انقلابی سیاست

اتوار 4 اکتوبر 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور بھارتی سیاسی استحکام کی وجہ شاید یہ ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان کے کرتا دھرتا قائد اعظم محمد علی جناح بہت جلد دنیا سے رحلت کر گئے۔ جبکہ دوسری جانب ہندوستانی لیڈر جواہر لال نہرو 1964 تک حیات رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بھارت کو ایک مضبوط آئین دیا اور جمہوری نظام کی جڑوں کو مضبوط سے مضبوط تر کیا۔

یہاں پاکستان میں قائد کی وفات کے بعد سیاسی لیڈران کرسی کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ اول آئین سازی میں بہت تاخیر کی اور پھر اس آئین کو ناکام بنانے کے لیے سیاسی لیڈران نے ہر حربہ استعمال کیا۔ اسی وجہ سے آئین نہ چل سکا اور ملک کے صدر نے خود عسکری قیادت کو ملک کی سیاست میں انٹری دے دی۔ اس کے بعد ملکی سیاست میں سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کی لڑائی کا آغاز ہوا۔

(جاری ہے)

دنیا کے بہت سے ممالک میں مارشل لاء لگ چکے ہیں۔لیکن پاکستان ان ممالک میں بھی ایک منفرد اعزاز رکھتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مارشل لاء کا چیف ایڈمنسٹریٹر ایک سویلین رہا ہے۔اور ملک کا چیف ایگزیکٹیو ایک فوجی جرنیل رہا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر اپوزیشن عسکری قیادت پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگا رہی ہے۔ عسکری قیادت اس الزام سے تو انکاری ہے مگر اس موقف پر قائم ہے کہ وہ جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔

حالیہ اے پی سی میں انقلابی قائد میاں نواز شریف نے اداروں پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اگر عسکری قیادت  سیاست میں مداخلت ختم نہیں کرے گی تو وہ بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا دیں گے۔  میں سے سمجھتا ہوں کہ ان رازوں سے پردہ ضرور اٹھنا چاہئے اور عوام کے سامنے حقائق ضرور رکھنے چائیے۔
1994 میں جب ساؤتھ افریقہ میں نیلسن منڈیلا کا انقلاب کامیاب ہوا اور وہ حکومت میں آئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ جانبدار سفید فام لیڈروں کو معافی ملے گی۔

لیکن معافی کی شرط یہ ہوگی کہ یہ تمام لیڈران عوام کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ جان پرکنز جو کہ امریکی کارپوریٹ مارکیٹ کے  اکنامک ہٹ مین تھے۔ انہوں نے بھی اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ کیسے انہوں نے امریکا کو مالی فائدہ پہنچانے کے لیے پانامہ اور  وینیزویلا صدور کو قتل کیا اور انڈونیشیا میں غلط اعداد و شمار کے ذریعے ان کی ایکونومی کو تباہ کیا۔

ان انکشافات کے بعد جان پرکینز کے لیے لوگوں کے دلوں میں اچھی خاصی ہمدردی پیدا ہوئی۔حالانکہ خود جان پرکنز ان تمام معاملات کا گنہگار تھا۔
میاں صاحب کو بھی چائیے کے وہ اب اپنے رازوں سے پردہ اٹھائے جس طرح ان ہی کے پارٹی کے رہنما خواجہ آصف نے اسمبلی کے فلور پر کہا کہ ان کے والد نے ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا جس پر وہ قوم سے معافی مانگتے ہیں۔

میاں صاحب اپنی کہانی وہاں سے بیان کرے کہ جب جنرل جیلانی نے روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر ضیاء شاہد سے ان کو متعارف کروایا تھا اور ان سے کہا تھا کہ اس لڑکے کی ذرا سیاسی تربیت کر دیں۔ اس بات میں کوئی شق نہیں کے اس وقت جیتنے راز میاں صاحب کو پتہ ہیں اتنے شاید ہی کسی کو پتہ ہوں۔ میاں صاحب یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے دل کے راز ایک دن بتائیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے راز دنیا کے سامنے لائیں۔

اس سے لوگوں کے دلوں میں میاں صاحب کے لیے پیار میں یقیناً اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ میاں صاحب نے جمہوریت کی خاطر اپنی ذات کے قربانی دے دی ہے۔ ویسے بھی اے پی سی میں حقائق کی چھان بین کے لیے ایک کمیشن کے تجویز دی گئی ہے۔ اب حقائق سے روشناسی کے لیے اور انقلاب برپا کرنے کے لیے سب سے پہلے لیڈر کو ااپنی ذات کی قربانی دینی ہوگی۔ ورنہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔اور مفاد پرست ٹولہ فائدہ اٹھاتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :