی طور پر استعمال کرنے کی شرط عائد کریگی۔ کسی دوسرے ممالک کے باشندوں پر تو ان کا زور نہیں چل سکے گا۔
چین کے سائنس دان اگر یہ چاہیں کہ ہماری دوائی کوامریکن لوگ پر استعمال کیا جائے تو یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ امریکن اس بات پر راضی ہونگے کہ وہ چینی کمپنی کی چپ کو اپنے جسم کے کسی حصے میں ڈلوائیں۔
ہاں اس جھانسے میں پاکستان ، انڈیا ، افغانستا ن ، اور افریقہ کے جیسے پسماندہ ممالک تو آ جائیں لیکن یورپی یا دوسرے ترقی یافتہ ممالک ایسے کسی فراڈ کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہونگے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مائیکرو یا نینو چپ کی خبر میں کتنی حقیقت ہے اور یہ کب اور کیسے پوری دنیا میں رائج ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی زرا سی سمجھ رکھنے والے انسان کو اتنا تو پتہ ہی ہو گا کہ کمپیوٹر میں وائرس یا ایرر آجانا معمول کی بات ہے لیکن جب وائرس یا ایرر آتا ہے تو اس کا کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک اور پروسیسر بہت گہرا اثر پڑتا ہے جس کے باعث وہ کمپیوٹر خراب ہو جاتا ہے یا اس کی ہارڈ ڈرائیو میں موجود ڈیٹا دوبارہ اپنی اصل حالت میں چلنے کے قابل نہیں رہتا۔
اور اگر اس مائیکرو یا نینو چپ میں بھی جو کہ انسانی جسم کے کسی حصے میں ڈالی جائیگی تو اس میں بھی ایسی ہی خرابی ہونے کی صورت میں انسانی جان پر بہت گہرا اثر پڑ سکتا ہے، وہ انسان کسی اور ہی سمت کی جانب چل پڑے گا اور ممکن ہے ہلاک بھی ہو جائے، جس کا گمان کرنا فی الحال ممکن نہیں۔
اس وبائی کرونا وائرس کی آمد اور تباہی کے باعث پوری دنیا میں ہوائی سفر بھی بہت متاثر ہوا ہے۔
آسمانوں پر اڑنے والے جہازوں کو ایئرپورٹوں پر اتار لیا گیا ہے ، اوردنیا بھر کے کئی ایئرپورٹس پر جہازوں کیلئے پارکنگ کم پڑ گئی ہے۔لیکن سلام ہے باکمال لوگوں کی لاجواب سروس پر کہ اس نے چند دن اپنے جہازوں کو آرام دینے کے بعد دوبارہ اپنے ہوائی بیڑے کو حرکت دی اور اپنے جہازوں کا رخ دنیا کے کئی ممالک کیلئے موڑتے ہوئے اپنی پروازوں کا آغازکر دیا اور اس یقین دہانی کے ساتھ کہ ہم اپنے مسافروں کیلئے احتیاطی تدابیرکو مدنظر رکھتے ہوئے منزل مقصود پر لیکر بھی جائیں گے اور واپس بھی لائیں گے۔
حالانکہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاز کے اندر ایک سیٹ کو چھوڑ کر ایک سیٹ پر بٹھانے کا دعویٰ بالکل غلط ہے اس کے برعکس جہاز میں اوور لوڈنگ کرنے کے بعد مسافروں کو نارمل سیٹ ٹو سیٹ بٹھایا جاتا ہے اور انہیں کوئی ماسک تک نہیں دیئے جاتے۔ ان دعوؤں کے نتیجہ میں مسافروں نے اپنی شکایات کا جو انبار سوشل میڈیا پر لگائے ہیں ، یقین جانئے اس کو دیکھ اور سن کر حیران و پریشان ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
یہاں انگلینڈ سے اگر کوئی مسافر کسی ایمرجنسی کی صورت میں پی آئی اے سے بکنگ کروانے کا سوچے تو پہلے تو اس کو بہت مہنگی ٹکٹ خریدنا پڑ رہی ہے اور اوپر سے یہاں ٹریول ایجنٹ حضرات کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہر ٹکٹ کے ساتھ 250 برٹش پونڈ لاہور، کراچی، اسلام آباد میں ہوٹل بکنگ جو کہ ایک ہفتہ کی ہو گی وصول کی جائے ، جو کہ ایک مسافر کیلئے بہت زیادہ ہے اور ایک ہفتہ تک اپنی منزل مقصود پر پہنچ جانے کے بعد بھی نا پہنچے، اور ہفتہ بھر کیلئے ہوٹل کی اس خواری کو وہ خود برداشت کرے۔
اس بارے میں وزیراعظم عمران خان پہلے ہی ایف آئی اے اور ائرپورٹ انتظامیہ کو کہہ چکے ہیں کہ اووسیز پاکستانی مسافروں پرایک ہفتہ ہوٹل کے زبردستی قیام کو ختم کیا جائے اور جس مسافر پر کرونا وائرس کے اثرات ظاہر ہوں ان کو 48 گھنٹے کے بعد گھر میں آئسولیٹ کی وارننگ جاری کرنے کے بعد گھر جانے کی اجازت دیدی جائے۔ لیکن اب ان ایف آئی اے اور پی آئی اے انتظامیہ کاکیا کیا جائے جو وزیراعظم تو کیا کسی بھی ارباب اختیار کے حکم کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔
مبینہ طور پر معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے ان شہروں میں ہوٹل بھی کم پڑ گئے ہیں اور وہاں پہنچنے والے اکثر مسافروں کو ایئرپورٹ سے فارغ ہونے کے بعد ہوٹل میں ایک ہفتہ '' زبردستی کا مہمان'' بننا پڑتا ہے۔ یہ تو روداد ایک عام مسافر کیلئے ہے اور جس کا '' کلہ'' مضبوط ہوتا ہے یعنی جس کا تعلق پی آئی اے، ایف آئی اے، یا اگروہ سیاسی طور پر مضبوط ہو اسے کہیں جانے کی ضرورت نہیں اسے مکھن میں سے بال کی طرح نکال لیا جاتا ہے۔
اور یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ہوٹل میں بھی ایک کمرے میں دو مسافر کے بعد اگر کمرے کم پڑ جائیں تو ہوٹل انتظامیہ ان کمروں کے فرش پر گدے بچھا کر انہیں زمین پر ہی آرام کرنے اور باہر نا جانے کا مشورہ دے رہی ہے۔ یہ تو ہوا ان مسافروں کا قصہ جو بیرون ممالک سے پاکستان کیلئے سفر کرتے ہیں۔ اب جو تارکین وطن اپنے وطن پاکستان کرونا وائرس کی آمد سے قبل مختلف نوعیت کے کاموں کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے ، اور اب وہ واپس آنا چاہ رہے ہیں، ان تمام کی ٹکٹیں کینسل کر کے ریفنڈ کرانے کی ہدایات جاری کی گئیں ہیں، ان تارکین وطن کو یک طرفہ نئی ٹکٹ خریدنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔
اس یک طرفہ ٹکٹ کا ریٹ منہ مانگی قیمت کی صورت میں وصول کیا جا رہا ہے، جس کی مالیت لاکھوں میں بتائی جا رہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تارکین وطن اپنے ملک اپنے عزیز رشتہ داروں کے پاس جاتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کیش کی صورت میں لیکر جاتے ہیں اور اپنے گھروالوں اور رشتہ داروں پر غمی و خوشی کے موقع پر خرچ کرنے کے بعد جب واپس جانے کیلئے روانگی اختیار کرتے ہیں تو ان کے پاس صرف اتنے ہی پیسے بچتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے شہر کے ایئرپورٹ سے ٹیکسی لیکر گھر پہنچ جائیں۔
اول تو ان کو پی آئی اے ، غیرملکی ایئرلائنز کے آفس اور پاکستان کے تمام ایئر پورٹس پر آجکل جتنا ذلیل ہونا پڑ رہا ہے اس بارے میں تمام آگاہی دینا اس کالم میں ممکن نہیں۔ براہ کرم ارباب اختیار سے التماس ہے کہ کچھ خوف خدا کریں اور ان ایئرپورٹ پربیٹھے قصائی نما اہلکاروں سے تارکین وطن کی جان بچائیں جو ہر آنے اور جانے والی ملکی و غیرملکی فلائٹ کے مسافروں پر شب خون مار رہے ہیں، جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
سوشل میڈیا پر آجکل ایک اور عوامی احتجاج سر اٹھا رہا ہے جس پر صوبائی و وفاقی حکومت کی توجہ بہت ضروری ہے ۔کرونا وائرس کے آنے کا زیادہ تر نقصان تو دیکھنے میں آ ہی رہا ہے لیکن اس کا ایک فائدہ پوری دنیا کو یہ ہوا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں ہوشربا کمی واقع ہوئی ہے۔ پٹرول و ڈیزل تقریباً 50 روپے لیٹر سستا ہو گیا ہے۔ پورے پاکستان کے چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں میں بسلسلہ روز گار کے آئے ہوئے بہت سے لوگ اگلے آنے والے چند دنوں بعد عیدالفطر کیلئے اپنے اپنے آبائی شہروں کو جائیں گے ، یہ غریب مزدوروں، سرکاری و غیرسرکاری دفاتر میں کام کرنے والے لوگ جب ٹرانسپورٹ میں یا ریلوے پر سفر کرنے کیلئے ٹکٹ خریدنے جائیں گے توان کو حسب سابق پرانے کرائے کی بجائے مہنگے کرایوں کا سامنا کرنا پڑے گا ، اصولاً اگر پٹرول وڈیزل سستا ہوا ہے تو اس کا اثر سفری کرایوں پر پڑنا چاہئے لیکن ابھی تک ٹرانسپورٹر حضرات نے کرایہ میں کوئی کمی کا اعلان نہیں کیا، اس لئے غریب عوام نے ابھی سے ہی اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا شروع کر دیا ہے، اور آنے والی عیدالفطر سے قبل یہ احتجاج موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت کیلئے بدعائیں بھی بن سکتا ہے، لہٰذا وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ پٹرول و ڈیزل کے سستا ہونے کے بعد ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ناصرف کمی کا اعلان کرے بلکہ ان پر چیک بھی رکھے ، ذخیرہ اندوز افراد کے خلاف جس طرح نئے قانون کے تحت سزاؤں کا اعلان کیا گیا ہے اسی طرح اس بارے میں بھی کوئی سخت اقدامات کا اعلان بھی کیا جائے تاکہ ان لوکل مسافروں کو بھی تو پتہ چلے کہ وفاقی اور صوبائی ارباب اختیار کو ہمارا بھی کچھ خیال ہے۔
موجودہ گزرتے ہوئے رمضان میں تو عوام کو حکومت نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ انہیں مہنگائی میں ریلیف ملے لیکن اکثریتی عوام ابھی تک موجودہ حکومت سے ناخوش دکھائی دے رہی ہے۔ شائد اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کرونا وائرس نے ہر انسان کو متاثر کیا ہے اوپر سے باقی رہی سہی کسر لاک ڈاؤن نے پوری کر دی ہے کیونکہ پاکستانیوں کی اکثریت گھر میں مقید رہی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔