عرب اسرائیل معاہدے

جمعرات 17 ستمبر 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

آج عرب دنیا میں ماحول بدل رہا ہے۔ وہ عرب جنہوں نے 1967 میں مل کر اسرائیل سے جنگ لڑی تھی۔ آج وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کی ابتداء کر رہے ہیں۔ ان تعلقات کی اس وقت پر ابتداء اور ان کو سہولت دینے میں امریکا پیش پیش ہے۔ اور امریکی صدر ٹرمپ خود پریس کانفرنس کر کے ان معاملات کو دنیا کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
امریکی صدر ان معاملات میں دلچسپی اس لیے لے رہے ہیں کہ امریکا میں اگلے الیکشن نومبر میں ہونے والے ہیں۔

پچھلی بار 2016 میں صدر ٹرمپ جیت کے لیے درکار سیٹِس تو جیت گئے تھے۔لیکن ان کے کل ووٹ مدمقابل ہیلری کلنٹن سے کافی کم تھے۔ ٹرمپ نے کچھ ریاستوں کے الیکٹرول کالج ایک سے بھی کم فیصد کے مارجن سے جیتے تھے۔ اب اس بار الیکشن میں ان سوئنگ اسٹیٹس میں ماحول کافی بدل چکا ہے اور یہ اُمید کی جارہی ہے کہ ان ریاستوں کے الیکٹورل کالج ٹرمپ نہیں جیت پائیں گے۔

(جاری ہے)

اس لیے ٹرمپ کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے کچھ بڑا کرنے کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے داماد جیرینڈ كرشنر کو ایک ٹاسک دیا۔ جیرنیڈ کرشنر نے ٹرمپ کو تجویز دی کہ وہ امریکی سفارت خانے کو اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دے اور یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے۔ امریکا کی سینیٹ پہلے ہی سے یہ بل منظور کر چکی ہے۔

اور سینیٹ نے صدر کو اختیار دیا ہے کہ وہ مناسب وقت آنے پر صدارتی حکم کے ذریعے سفارت خانہ منتقل کر دے۔ یہ بل ہر چھ ماہ بعد صدر کی میز پر آتا تھا۔ مگر صدر اس کو موخر کر دیتا تھا۔ ٹرمپ نے اس کو موخر کرنے کی بجائے سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اس کے بعد اس سال کے اوائل میں صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں اسرائیل فلسطین مسئلے کے حل کے لیے ایک ڈیل پیش کی۔

جیسے ڈیل آف دے  سنچری کا نام دیا گیا۔ اس ڈیل کو مسلم امہ نے مسترد کر دیا۔ اور پھر کرونا کی وجہ سے یہ معاملہ کچھ عرصے کے لیے دب گیا۔
جولائی کے آغاز میں اسرائیلی حکومت نے یروشلم اور اس کے ساتھ ملحقہ علاقے ویسٹ بینک کو غیر قانونی طور پر کنٹرول میں لینے کا اعلان کیا۔ ایک بار پھر شور شرابا شروع ہوا اور اسرائیل کو یہ پلان موخر کرنا پڑگیا۔

امریکا اور اسرائیل کو اندازہ ہوگیا کہ یروشلم اور ویسٹ بینک کے الحاق کے لیے مسلم امہ کی تقسیم بہت ضروی ہے۔اس لیے انہوں نے عرب ممالک سے بات چیت شروع کی اور سب سے پہلے 13 اگست کو یہ اعلان ہوگیا کہ یو اے ای نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ اس کے کچھ دنوں بعد بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران ان ممالک کے نمائندوں کے درمیان ایک ایگریمنٹ پر دستخط کروادیے۔

اس اگریمینٹ کو ابراہیم ایگریمنٹ کا نام دیا گیا۔ کیوں کہ مسلمان اور یہودی دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک ہی عقیدے کے مطابق مانتے ہیں۔
اس تمام معاملے کہ بعد یہ چہ مگویاں شروع ہوئیں کہ بہت جلد سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے گا مگر سعودی دفتر خارجہ نے نے ایک بیان میں واضح کر دیا کہ سعودی عرب اس قسم کے معاملات سے علحیدہ ہے۔

لیکن حیران کن بات یہ کہ جب اسرائیل کا جہاز یو اے ای جارہا تھا۔تو سعودی نے اس جہاز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب ان معاملات کچھ حد تک فریق ضرور ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ٹرمپ سے بہت اچھے روابط ہیں۔ محمد بن سلمان اس وقت خاندانی لڑائیوں کی زد میں ہے۔ محمد بن سلمان اگر بادشاہ بننا چاہتا ہے تو اس کے لیے اسے مضبوط اتحادی کی ضرورت ہے۔

جو کے ٹرمپ کی صورت میں اس کے پاس موجود ہے۔ سعودی میں اس وقت اقتدار کے لیے تین لوگ آمنے سامنے ہیں۔جن میں ولی عہد محمد بن سلمان، معزول ولی عہد محمد بن نایف اور بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کا چھوٹا بھائی احمد بن عبدالعزیز شامل ہیں۔ اس وقت محمد بن سلمان نے دونوں امیدواروں کو قید کر رکھا ہے۔مگر ان دونوں کے وجود سے انکار محمد بن سلمان کے لیے  ممکن نہیں ہے۔

اس لیے محمد بن سلمان کی یہ خواہش ہے کہ اس کا دوست ٹرمپ الیکشن جیت جائے۔تا کہ اسے سپورٹ ملتی رہے۔
اس وقت عرب ممالک ایک امریکی صدر کی کرسی بچانے کے لیے اپنے فلسطنی بھائیوں کی پیٹ میں زہریلا خنجر گھومپ رہے ہیں۔ لیکن شاید ان عربوں کو نہیں پتہ کے جب 1939 میں یورپی ممالک نے چیکو سلواکیہ پر ہٹلر کے قبضے کو تسلیم کر لیا۔ تو ہٹلر نے سوچا کہ یہ یورپی مجھ سے ڈرتے ہیں۔ پھر اس نے جو یورپ کے ساتھ کیا وہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔ اگر عرب اسرائیل کے اس قبضے کو آج تسلم کر رہے ہیں تو انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں ان عربوں کے ممالک کے حصے بھی شامل ہیں۔ یہ خنجر آج فلسطینوں کی پیٹ میں ہے مگر اس خنجر کا اگلا وار ضرور ان عربوں میں سے کسی ایک ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :