جائیداد کی نیلامی،خریداروں کیلئے اچھی خبر

پیر 26 اپریل 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

ایک لمبے عرصے سے مسلم لیگ ن اور اس کے بھگوڑے سربراہ نواز شریف پر جمعتہ المبارک کا دن مبارک ثابت نہیں ہو رہا۔ کافی عرصہ پہلے نواز شریف کو پانامہ کیس اور کرپشن کے لا تعداد کیس جو ان پر ابھی تک چل رہے ہیں، میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑااور اس کے بعد اکتوبر 2020 میں انہیں پلیٹ لیٹس کی جعلی کمی پر ملک سے بھاگنا پڑا، اور ابھی تک موصوف لندن میں موجود تو ہیں لیکن ان کو اس قدر بدنامی اور رسوائی مل چکی ہے کہ وہ اپنی رہائش گاہ سے باہر سر نہیں نکال سکتے۔

کیونکہ لندن میں مقیم اوورسیز پاکستانی جہاں بھی انہیں دیکھتے ہیں، بھرپور طریقے سے آوازیں کستے ہیں، جن کی تاب نا لاتے ہوئے گھرمیں نظربند ہو کر رہ گئے ہیں۔ان گزرے وقت کے متعدد جمعہ کے دنوں میں سے ابھی دو روز قبل ایک اور جمعتہ المبارک کے روز احتساب عدالت کی طرف سے توشہ خانہ ریفرنس 88CRBکیس کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ایسا فیصلہ سنا دیا ہے جو مسلم لیگ ن بالخصوص نواز شریف پر بجلی بن کر گرا ہے۔

(جاری ہے)

عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ نواز شریف کی ساری جائیدادوں کو منظر عام پر لاتے ہوئے انہیں نیلام عام کیا جائے، اور اس نیلامی سے ملنے والا سارا پیسہ سرکاری خزانہ میں جمع کر ایا جائے۔ کیونکہ وہ اشتہاری مفرور ہیں، اور ان پر حکومت پاکستان سے لوٹی جانیوالی اربوں روپے کی ریکوری کیلئے ایسا اقدام کیا جانا نہایت ضروری ہے۔اس فیصلہ میں عدالت نے متعلقہ محکموں کو ایک60 روز کا محدود وقت بھی دیدیا ہے کہ اس محدود وقت کے اندر اندر نواز شریف کی جائیدادوں کو نیلام کیا جائے اور اس تمام کارروائی سے عدالت عالیہ کو آگاہ بھی کیا جائے۔

مبینہ طور پر نواز شریف کے نام پاکستان میں جتنی بھی جائیدادیں اور جہاں جہاں بھی ہیں اگر انہیں نیلام کر دیا جائے ، جو ان کی لوٹی ہوئی دولت کا 10 فیصد عشرعشیر بھی نہیں بنتا۔ لیکن پھر بھی اس ساری کرپشن کی وصولی کی شکل میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگا۔اسلئے اس کے عدالتی احکامات پنجاب حکومت اور متعلقہ محکموں کے سربراہوں کو جاری کر دیئے گئے ہیں۔

اگر اس جائیداد کی تفصیل میں جایا جائے تو لاہور میں نواز شریف کے نام پر جو صرف ایک جائیداد ہے ، یہ 10650 کنال زرعی اراضی ہے ، اس کے علاوہ 110 ایکڑ پر محیط فش فارم ہے،شیخوپورہ میں نہایت قیمتی 2 جائیدادیں ہیں۔ نواز شریف کے5 مختلف بینکوں میں پاکستانی کرنسی کے اکاؤنٹس ہیں، 3 فارن کرنسی اکاؤنٹس ہیں ، ایک اکاؤنٹ امریکی ڈالر میں ، ایک یورو میں اور ایک برٹش پاؤنڈ میں ہے۔

عدالت نے حکم دیا ہے کہ نواز شریف کی 3 کاریں اور 2 ٹریکٹر 30 روز کے اندر اندر نیلام کریں ،اور اس کی تمام تفصیلات عدالت کو فراہم کی جائیں۔ان سب کے علاوہ نواز شریف کی ملکیت میں ایک شاندار بنگلہ مری میں واقع ہے۔ یہ وہی بنگلہ ہے جہاں مریض اعظم اپنے دور اقتدار میں فارغ اوقات میں اور جب ان کا دل دارلحکومت کی گرمی سے گھبرا جاتا تو وہ اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ وہاں سستانے کیلئے جایا کرتے تھے، اور صبح دوپہر شام کا گرم گرم ناشتہ و کھانا لاہور سے سرکاری ہیلی کاپٹر پر لایا جاتا تھا۔

اس بنگلے کو بھی نیلام کرنے کا حکم سنایا گیا ہے۔ لاہور اپر مال پر بھی نواز شریف کی جائیداد ہے جس کو نیلام ہونا ہے۔نواز شریف کے نام ایک بڑی تعداد میں شیئر بھی نیلامی کیلئے پیش کئے جائیں گے۔ اتفاق فاؤنڈری، حدیبیہ پیپرز مل، حدیبیہ ا نجینئرنگ اور بخش ٹیکسٹائل کے تمام شیئرز کو نیلامی کیلئے پیش کیا جائیگا۔حکومت پنجاب کو عدالت کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ ان سب کی نیلامی عمل میں لائی جائے اور اس کے عوض حاصل ہونیوالی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائے۔

مبینہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ اس موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مریم نواز نے بھی اپنا ایک پتہ گیم میں شامل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان ساری جائیدادوں میں میرا بھی حصہ بنتا ہے جو مجھے دیا جائے۔ اس سے قبل انہیں ان کے وکلاء نے بریفنگ میں واضح کر دیا ہے کہ یہ جائیدادیں تو نیلام ہونگی، اس نیلامی کو اب کسی صورت روکا نہیں جا سکتا لیکن اس مسلم لیگ ن کی نانی مریم اعوان کے ذہن میں یہ بات ناجانے کس نے ڈال دی کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی کی مثل پر کاربند ہوتے ہوئے یہ کیس دائر کیا جائے کہ چلو جتنا بھی مال بچایا جا سکتا ہے بچا لیا جائے۔

لیکن نیب نے مریم اعوان کی اس چال کو یہ کہہ کر صفر کر دیا کہ اس جائیداد کی اگر مالکن نواز شریف کی بیوی کلثوم نواز تھیں تو اس میں نواز شریف پہلے ہی لکھ کر دے چکے ہیں کہ کلثوم نوازانڈیپنڈینٹ ہیں، اس صورت میں مریم اعوان یا ان کی اولاد کا کوئی حصہ نہیں بنتا، کلثوم نواز کے انتقال کے بعد یہ جائیداد سیدھی سیدھی ان کے شوہر کی ملکیت ہیں۔ اب آنے والے وقت میں پاکستان عوام دیکھ سکے گی کہ کس طرح پاکستان کو نوچ نوچ کر کھانے والوں کے پیٹ سے حرام کا مال نکلوایا جاتا ہے ، کیونکہ اس عمل کی ابتدا ہوا چاہتی ہے۔


دوسری طرف لندن برطانیہ میں اربوں روپے کی کرپشن کے عوض بنائے گئے ایون فیلڈ کے اردگرد رہائشی ہمسایئے بھی خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ آئے روز برطانیہ میں مقیم اوورسیز پاکستانی ان کی رہائش گاہ کے باہر جلوس کی شکل میں اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنی بڑھاس نوازشریف ، ان کے بیٹوں اور مسلم لیگ ن کے خلاف نعرہ بازی کرکے نکالتے ہیں جس سے شریف فیملی خود تو پریشان ہیں ہی لیکن ان سے زیادہ ان کی رہائش گاہ کے دائیں بائیں رہنے والے ان کے ہمسایئے اس شورشرابے سے بہت تنگ آ چکے ہیں۔

اس کی اطلاع وہ پولیس کو دیتے تو ہیں اورایسے مواقع پر پولیس کی ایک بھاری نفری اکٹھی بھی ہو جاتی ہے اور اکٹھے ہونے والے اوورسیز پاکستانیوں کو منتشر کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ ان نعرے لگالنے والے اوورسیز پاکستانیوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ ان کے پرجوش نعروں کو خاموش نہیں کرا سکتے، جو اکثر و بیشتر ایوان فیلڈ کے سامنے اکھٹے ہوتے رہتے ہیں۔

اور خود مریض اعظم کیرو کی بانسری ہاتھوں میں تھامے اور ہونٹوں کیساتھ لگائے سب اچھا ہے کی آواز میں بدمست ہیں، اور جب کبھی خطاب کرنے کا نشہ ٹوٹتا ہے تو آن لائن اپنے مسلم لیگ ن کے پٹواریوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی فوج پر گرجتے برستے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ڈرنے والے نہیں اور نا بھاگنے والوں میں سے ہیں، اور پٹواری حضرات واہ واہ کہتے ہوئے ان کے پلیٹ لیٹس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔


ابھی چند ماہ قبل پاکستان کے تقریباً تمام اخبارات اور دیکھے جانے والے سبہی ٹی وی چینلز پر ایک خبر بریک کی گئی اور سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر حکومت کے اس فیصلہ کو سراہا گیا کہ ملک بھر کی عدالتوں میں موجود بے شمار مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے 120 مزید عدالتیں قائم کی جائیں گی، اسی تعداد میں نئے جج تعینات کئے جائیں گے تاکہ عدالتوں میں سنے جانے والے مقدمات کا رش کم ہو اور ہر مقدمے کا فیصلہ ایک ٹائم ورک کے تحت نبٹائے جانے کے بعد فیصلہ جلد از جلد سنایا جائے۔

اس حکومتی فیصلے کو عوامی سطح پر خوب پذیرائی حاصل ہوئی اور ان متاثرہ افراد کو امید کی کچھ کرن دیکھنے کو ملی لیکن دوسری تمام خبروں کی طرح یہ خبر بھی ماضی کا حصہ بن گئی،اور عوام بھی اس خبر کو اب بھول گئے۔ پاکستان کا کوئی محکمہ ایسا نہیں جہاں کرپشن، لوٹ مار اور رشوت ستانی کا بازار گرم نا ہو۔ ہر جائز و ناجائز کام کو کروانے کیلئے گویا قائداعظم کی تصویر کے نیلے اور کھٹے نوٹوں کے بغیر کام چلتا ہو۔

اور یہ کام دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ اس پر قابو نا پایا جا سکا اور لگتا ایسا ہی ہے کہ آئندہ کبھی قابو پایا جا سکے گا۔عدالتوں میں دائرکچھ مقدمات کا تو یہ عالم ہے کہ دادا پڑدادا کے زمانے کے کیس ابھی تک زیر التوا ہیں، کچھ مقدمات کے اندراج کرانے والے اور نامزد ملزم بھی اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن ان کے مقدمات پر نا کوئی فیصلہ آیا ہے نا آئیگا۔

ان مقدمات کی پیشیاں بھگت بھگت کر عوام اس قدر تنگ آ چکے ہیں کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی یہاں کسی عدالت میں ملازم ہیں اور ہر روز انہیں اس کی پیروی کیلئے کسی نا کسی وکیل کی جیب گرم کرنی پڑتی ہے اور ان کی حاضری عدالت کے اردگرد بنے ہوئے وکیلوں کے تھڑے نمادفاتر میں دینی ایسے ہی ضروری ہے جیسے وہ بھی انہی عدالتوں کے وکیلوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

اسی ذہنی کرب میں مبتلا بے شمار افراد جو احاطہ عدالت میں بھٹکتے پھرتے ہیں، ہر ایک کی زبان پر ایک نئی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ اور کچھ عرصہ قبل 120 نئے ججوں کی تعیناتی اور 120 ہی نئی عدالتوں کے قیام کا لالی پوپ عوام کو دیدیا گیا جس کا فائدہ ابھی تک تو کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آ رہا۔پچھلی کئی حکومتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف کے دور اقتدار میں بھی اسی قسم کے ناجانے کتنے لالی پوپ عوام کو دیئے جا چکے ہیں، اور ہماری پاکستانی عوام انہی لالی پوپ کو چوس کر ہی اپنا وقت گزار رہی ہے۔

اب دیکھا جائے تو یہ لالی پوپ چیز ہی ایسی ہوتی ہے جسے چوسنے کیلئے منہ میں رکھنا پڑتا ہے اور جب کوئی لالی پوپ چوس رہا ہو تو اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نکل نہیں پاتا۔ تحریک انصاف کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ پاکستان کے امیر سے امیر ترین بندے سے لیکر غریب سے غریب ترین کو انصاف اس کے گھر کے دروازے پر مہیا کیا جائیگا، گھر تو چھوڑ انہیں انصاف وہاں بھی نہیں ملتا جہاں سے اصل میں ملنا چاہئے۔ ارباب اختیار سے اس مسئلے پر بھی توجہ کرنے کی نہایت اشد ضرورت ہے کیونکہ جب غریب آدمی کے سر پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کھاتے پیتے لوگوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس ایسا کچھ نہیں ہوتا جسے وہ کھونے کی فکر کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :