پاکستان اور سلطنت عثمانیہ

ہفتہ 23 مئی 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

 شروع کرتا ہوں رب جلیل کے نام سے جو بڑا ہی مہربان اور نہایت رحیم ہے۔۔۔
 کل دوپہرلاہور سے کراچی جانیوالی پی آئی اے کی پروازلینڈنگ سے صرف چندمنٹ پہلے کراچی کے گنجان آباد علاقے میں گر کر تباہ ہو گئی، ابتدائی رپورٹ میں کہا جا رہا ہے کہ طیارے کے لینڈنگ گیئر میں پرابلم یا جہاز کے دونوں انجن بند ہونے کی وجہ سے حادثہ پیش آیا، جس کے باعث عملے سمیت 98 افراد افراد سوار تھے جن میں سے صرف دو خوش قسمت مسافر ایسے تھے جو صرف زخمی ہوئے ہیں ، اس کے علاوہ ابھی تک 92 مسافروں کے ہلاک ہونے کی خبر دی جا رہی ہے اور ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق بیشتر مسافروں کا تعلق ایسے افراد پر مشتمل تھا جو اپنے عزیزو اقارب کے پاس عیدالفطر منانے جا رہے تھے۔

لیکن افسوس کہ وہ بدقسمتی سے اپنی منزل پر نہ پہنچ سکے۔

(جاری ہے)

ابھی تک کی اطلاعات کے نتیجہ میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے کہ اس حادثہ کے نتیجہ میں کتنی اموات واقع ہوئیں ہیں۔کیونکہ جہاز کراچی کے گنجان آباد علاقے کے مکانوں کے اوپر گرا، اس لئے فی الحال یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس حادثہ کی لپیٹ میں کتنے معصوم شہری آئے ہیں۔اس کے باعث ملک بھر میں عیدالفطر کی خوشیاں پھیکی پڑ گئیں اور خاص کر کراچی میں مقیم شہری سخت کرب و غم ناک دکھائی دے رہے ہیں۔

اللہ تعالٰی مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے اور غمزدہ خاندانوں کو صبر دے۔ آمین
 آخر کار چند روز قبل چینی سکینڈل کی حتمی فرنزک رپورٹ بھی وفاقی کابینہ میں پیش کر دی گئی، اور وزیراعظم نے اس رپورٹ کو فوری طور پر پبلک کرنے کا حکم بھی دیدیا۔ اس جرات مندانہ فیصلے کو پورے پاکستان میں خوب سراہا جا رہا ہے۔ اس تحقیقاتی انکوائری کمیٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو بھی وزیراعظم کی جانب سے شاباش ملی ہے۔

مبینہ طور پر اس سکینڈل میں اسدعمر، عبدالرزاق داؤد، جہانگیر ترین اور وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار کے نام آ رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کو اس موقع پر بڑے سخت فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے ناصرف اس رپورٹ کو پبلک کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ اس کو نیب کے سپرد کر کے غیرجانبدارانہ تحقیقات کرنے کے بعد اس کے قصوروار افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی کہا ہے۔

اب آنے والے وقت میں ہی پتہ چلے گا کہ وزیراعظم کے حکم کو کتنی پذیرائی ملتی ہے کیونکہ ماضی میں کئی فیصلے یا حکم تو وزیراعظم اپنے طور پر قومی مفاد میں کرتے ہوئے جاری کر دیتے ہیں لیکن قومی و صوبائی بیورو کریسی اس کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال باہر کرتی ہے جو کہ ٹھیک نہیں۔ وزیراعظم نے چند ہفتوں قبل پاکستان کے سب ہی ایئرپورٹ پربیرون ممالک آنے والے تارکین وطن سے ایئرپورٹ انتظامیہ کی جانب سے کئے جانیوالے ناروا سلوک پر حکم جاری کیاتھا کہ صرف انہیں ہوٹلوں میں کورنطین کیا جائے جن میں کرونا وائرس کے کچھ اثرات دیکھنے میں آئیں لیکن ایئرپورٹ پر موجود ایئرپورٹ انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، اور ابھی تک وہی برا حال ہے ۔

 فلائٹ سے اترنے والے تمام مسافروں کو آئسولیٹ کے نام پر ہوٹلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے اور ہوٹلوں میں وہ اپنے خرچے پر ہی کم از کم ایک ہفتہ اور زیادہ سے زیادہ دو ہفتے کا وقت گزار رہے ہیں جو ان کو ساری عمر یاد رہے گا۔اوپر سے کسی بھی غیرملکی ایئر لائن کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں، جس کے باعث پی آئی اے نے اپنی اجارہ داری بنا رکھی ہے اور منہ مانگے معاوضوں پر اپنے ٹکٹ دھڑا دھڑ فروخت کر رہی ہے،کم از کم پاکستانی حکومت کو چاہئے اس میں دوسرے ممالک کی ایئرلائنز کو بھی اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی اجازت دینی چاہئے اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اوورسیز پاکستانی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ سکیں، اور جو پہلے ہی پاکستان آئے ہوئے ہیں وہ بھی اپنی پہلے سے خریدی ہوئی نان ریفنڈ ایبل ٹکٹ کے پیسوں کو بچانے کا انتظام کر سکیں اور اسی ٹکٹ پر واپسی کر سکیں۔

ان حالات میں انہیں اپنی واپسی کی ٹکٹ کو ضائع کرنا پڑتا ہے اور پی آئی اے کی ون وے ٹکٹ منہ مانگی قیمت پر خرید کر واپسی کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ 
چینی انکوائری اور اس کی رپورٹ کے بعد دوسری ایس او پیز رپورٹ میں پائپ لائن میں موجود ہے اور آنے کو تیار ہے۔ اس میں بھی بڑے بڑے نام آنے والے ہیں۔جناب وزیراعظم صاحب! ملک بھر کی عوام آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان سب رپورٹس کو پبلک کر دینا ہی کافی نہیں ، ان رپورٹس میں نامزد بڑے لٹیروں پر ہاتھ ڈالنا اور ان سے اس مد میں لوٹی گئی ملکی دولت کی واپسی کو بھی یقینی بنایا جائے۔

کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ بات جو ہر شخص کی زبان پر ہے کہ ملک کے قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور چھوٹی عدالتوں سے لیکر بڑی عدالتوں تک اثررسوخ رکھنے والے لوگوں کیلئے قانون کچھ اور غریب عوام کے لئے قانون کچھ اور ہے۔اس ملک میں جس بندے کا ''کلا ''مضبوط ہے وہ تو اپنا ہر قسم کا کام بڑی آسانی سے نکال لیتا ہے لیکن بیچارہ غریب آدمی صبر کرتے ہوئے اپنا سارا معاملہ اللہ پر ڈال دیتا ہے اور اسی اللہ کا خوف کرتے ہوئے کوئی ایسا نظام مربوط کریں کہ اس ملک میں غیرقانونی طور پر کام کرنے والوں کے ظلم سے غریب بچ سکے اور ان کی بددعاؤں کا رخ موجودہ حکومت کی جانب نہ ہو جائے۔

اسی گزرتے ہفتے کے آخری دنوں میں عوامی مطالبہ کے پیش نظر ملک میں سمارٹ لاک ڈاؤن کا نام دیتے ہوئے تقریباً سارے بازاروں کو کھول دیا گیا، بازاروں میں موجود ہر قسم کی دکانوں کے کھلنے کی اجازت ملنے کی دیر تھی کہ بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں رہی ۔ 
لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بازاروں میں مردوں سے زیادہ عورتوں کا ایک جم غفیر نظر آ رہا ہے، اور کرونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوامی سونامی امڈ آیا ہے۔

ٹی وی پر ملک کے ٹاپ لیول کے ڈاکٹر اور طبی ماہرین بھی یہ سب دیکھ کر کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ عیدالفطر کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر مکمل لاک ڈاؤن لگ سکتا ہے، جسکے اثر کو آجکل ہی دیکھا جا سکتا ہے کہ کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کے مرنے کی تعداد بھی زیادہ ہوئی ہے او رتشخیص کروناکے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کے بعد عوام اور زیادہ فکرمند دکھائی دے رہی ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تو پہلے ہی طلبہ و طالبات کا تعلیمی سال بچانے کیلئے انہیں بغیر امتحان اگلی کلاسوں میں بھیجنے کا اصولی فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے۔ لیکن ان طلبہ و طالبات کا کیا ہو گا جو اپنے فائنل امتحان یعنی میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے ایم ایس سی کے امتحان کی تیاری کرنے میں مصروف تھے اور ہیں۔ کرونا وائرس ہی کے باعث صحت کے معاملات بھی نہایت دگرگوں نظر آ رہے ہیں۔

 ملک کی بڑی مشہور و معروف لیبارٹریز بھی اس سال کرونا وائرس ٹیسٹ کو لیکردوسرے کاروباروں کی طرح اپنا اپنا رمضان مہینہ لگا رہے ہیں۔ ایک لیبارٹری ایک ہی شخص کو نیگیٹو اور اس کے ساتھ والی لیبارٹری کچھ ہی دیر بعد کرائے جانے والے ٹیسٹ کو پازیٹو قرار دے رہی ہے۔ انہی ٹیسٹوں کے چکروں میں یہی مشہور و معروف لیبارٹریز والے دونوں ہاتھوں سے ناصرف پیسہ لوٹ رہے ہیں بلکہ مریضوں کو پریشان اور مس گائیڈ بھی کررہے ہیں۔

ارباب اختیارکو چاہئے کہ وہ ایسے عناصر پر لگام ڈالیں ۔
 پچھلے ہفتے ہی ہمسایہ ملک افغانستان سے بھی بہت اہم خبر آئی کہ افغان طالبان نے بھی بھارت ومقبوضہ کشمیر میں موجود مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے ہندو مظالم اور ناانصافیوں کے پیش نظرہندوانتہا پسند تنظیموں آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ہے۔ ایک پریس کانفر نس میں طالبان نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ عیدالفطر کے بعد بھارتی ہندوانتہا پسند تیار ہو جائیں، ہم آ رہے ہیں اور ملک بھر میں خودکش حملے ، بم دھماکے اورعسکری حملوں پر مشتمل اسی طرح کی پیشتر کارروائیاں کریں گے اور ہندوبنیوں کے ظلم و بربریت سے مسلمانوں کو نجات دلائیں گے۔

اس جنگ کو انہوں نے غزوہ ہند کا نام دیا ہے۔
اس پریس کانفرنس کی تفصیلات آتے ہی بھارتی میڈیا میں تہلکہ مچ گیا، ابھی تک پورے بھارت کے ہر ٹی وی چینلز پر اسی جہاد کے متعلق بات ہو رہی ہے، بعض بھارتی تجزیہ نگاروں نے یہاں تک کہہ دیا کہ موجودہ حکومت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے جلد ازجلد طالبان کو ایک میز پر اکٹھا کرنا چاہئے اور ان سے اس جہاد کو نہ کرنے کیلئے ہر قیمت پر راضی کرنا چاہئے، یہ نا ہو اس جہاد کے شروع ہوتے ہی تمام بھارتی گھروں میں ہی بند ہو کر رہ جائیں اور ان کے پلے سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہ بچے۔

اس سے قبل بھارت نے بھی افغانستان میں افغانوں پر ظلم کی انتہا کر دی اس کی مدد کیلئے ہندوستان نے پورے افغانستان میں اپنے 14 قونصلیٹ کھول رکھے ہیں، جس میں بیٹھ کر بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' افغانستان اور پاکستان کے خلاف بھرپور سازشیں کرتی ہے۔ افغان طالبان نے مل کر ان تمام سازشیوں کے خلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
سلطنت عثمانیہ کے بانی ارتغرل غازی نے پہلے دنیا بھر میں اسلام کا پرچم سربلند کرنے کیلئے کافروں کے خلاف بے شمار صلیبی جنگیں لڑیں اور فتح یاب ہوا۔

اس کے بعد ارتغرل غازی کے صاحبزادے عثمان نے بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے منگولی کافروں کو دھول چٹوائی۔ ارتغرل غازی اور اس کے بعد سلطنت عثمانیہ کے اس سارے علاقے پر سوا چھ سو سال کی حکومت قائم رہی۔ اس حکومت کا خاتمہ مختلف سازشوں کے بعد عمل میں آیا، اس زوال کے شروع میں سلطنت عثمانیہ نے برٹش راج کے ساتھ معاہدہ لوزان کے نام سے کیا جو ابھی تک حکومت فرانس کے پاس موجود ہے۔

 
یہ معاہدہ لوزان 1923ء میں قائم کیا گیا جس کے تحت آئندہ سو سال تک ترکی کے اوپر بہت ساری پابندیاں لگا دی گئیں، جس میں سب سے اہم یہ تھی سلطنت عثمانیہ ختم کر دی جائیگی، اس معاہدہ لوزان کے بعد سلطنت عثمانیہ کے اہم عہدیداران کو قتل کر دیا گیا، جلاوطن کر دیا گیا اور ان کے تین براعظموں میں موجود بے انتہا قیمتی اثاثے ضبط کر لئے گئے اور بعد میں برٹش اور ان کے اتحادیوں کے درمیان بانٹ دیئے گئے۔

ترکی کو ایک سیکولر ریاست بنانے ہوئے اسلام کو ختم کر دیا گیا۔ ترکی پر یہ بھی پابندی لگا دی گئی کہ ترکی اپنے ملک یا کسی بھی دوسرے ملک میں تیل نہیں نکال سکتا۔حالانکہ ماہرین کی رائے کے مطابق ترکی کی زمین کے نیچے تیل و پٹرول کے ذخائر موجود ہیں۔اور ترکی جغرافیائی لحاظ سے فاسفورس سمندر کے گرد گھرا ہوا ملک ہے اور دنیا بھر میں بحری جہازوں کی گزر گاہ ہے، ترکی پر یہ بھی پابندی عائد کر دی گئی کہ وہ اپنے ملک کے پاس یا اس سمندری حصے سے گزرنے والے لاتعداد بحری جہازوں سے کسی قسم کا کوئی ٹیکس بھی وصول نہیں کر سکتا۔

ترکی پر اس سمندری راستے کو استعمال کرنے والے بحری جہازوں پر کسی قسم کا ٹیکس وصول نہ کرنے کی شک بھی اسی معاہدہ کا حصہ تھی۔ ایک لمبے عرصے تک ترک قوم نے سچے مسلمان ہونے کے ثبوت کے طور پر حجاز مقدس میں عمرہ و حج پر آنے والے حاجیوں کی میزبانی کی ہے اور اس میزبانی کا یہ حق سلطنت عثمانیہ کے سوا چھ سال تک نبھایا ہے، آج بھی بے شمار ترکی باشندے عمرہ و حج کے دوران اللہ تعالٰی سے یہی دعا مانگتے دکھائی دیتے ہیں کہ اے اللہ جو حق تو ترک باشندوں کے پاس سوا چھ سو سال تک تھا، اور تیری ناراضگی کے باعث ہم سے چھین لیا گیا، اسے واپس ہماری جھولی میں ڈال دے، یہ ذمہ داری اس وقت آل سعود کے پاس ہے جو آجکل سعودی عرب کے بادشاہ ہیں۔

اب اگلے آنے والے تین سال بعد اس معاہدہ کی معیاد ختم ہو رہی ہے۔
 2023ء میں اس معاہدہ کے ختم ہوتے ہی ترکی سب سے پہلے اپنے ملک کی زمین کو چیر کر تیل اور پٹرول کے بے شمار ذخائر نکالے گا، اور دنیا بھر میں پٹرول و تیل بیچے گا، اس کے بعد اپنے اردگرد پھیلے سمندر پر آتے جاتے بحری جہازوں کو گزرنے کیلئے ٹیکس ادا کرے گا اس کیلئے ترکی کافی عرصہ پہلے سے ہی استنبول کے درمیان سے ایک بہت بڑی سمندری نہر استنبول کینال کے نام سے کی تعمیر کرنے کا پلان بنا رہا ہے، جو آنے والے 5/10 سالوں میں نہر سویز سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جائیگی، جس سے سمندری فاصلے سمٹ جائیں گے اور اس بہت بڑی سمندری نہر کے شارٹ کٹ راستے سے دنیا بھر کے گزرنے والے بحری جہازوں سے ٹیکس وصول کرے گا۔

اس پٹرول و تیل بیچنے اور سمندری جہازوں کے گزرنے کے ٹیکس سے اتنا پیسہ کمائے گا کہ دنیا حیران رہ جائیگی۔
 اس وقت ترکی کے صدر طیب اردگان مسلمانوں کے بہت بڑے خیرخواہ کے طور پر سامنے آئے ہیں، وہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم پر بھرپور اور مضبوط آواز بن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ کافی عرصے قبل سے ہی یہی کوشش کرنے کیلئے سرگرداں نظر آتے ہیں کہ کم از کم مسلمان ممالک یا جہاں جہاں بھی آباد ہیں ان ممالک کو اپنا ہم نوا بنایا جائے۔

ترکی دنیا کے مختلف ممالک کو اپنی صف میں شامل کرنے کیلئے روس، چین، انڈیا، ایران، انڈونیشیا، ملائیشیا اور یورپی یونین میں شامل مختلف ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک نئی جہت پر ڈال رہا ہے۔ اس سلسلے میں ترکی، ملائیشیا اور پاکستان پہلے ہی مسلم امہ کی ترجمانی کیلئے اپنا ایک مسلم چینل بھی لاؤنج کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جب 2023ء میں معاہدہ لوزان کا اختتام ہو تو ترکی کو دنیا بھر کے بڑے ممالک سے ووٹ لینا پڑے۔

امریکہ کرونا وائرس کے اثرات سے بے حد متاثرہوا ہے، اس کی اکنامی بری طرح متاثرہوئی ہے جس کے اثرات آنے والے وقت میں پوری دنیا پر پڑنے والے ہیں، امریکہ کو اپنی پہلے والی پوزیشن پر آنے کیلئے بے بہا پیسہ، مین پاور اور ایک لمبے وقت کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ 2023ء پوری دنیا میں تیل و پٹرول کی کھپت آج کے مقابلے میں کم رہ جائیگی، الیکٹرک گاڑیوں کی ریل پیل ہو گی، اور جب تیل و پٹرول کی ضرورت کم ہو گی تو اس کو سستا کرنا ہی پڑے گا اس کے اثرات کے باعث یو اے ای اور عرب ممالک بھی متاثر ہونگے۔

اور اللہ نے چاہا تو ایسا ہی کچھ ہو گیا تو ترکی کی ترقی سلطنت عثمانیہ کی صورت ایک بار پھر دیکھنے کو ملے گی۔ کیونکہ حضور ﷺ کی بھی ایک حدیث ہے کہ قیامت سے پہلے خلافت قائم ہو گی۔ انشااللہ
میری طرف سے سب قارئین کرام کو عیدمبارک

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :