ریورس سوئنگ

بدھ 22 جولائی 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

عمران خان کی سیاسی انٹری کے بعد پاکستان کی سیاست میں کرکٹ کی اصلاحات کا استعمال شروع ہوا۔کبھی ایمپائر کی انگلی اُٹھنے کو حکومت کے جانے سے تشبیہ دی گئی۔تو کبھی شیفاف الیکشن کے لیے نیوٹرل ایمپائر کے الفاظ استعمال ہوئے۔ الیکشن کے بعد پنجاب کی وزرات اعلی کے لیے جب سردار عثمان بزدار کا نام فائنل ہوا۔ تو میڈیا اور سیاسی حلقوں میں ان کی قابلیت پر سوال اٹھنا شروع ہوئے۔

عمران خان کے کانوں تک بھی عثمان بزدار کے خلاف ہونے والی باتیں پہنچی۔تو عمران خان نے عثمان بزدار کا حوصلہ بڑھانے کے لیے انہیں اپنے سب سے قابل اعتماد باؤلر وسیم اکرم کی مانند قرار  دیا۔اور یہی نہیں بلکہ عثمان بزدار کو وسیم اکرم سے بھی بڑھ کر وسیم اکرم پلس قرار دیا۔
پنجاب انتظامی لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔

(جاری ہے)

صوبہ پنجاب چلانے کہ لیے ایک مضبوط اور زیرک وزیر اعلی کا ہونا بہت ضروری ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کی یہ خواہش تھی کہ وہ وزیر اعلی پنجاب بنیں۔ ان رہنماؤں میں شاہ محمود قریشی،علیم خان اور موجودہ گورنر چوہدری محمد سرور قابل ذکر ہیں۔ الیکشن سے پہلے چودھری سرور اس ریس سے باہر ہوگئے اور انہوں نے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کر دیا۔ شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی کی سیٹ تو جیت گئے مگر وہ تحریک انصاف سے ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض رہنما سلمان نعیم سے صوبائی نشست ہار گئے۔

علیم خان صوبائی اسمبلی کی نشست تو جیت گئے لیکن ان پر نیب کیسز کی وجہ میڈیا نے کافی شور مچایا اور یوں وہ بھی اس ریس سے باہر ہوگئے۔
پنجاب میں تحریک انصاف نے الیکشن میں مسلم لیگ ن سے کم نشستیں جیتیں ۔ پنجاب اسمبلی میں اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے اراکین کی تعداد تقریباً ایک جیسی ہے۔ تحریک انصاف کے قابل اور سینئر رہنما اپنی اپنی وجوہات کی وجہ سے وزرات اعلی کی ریس سے باہر ہوگئے۔

الیکشن کے بعد تحریک انصاف کے پاس ایک تو نشستیں کم تھیں۔دوسرا اُنکا کوئی سینئر رہنما وزرات اعلیٰ کا منصب سنبھال نہیں سکتا تھا۔ ان حالات میں قیادت کا ایک بحران پیدا ہوا اور بالآخر سردار عثمان بزدار کو اس عہدے کے لیے نامزد کر دیا گیا۔اور وجہ یہ پیش کی گئی کے عثمان بزدار ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اتنے پسماندہ علاقے سے ہیں کہ ان کے گھر میں بجلی تک نہیں ہے۔

عمران خان کرکٹ ہی کے زمانے سے نئے لوگوں کو چانس دینے کے حامی تھے۔یہاں بھی انہوں نے ایک نئے گمنام آدمی کو وزرات اعلیٰ سونپ دی۔اور اُمید ظاہر کی کہ وہ وسیم اکرم کے طرح ان کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہونگے۔
تقرری کے بعد وسیم اکرم پلس کی کارکردگی اور اہلیت پر سوالات اٹھنے لگے۔عمران خان نے حسب روایت اپنے کھلاڑی کو بیک اپ کیا اور اُمید لگائی رکھی کے شاید وسیم اکرم پلس کچھ عرصے بعد پرفارمنس دینی شروع کر دے۔

کیوں کہ اصلی وسیم اکرم جب شروع میں آؤٹ نہیں کرتا تھا تو بال پرانی ہونے کے بعد ریورس سوئنگ کے ذریعے مخالف ٹیم کو تگنی کا ناچ نچا دیتا تھا۔ ریورس سوئنگ بنیادی طور پر بال کو ایک طرف سے تھوک لگا کر چمکانے سے ہوتی ہے۔ اب اگر کرکٹ کی زبان میں یہ تجزیہ کیا جائے کے وسیم اکرم پلس کی کارکردگی جو آب تک کافی کمزور ہے آگے کیسی رہے گی۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ آب کرونا وائرس کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے تھوک سے بال چمکانے پر پابندی لگا دی ہے۔

اگر بال چمکے گا نہیں تو یقیناً ریورس سوئنگ بھی نہیں ہوگا۔ وسیم اکرم پلس نئے بال سے تو ناکام رہے لیکن آب ریورس سوئنگ ہونے کی بھی کوئی اُمید نظر نہیں آرہی۔ ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان کو وسیم اکرم پلس کی جگہ ایک ایسے باؤلر کی ضرورت ہے جو کہ تیز اور اچھی لائن پر گیند پھینک سکے۔ کیوں کہ کسی بھی حکومت کی کامیابی کے لیے پنجاب میں پرفارم کرنا لازم ہے۔ اگر پنجاب کی کارکردگی ٹھیک نہ ہوئی تو عمران خان کے لیے دوسری بار وزیر اعظم بننامشکل نہیں بلکہ ناممکن بن جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :