سیاسی میچ

اتوار 18 اکتوبر 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

پاکستانی سیاست کے نئے سیزن کا آغاز ہو چکا ہے۔ سیزن کا پہلا میچ گوجرانوالہ میں کھیلا گیا۔جس میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن نے ٹاس جیت کر پہلے خود جلسہ منعقد کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس میچ میں جمہوری تحریک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے کپتان مولانا فضل الرحمن، ن لیگ کی جارح مزاج لیڈر مریم نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے حادثاتی چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے ساتھیوں سمیت شرکت کی۔

ان کے علاوہ دیگر  سیاسی پارٹیوں نے بھی اس میچ میں شرکت کی اور کل گیارہ جماعتوں کے کھلاڑی اس میچ کے موقع پر موجود تھے۔ اس ٹیم کے کوچ میاں نواز شریف نے لندن سے بیٹھ کر ٹیم کو ہدایت دیں۔ میچ کے موقع پر کچھ کھلاڑی شرکت نہ کر سکے۔جن میں سینئر کھلاڑی شہباز شریف کو امپائر نے اپنے ساتھ بیٹھا رکھا ہے۔

(جاری ہے)

اور پی ٹی ایم کے محسن داوڑ پلیئنگ الیون میں جگہ نہ بنے کی وجہ شرکت نہ کر سکے۔


اس میچ سے پہلے مسلم لیگ ن کے وکٹ کیپر محمد زبیر جن کی آواز آج کل سٹیمپ مائک سے بہت زیادہ آرہی ہے۔ ان کو تھرڈ امپائر کے پاس ڈی آر ایس ریویو کے لیے بھجا گیا مگر وہ ریویو ضائع ہوگئی اور اب وہ وکٹوں کے پیچھے سے ہر بال پر آؤٹ کی اپیلیں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ میچ بنیادی طور پر ایک لیگ طرز کا میچ تھا جس میں بہت سی ٹیموں کے کھلاڑی ایک ساتھ کھیل رہے تھے۔


ٹیم کے کوچ میاں نواز شریف جن کے امپائر فکسنگ کی کہانیاں سینئر صحافی حامد میر بھی سنا چکے ہیں۔وہ آتے ساتھ ہی مخالف ٹیم کی بجائے امپائر کو سنانے لگ گئے اور ساتھ میں انہوں نے میچ ریفری کو بھی خوب سنا دیں۔ لندن سے بیٹھ کر ایک زبردست انقلابی تقریر کی اور میدان میں موجود عوام کو محظوظ کیا۔ مگر کوچ جو کہ بیماری کا بہانہ بنائے باہر موجود ہے پتہ نہیں  کب تک باہر سے ہدایات دے گا ۔

یہ کسی کو معلوم نہیں۔ لیکن ان کی کل کی تقریر سے تو لگتا ہے۔ کہ وہ بھی اندلس کے ساحل پر کشتیاں جلا چکے ہیں۔
اس جلسے میں کوچ کے خطاب کے بعد بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کی گئی اور سب سے پہلے جارح مزاج مریم نواز کو تقریر کرنے کے لیے میدان میں بھیج دیا گیا۔ تقریر تو انکی وہی پرانی تھی مگر انہوں نے فاطمہ جناح کی تعریفیں کر کے میچ کے منتظم خرم دستگیر خان کو ضرور شرمندہ کیا ہوگا۔

کیوں کہ اُن کے والد نے فاطمہ جناح کے الیکشن میں ایک کتیا کو لالٹین پہنا کر اسکو گجرانوالہ کا چکر دیا تھا۔کیوں کہ محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین تھا۔ مریم نواز کے خطاب کے بعد وہ ہوا جو اکثر گراؤنڈ میں شاہد آفریدی کے آؤٹ ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ جیسے ہی مریم کا خطاب ختم ہوا پنڈال خالی ہونا شروع ہوگیا۔ یوں یہ بیٹنگ آرڈر کی تبدیلی کہ فیصلہ غلط ثابت ہوا اور میزبان کو پہلے خطاب کروا کر میدان خالی کرا دیا گیا۔


پیپلز پارٹی کے چیئرمین وہ واحد رہنما تھے جنہوں نے اس او پیز کا خیال رکھا اور ماسک پہنے رکھا۔لیکن جب وہ اپنی باری کھیلنے آئے تو انہوں نے اپنے کپتان مولانا فضل الرحمن کے اس او پیز کو فالو نہیں کیا اور جیے بھٹو بینظیر کی دھن پر اسٹیج پر ناچنے لگے۔یوں جو طعنہ مولانا عمران خان کو دیتے تھے وہ خود انکے اسٹیج پر ہوگیا۔بلاول بھٹو کی تقریر بھی حسب روایت پرانی ہی تھی مگر وہ واحد بلےباز جنہوں نے کشمیر پر بات کی۔

کشمیر جو کہ پیپلز پارٹی کے معرضِ وجود کی وجہ ہے اس پر بات کرنا خوش آئند ہے۔
آخر میں کپتان مولانا فضل الرحمان کی جب باری آئی تو پنڈال تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ مولانا جو پہلے ہی سے اپنی ٹیم پر برہم ہیں انکے غصے میں یقینا مزید اضافہ ہوا ہوگا۔ اس میچ میں جو سب سے بڑی غلطی اپوزیشن کی ٹیم نے کی وہ یہ تھا کہ ہر لیڈر جلوس کی شکل میں میدان میں آرہا تھا۔

جس کی وجہ سے کافی ٹائم ضائع ہوا۔ گراؤنڈ پانچ بجے کے قریب ہاؤس فل ہوگیا تھا۔ مگر کھلاڑیوں کی تاخیر سے آمد کی وجہ سے آدھے تماشائی پہلے ہی سے چلے گئے اور پھر ریلی کے ساتھ آنے والے لوگوں ان جگہ لے لی۔ یوں ایک اچھا پنڈال نہ سج سکا۔ اور ٹی وی پر بھی پرائم ٹائم سے استفادہ حاصل نہ کیا جا سکا۔ رات گئے میچ کا اختتام ہوا۔ اپوزیشن اور حکومت حذب روایت جیت کے دعوے کر رہی ہے۔ اس سیزن کا اگلا میچ 18 نومبر  کراچی میں ہوگا۔ یہ میچ اس او پیز میں ہوگا۔ پنڈال میں سماجی رابطہ رکھنے کے لیے کرسیاں دور دور لگائی گئی ہیں۔ اور ایک لاکھ ماسکس کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :