چیچن روسی عبداللہ۔۔ ایک اور '' غازی علم دین شہید، مرحبا''

ہفتہ 31 اکتوبر 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

عید میلاد النبی ﷺ پوری دنیا میں نہایت عقیدت و احترام سے منایا گیا۔جب راقم الحروف یہ آرٹیکل تحریرکر رہاہے تو آج یورپ اور امریکہ میں عید میلاد النبی ﷺ منایا جا رہا ہے، جبکہ ربیع الاول کے چاند دیکھنے کے معاملہ کے باعث پاکستان اور پاکستان کے گردو نواح میں موجود ممالک میں کل عیدمیلادالنبی ﷺ منایا جائیگا، اور جب تک یہ آرٹیکل اخبارات میں چھپے گا اس وقت تک دنیا بھر میں عید میلاد النبی ﷺمنایا جا چکا ہو گا۔

اس سال کے عیدمیلادالنبی ﷺ میں ایک بات واضح اور نمایاں طور پر نظر آ رہی ہے کہ اس وقت تک فرانس پوری مسلم دنیا میں حد سے زیادہ ذلیل و رسوا ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ کیونکہ غیرمسلم دنیا کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ ایسے موقع پر جب مسلم امہ اپنے پیغمبر، رہبراور ہمارے پیارے نبی محمدﷺ کا یوم ولادت منا رہے ہوں تو اس سے پہلے پہلے کچھ نا کچھ ایسی چنگاری پھینک دی جائے جس سے مسلم دنیا کی دل آزاری ہو اور پوری دنیا میں موجود مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچے۔

(جاری ہے)

اس سال فرانس میں کیا ہوا اور کیسے ہوا، میں اپنے الفاظ میں اپنے قارئین کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس ماہ یعنی اکتوبر کے اوائل میں فرانس میں موجود ایک 47 سالہ فرانسیسی سموئل پیٹی نامی سکول ٹیچر نے اپنی کلاس کے طلبہ کو اظہار آزادی اور فریڈم ایکسپریشن کے موضوع پر لیکچر دینے کیلئے چارلی ایپٹو نامی میگزین کا سہارا لیا، اس میگزین میں 2015ء میں ہمارے آقا دو جہاں ﷺ کے کارٹون پر مبنی خاکے چھپ چکے ہیں، فرانس اور پوری دنیا والے بخوبی جانتے ہیں کہ 2015ء میں بھی ان خاکوں کی اشاعت پر پوری دنیا سراپا احتجاج بن گئی تھی، اور اس دور میں بھی ری ایکشن کے طور پر لگ بھگ 12 افراد کو جہنم واصل کر دیا گیا تھا۔

مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ ایک مسلمان ملک پر کوئی بھی مسلم یا غیر مسلم ملک ناجائز و جائز حملہ کر دے اس بناء پر مسلمان ممالک اکٹھے احتجاج کیلئے کبھی اکٹھے نہیں ہونگے۔ شیعہ سنی کو سنی شیعہ کو ، وہابی دیو بند فرقے کو یا دیوبند وہابی کو برا بھلا کہے تو کسی مسلمان کو برا نہیں لگے گا، لیکن جب اگر کوئی غیرمسلم یا دنیا کا کوئی بھی ملعون باشندہ سرکار دو جہاں ﷺ پر کسی بھی طرح کی بے ادبی یاگستاخی کرے تو پوری دنیا کے مسلمان ایک ہو جاتے ہیں، اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ محمد ﷺہی تو رحمت اللعالمین ہیں، اللہ کے محبوب ہیں۔

پوری مسلم امہ ناموس رسالت ﷺ پر اپنے بھائی بہنوں، بیوی بچوں اور اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں، چند سال پہلے اسی طرح کی حرکت ڈنمارک میں ایک ملعون نے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی کوشش کرنیوالے پر بھی ایک عاشق رسول نے حملہ کر کے زخمی کر دیا تھا۔اس ملعون سکول ٹیچر نے وہی پرانا میگزین دوبارہ نکالا اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی کلاس میں موجود طلبہ کے سامنے نمائش کی جو وہ ہر سال تواتر کے ساتھ کرتا رہتا تھا۔

جس پر احتجاج کرتے ہوئے چند مسلم طلبہ و طالبات نے اعتراض بھی کیا لیکن اس ملعون سکول ٹیچر نے ان طلبہ سے یہ کہہ کر کلاس سے نکل جانے کا کہہ دیا کہ اگر آپ کو اعتراض ہے تو آپ میری کلاس سے باہر چلے جائیں۔بعدازاں ان طلبہ کے مسلم والدین اور علاقے کی مسجد کے امام نے بھی سکول انتظامیہ کو اس بے غیرت ٹیچر کی اس حرکت پر شکایت کی کہ یہ ٹیچر اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ایسی حرکات کا مرتکب ہو چکا ہے لہٰذا ایسے شرپسند سکول ٹیچر کو سکول سے فارغ کر دیا جائے، لیکن سکول انتظامیہ نے یہ کہہ کر ان کے اعتراض کو مسترد کر دیاکہ یہی فرانس حکومت کی پالیسی ہے کہ ہر فرد کو آزادی اظہار اور فریڈم ایکسپریشن کی آزادی ہے۔

اس ملعون سکول ٹیچرکے بارے میں کئی سالوں سے یہی شکایت ہو رہی تھی کہ یہ ہر سال اسی طرح نئے آنے والے طلبہ کو ایسا لیکچر ضرور دیتا ہے جس میں حضور اکرم ﷺکی شان میں مسلسل گستاخی کا مرتکب ہوتا رہتا ہے۔ جس سے مسلم طلبہ و طالبات کے دلوں کو سخت تکلیف پہنچتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حرام خور ٹیچر کم عمر طلبہ وطالبات کو جنسی راہ روی اور فحاشی سے بھرپور کتابوں کے ذریعے فریڈم آف ایکسپریشن کے نام پر انکے ذہن خراب کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

اب پتہ نہیں جس علاقے میں یہ ملعون سکول ٹیچررہتا ہے وہاں سے 100کلو میٹر دور کسی مقام سے عبداللہ نامی ایک 18 سالہ لڑکا ) غازی علم دین شہیدکی طرح کا شیر دل( جوان اپنے گھر سے سفر کر کے اس سکول کے باہر پہنچتا ہے، جہاں وہ ملعون سکول ٹیچر رہتا ہے ، اور وہیں پر موجود سکول میں ٹیچنگ کرتا ہے۔اس عبداللہ نامی شیر دل نوجوان کی پیدائش ماسکو روس میں ہوئی ، اس کے بعد اس کے والدین نے وہاں سے ہجرت کر کے چیچنیا میں پناہ لی، اس کے بعد یہ اپنی فیملی کے ساتھ12 سال پہلے فرانس پہنچ کر 10سال کی PR پرمنٹ ریذیڈنس لینے میں کامیاب ہوگئے۔

اب یہ نوجوان 100 کلومیٹر دور کا سفر طے کر کے وہ وہاں پہنچتا ہے جہاں یہ ملعون سکول ٹیچر رہتا ہے۔ عبداللہ نے پہلے اس سکول کے چند طلبہ و طالبات سے سموئل پیٹی کے بارے میں پوچھا ،کہ براہ کرم مجھے یہ بتایا جائے کہ وہ ٹیچر کون ہے جس نے حضور ﷺکی شان میں گستاخی کی ہے اور کرتا رہتا ہے، کچھ اطلاعات ہیں کہ جب اس نے دیکھا کہ کچھ طالب علم اسے اس کے بارے میں بتانے کو تیار نہیں تو وہ اس کام کیلئے اس نے سکول کے طلبہ و طالبات کو 300 یورو دینے کا لالچ بھی دیا، جس پر چند طالب علم اس بات پر راضی ہوگئے کہ 300 یورو لینے کے بعد وہ اسے اس کی پہچان کرا دیتے ہیں۔

اس نے اسی روز سکول کے باہر اس ملعون کا انتظار کیا اورجب چھٹی کے بعد وہ اپنے گھر جانے کیلئے نکلا تو عبداللہ نے اس کا پیچھا کیا اور ایک سنسان گلی میں موقع پاکر اس پر 18 انچ لمبی چھری سے اس پر حملہ آور ہو کر اسے جہنم واصل کر دیا، ناصرف جہنم واصل کیا بلکہ اس کا سر اس کے تن سے جدا کر دیا۔اور اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتا رہا۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ اس کے فوراً بعد مقامی پولیس نے چاروں طرف سے اسے گھیر لیا اوربعد ازاں 9 فائر کر کے شہید کر دیا، پولیس کی جانب سے ایک جھوٹی سٹوری ترتیب دی گئی کہ عبداللہ نے پولیس پر اپنی ایئرگن سے فائرنگ اور اپنی چھری سے وار کرنے کی کوشش کی، اسی وجہ سے اسے گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔

اس جھوٹی سٹوری کے جواب میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ عبداللہ تقریباً 600 میٹر دور تھا اور ایئرگن کی فائرنگ ان پولیس والوں پر کیا اثر کرتی جو مکمل طور پر بلٹ پروف لباس میں ملبوس تھے۔ اور چھ سو میٹر دور سے اس نے چاقو چھری سے کیا اور کہاں وار کرنا تھا؟ بحرحال عبداللہ نے اپنے عمل سے دنیا کو پیغام دیا کہ مسلمانوں میں عاشقان رسول ﷺ ایسے ہی ہوتے ہیں، اور عبداللہ نے اس ملعون کو عبرت ناک موت دے کر اپنے آپ کو غازی علم دین شہید جیسے عاشقان رسول ﷺ کی صف میں شامل کر لیا۔

لیکن افسوس کہ فرانس حکومت کو اس وقوعہ کے بعد بھی یہ بات سمجھ نہیں آئی، کہ جس طرح پورے یورپ میں موجود یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی ہولوکاسٹ کے ذکر سے ہی جان عذاب میں آجاتی ہے، اسی طرح مسلمانوں میں بھی اپنے پیارے نبی محمد ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی اور بے ادبی کے نتیجہ میں بے حد دلی تکلیف محسوس کی جاتی ہے۔ اور جب بھی پوری دنیا میں کوئی ملعون نبی پاک محمد ﷺکی شان میں گستاخی کی جرات کریگا تو پوری مسلم امہ کی جانب سے اس کا جواب دیا جانا قدرتی امر ہے۔

اور جب بھی کوئی ایسا واقعہ رونماء ہو گا تو پوری دنیا میں موجود تمام مسلمانوں کی یہی کوشش ہو گی کہ اس شیطان صفت ملعون انسان کو جہنم واصل کر دے۔اس واقعہ کے فوراً بعد فرانس کی پولیس نے کئی لوگوں کوشک کی بنا پر گرفتار بھی کر لیا۔اسی واقعہ کے نتیجہ میں یورپی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی ہے، چند روز قبل اسی طرح کا ایک اور واقعہ پیرس میں رونما ہو چکا ہے جہاں دو مسلمان خواتین جو برقعہ عباء میں ملبوس تھیں کو فرانسیسی گوری خواتین نے چاقوں کے وار کر کے زخمی کر دیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر بار بار حملے کئے جا رہے ہیں، یورپ اور آج کل خصوصاً فرانس میں ایسا لگ رہا ہے کہ یہ دہریئے ، یہودی اورغیرمسلم گوروں کی یہی خواہش ہے کہ مسلمانوں کو یہاں رہنے نا دیا جائے اور ان کو نکال باہر کیا جائے۔

حالانکہ اس سارے واقعہ کو رونماء کرنے والے خود یہی وہ چند ایک گورے یہودی اور غیرمسلم لوگ ہیں، اور اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کی طرف سے اس کا ری ایکشن آیا ہے۔ فرانس اور پوری دنیا کے تمام ممالک کو چاہئے کہ اپنے اپنے ممالک میں ایسا قانون بنائیں جس میں کوئی بھی کسی مذہب کی توہین نا کر سکے۔ اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اسے ایسے ہی ری ایکشن کیلئے تیار رہنا چاہئے۔


 اس سارے واقعے کے بعد فرانسیسی حکومت کے صدر میکرون نے انتہائی منفی رول اداکیا ہے۔دنیا بھر کے مسلم ممالک کے سربراہان کے ساتھ ساتھ ترکی اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی اس موقع پر اس واقع پر مسلمانوں کے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ گزشتہ سال عمران خان تو یو این او میں تقریر کے دوران اور وقت فوقتاً '' اسلام فوبیا'' جیسے حساس معاملے پر پہلے ہی کئی باراظہار خیال کر چکے ہیں۔

ان کے ساتھ ترکی کے صدر نے تو فرانسیسی صدر کو ایک نہیں تین بار اپنی تقریر میں ذہنی مریض قرار دیا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ کسی ذہنی مرض کے ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔کیونکہ فرانسیسی صدر اس اندوہناک واقعہ پر اپنی حکومت کی سپورٹ دے رہے ہیں، ایسے لگتا ہے کہ وہ اس واقع کو کرنے میں ان کا تعاون شامل حال ہے۔ لیکن یاد رکھیں اگر ایسے واقعات کا سدباب نا کیا گیا تو مسلمان اس کے ری ایکشن کے طور پر ہر گستاخ رسول ﷺ کے ساتھ ایسا ہی سلوک روارکھیں گے ۔

چاہئے تو یہ تھاکہ بحیثیت فرانسیسی صدر دانشمندانہ طور پر ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کوئی سخت قانون پاس کراتے اور ایسے واقعات کو آئندہ رونماء ہونے سے روکتے تاکہ کوئی بھی کسی کے مذہب کے بارے میں گستاخی کا ارتکاب نا کر سکے لیکن انہوں نے خود ایسے وقت میں جب پوری دنیا جشن عیدمیلاد البنی ﷺ کی تیاریوں میں مصروف تھی، مسلمانوں کو تکلیف دینے اور ٹھیس پہنچانے کیلئے انہی گستاخانہ خاکوں کے بڑے بڑے بینر اور ہینڈبلز کو فرانس کی سرکاری عمارات پر چسپاں کرایا اور یہی کوشش کی کہ اس سے مسلمانوں کے پیارے نبی محمد ﷺکا مذاق بنایا جا سکے۔

جس پر پوری مسلم امہ نے ناصرف سخت احتجاج ریکارڈ کرایا بلکہ ترکی میں موجود فرانس کے سفیر کو بھی اپنے ملک سے نکل جانے کا عندیہ بھی سنا دیا۔ اسلام آباد پاکستان میں موجود فرانسیسی سفیر کو بھی فوری طور پر دفتر خارجہ طلب کیا اور اس کے سامنے اپنا اور اپنی عوام کی طرف سے بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا، اور فرانسیسی سفیر کو باور کرایا کہ اس عمل سے پوری امت مسلمہ کے دلوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے اور پوری دنیا کے مسلمان بہت غمگین ہیں۔

اس کے ردعمل کے طور پر ترکی کے صدر طیب اردگان کی جانب سے پوری امت مسلمہ سے اپیل کی گئی کہ وہ احتجاج کے طور پر فوراً روزمرہ کے استعمال کی تمام فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔ جس کے جواب میں امت مسلمہ نے لبیک کہتے ہوئے تمام فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ یو اے ای کی بہت سی ریاستوں میں موجود بڑے بڑے سٹوروں سے فرانسیسی اشیاء کے کاؤنٹرز پر موجود روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کو اٹھا کر باہر پھینکنے کا سلسلہ شروع کر دیاجو ابھی تک جاری ہے۔

مبینہ طور پر ایک روز میں فرانسیسی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کرنے پر فرانس حکومت کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ جس سے فرانسیسی کاروباری کمپنیوں کے ہوش ٹھکانے آنے شروع ہو گئے ہیں۔گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیراعظم نے بھی اپنا سخت احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے کہا ہے کہ فرانس کا صدر میکرون اسلام فوبیا کو بڑھاوا دے رہا اور اس کی سرپرستی کرتے ہوئے شدت پسندی کو ہوا دے رہا ہے، عمران خان نے دنیا بھر کو باور کرایا کہ اس کا پوری دنیا کو نقصان تو ہوسکتا ہے فائدہ ہرگز نہیں ہو گا،اس کو ہوش کے ناخن لینے کی بہت سخت ضرورت ہے۔

لیکن اس عقل کے اندھے فرانسیسی صدر کو سمجھ نہیں آ رہا کہ جب تک رہتی دنیا میں کوئی بھی اور کہیں بھی گستاخ رسول ہمارے نبی اکرم محمد ﷺکی شان میں گستاخی کا عمل کرتا رہے گا ، تب تب اس ملعون کو اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے کوئی نا کوئی غازی علم دین شہید جیسا شیردل مسلمان ہتھیار اٹھاتا رہے گا، کیونکہ یہ '' یہ عشق کا سودا ہے'' اسے یہ بدبخت ملعون ، کافر اور گستاخ نہیں سمجھ سکیں گے۔


 میں اپنا کالم مکمل طور پر لکھ چکا تھا لیکن سوشل میڈیا پر ہی کسی محب وطن پاکستانی کا ایک فقرہ دیکھ کر دل چاہا کہ یہ فقرہ اپنے قارئین کے ساتھ لازمی شیئر کروں۔۔آج کل 11 جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے، اور اس دوران اپنے منہ سے بے پر کی اڑاتے ہوئے بہت سے بیانات تو دیئے جاتے ہیں مگر دوسرے ہی روز اس بیان پر اپنی وضاحت دینے کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے۔

پہلے ایک مولانا ابن مولانا اویس نے کراچی کے جلسے میں اپنی زبان سے بک دیا کہ '' ہم بلوچستان کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں'' اور جب اس بیان کے بعد عوامی ردعمل نے سر اٹھایا تو مولانا وضاحت دیتے پھرتے ہیں کہ میرے بیان کو سمجھا نہیں گیا، بندہ اس اس غیرمعروف مولانا سے پوچھے کہ وہ اپنے اکیلے بل بوتے پر تو ایک کونسلر کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتا، اور آج اگر ان سے کہا جائے کہ 5000بندے اکٹھے کر کے دکھا دو، یقیناً اس خودساختہ مولانا ابن مولانا کو '' دندل'' پڑ جائیگی۔

اور اب گزشتہ ہفتے ہی ایک اور مسلم لیگی سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو بھی مسلم لیگ ن نے قربانی کا بکرا بنا کر قومی اسمبلی کے فلور پر ابھی نندن کے متعلق سازشی سا بیان دلوایا،اس بیان کے بعد دنیا بھر کے صحافی اور نیوز اینکر انہیں ڈھونڈے پھر رہے ہیں، پر ایاز صادق کا کہیں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کہاں غائب ہو گئے ہیں؟ سابق سپیکر قومی اسمبلی نے کسی نامعلوم جگہ سے سوشل میڈیا پر اپنا وضاحتی بیان وائرل کیا ہے، اس میں انہوں نے یہی کہا ہے کہ میرے الفاظ کو توڑمورڑ کر پیش کیا جا رہا ہے، میرے کہنے کا مطلب کچھ اور تھا۔

لیکن جس کے کہنے اور جس نیت سے انہوں نے اسمبلی کے فلور پر جو بیان دیا توہر محب وطن پاکستانی نے جس تعداد میں انہیں لعنتوں سے نوازا ہے تو ان کی تعداد کو دیکھتے ہوئے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایاز صادق کو پڑنے والی لعنتوں کی تعداد فرانس کے صدر میکرون کو پڑنے والی لعنتوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔ اب وائرل ہونیوالا وہ فقرہ جس کے باعث مجھے یہ اضافی پیرا گراف لکھنا پڑا کہ '' ضروری نہیں کہ آپ کا کتا ہی وفا دار ہو، کبھی کبھی آپ کا وفادار بھی کتا نکل آتا ہے'' ۔۔۔۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :