2018ء کی تبدیلی سے پہلے کا پاکستانی میڈیا!

جمعرات 9 جولائی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

گزشتہ دنوں میں نے ایک خبر جناب وزیرِاعلٰی پنجاب عثمان بزدارصاحب سے متعلق ٹیلی ویژن چینل پر دیکھی ۔جس کاواقعہ کچھ یوں تھاکہ اُس ٹی وی چینل نے سی ایم پنجاب صاحب کا انٹرویو شیڈول کیا ہوا تھا۔اُس انٹرویو سے متعلق سوالات اور تفصیلات بزدار صاحب کو پہلے سے فراہم کردی گئیں تھیں۔اُس انٹرویو میں بزدار صاحب کو چند رٹے رٹائے سوالات کے جوابات دینا تھے اوربس یہ تھا انٹرویو۔

جبکہ صحافت کے آداب اوراسلوب کے مطابق میزبان انٹرویو کے سوالات مہمان پر انٹرویو سے پہلے عیاں نہیں کرتا، ہاں یہ عین ممکن ہے کہ میزبان انٹرویو کے عنوان(ٹاپک)سے متعلق مہمان کو پہلے سے آگاہ کردے یا مہمان اگرکسی خاص موضع سے متعلق بات نہ کرنی چاہے تو وہ میزبان کو پہلے سے بتادے، تو یہ عام بات ہے۔

(جاری ہے)

لیکن انٹرویو کے سوالات مہمان پر پہلے سے عیاں کردینا، انٹرویو کو مشکوک اور plantedبنادیتا ہے۔

لیکن پھر بزدار صاحب کیلئے پہلے سے بتائے گئے سوالات والا انٹرویو ہی سہی!اب یہاں پر حیران کن اور قابلِ فکربات یہ ہے کہ بزدار صاحب اِس پہلے سے طے شدہ اور پلانٹڈ انٹرویو سے بھی بچ نکلے اور عین موقع پر انٹرویو منسوخ کردیا۔یہ بہت ہی حیران کن اور باعثِ شرم بات ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کا وزیرِاعلٰی اتنا بھی خود اعتماد نہیں کہ ٹی وی اینکرز کے پہلے سے طے شدہ سوالات کے جوابات دے سکے،یا لوگوں کا سامنا(face)کرسکے۔

وزیرِاعلٰی پنجاب میں confidenceکی کمی اور بھولے پن کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج تک اِس پوری کرونا کیمپین کے دوران ایک بار بھی کسی ٹی وی چینل یا کسی عوامی فورم پر آکر اُنہوں نے قوم یا عوام کو کرونا کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے یا ان میں کرونا آگاہی سے متعلق کوئی بیان دیا ہو یا ہدایات دی ہوں۔جبکہ اِس سارے معاملے کے دوران وزیرِاعلٰی سندھ فرنٹ لائن پرآکر عوام میں کرونا آگاہی اور احتیاطی تدابیرپر بریفنگ دیتے رہے اور اِس سارے مشن کو لیڈ کرتے رہے لیکن اِس کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے اُن پر publicity stuntکے الزامات لگتے رہے۔


تو آج پاکستانی میڈیا بزدار صاحب کے انٹرویو پر اِس قدر تلملا رہا ہے یہ میڈیا ہی دراصل اِس تبدیلی کو لیکر آنیوالا ہے ۔آج جن اینکر پرسن کا انٹرویو cancelہوا ہے یا اگر کسی صحافی کو فیصل واڈوا صاحب کی طرف سے گالیاں پڑی ہیں یا نازیبا زبا ن استعمال کرنے کا رنج ہواہے تو اُن اینکر پرسنز، صحافی صاحبان اور چینل 92کی طرح کے میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو سوچنا چاہے جنہوں نے 2018ء کے انتخابات سے پہلے نام نہاد تبدیلی کا بابنگِ دہل پرچار کیا۔

اُس وقت تو یہ سارا پاکستانی میڈیا عمران خان کو ملک کے تمام مسائل کا نجات دہندہ اور نواز شریف کو بغیر تحقیق کیے تمام مسائل کی وجہ بتا رہا تھا۔2018ء کے الیکشن سے پہلے پاکستانی میڈیا ہاؤسز کی رپورٹنگ کو اُٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو یہ میڈیا ہاؤسز کس طرح پی ٹی آئی کے ایجنڈے کو پروموٹ کرتے دکھائی دیں گے۔تو آج تمام میڈیا ہاؤسز، پاکستان اور عوام اِس بغیر تحقیق کے رپورٹنگ اور biased reportingکا خمیازہ رہے ہیں ، جس میں ایک میڈیا ہاؤس کا مالک 100روز سے زیادہ سے گرفتار ہے، ایک دوسرا ٹی وی چینل بند کردیا گیا ہے اور ایک تیسرا میڈیا ہاؤس بزدار صاحب کے انٹرویو کی منسوخی کی آہ وپکار کر رہا ہے۔

حکومتی وزراء اور مشیروں کی ڈھٹائی ، ہٹ دھرمی اور صحافیوں سے بدزبانی کے واقعات روزبروز بڑھ رہے ہیں، جن میں فیصل واڈوا کا غصیلا ٹویٹ ہو، زرتاج گل صاحبہ کے کروناسے متعلق 19نکات ہوں یا پی ٹی آئی کے وزراء کی میٹھی اور شائشتہ زبان ہو۔اِس سب کا ایک بڑا ذمہ دار 2018ء کا میڈیا تھاجس نے انکی اندھا دھند سپورٹ کی۔
ملک میں عدم برداشت اور گالم گلوچ کی جو گٹھیا روایات عمران خان اور طاہرالقادری صاحب کی کنٹینر کی سیاست کے دوران پروان چڑھیں ،اِس عدم پرداشت اور بدزبانی کی فصل آج پاکستان کاٹ رہا ہے۔

آج حکومتی وزیر اپنے پر تنقید برداشت کرنے کی بجائے اپنے قائد جناب کپتان صاحب کی روش پر چلتے ہوئے گالی گلوچ پر اُتر آتے ہیں۔ یہ سب اُس وقت 2018ء کے میڈیا کی کارستانیاں ہیں جو اِن دونوں حضرات کو انقلاب کا نجات دہندہ سمجھتا تھا اور انکے اعلامیے کا بغیر سوچے سمجھے پرچار کیا کرتا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی اور پرفارمنس توایک طرف، اُنکے وزراء کے رویے ، سطحی نالج اور اڈیل پن اپنی مثال آپ ہے۔

اور یہ اپنی مثال آپ کیوں نہ ہو،کیونکہ عمران خان صاحب نے 2013ء سے لیکر 2018ء تک کیا کیا، سوائے اسکے کہ گالی گلوچ، سیاسی مخالفین کی کردارکشی اور لعن طعن۔خان صاحب ، شہباز شریف کی میٹرو اور اورنج ٹرین سے متعلق کہا کرتے تھے کہ انہیں صرف سڑکیں اورپُلیں بنانے کی پڑی ہے تاکہ ان پراجیکٹس میں شریف خاندان کا سریا بِک سکے، لیکن خان صاحب کی حکومت چار سالوں میں BRTپشاور مکمل نہ کرسکی۔

اور اسی طرح پی ٹی آئی کی حکومت کے دو سالوں کے باوجود بھی لاہور کی اورنج ٹرین مکمل نہ ہو سکی ، جبکہ شہباز شریف نے لاہور میٹرو، اسلام آبا دمیٹرو اورملتان میٹرو کے پراجیکٹس مکمل کیے۔
تو اسطرح 2018ء کے الیکشن کا سٹیج سیٹ کرنے کے لیے پاکستان کے میڈیا ہاؤسز خریدے گئے۔ طاہرالقادری صاحب کی صورت میں کینیڈاکی ٹھنڈی ہواؤں سے لوگوں کو بلایا گیا اور عوام کو تبدیلی کا سبز باغ دکھا کراُن سے پرانا پاکستان بھی چھین لیا گیا۔

آج وہی قادری صاحب کینیڈا کی ٹھنڈی ہواؤں میں واپس جا کر اسلام کی تحقیق میں مشغول ہوگئے ہیں، جبکہ ملک عمران خان کی قیادت میں دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے، اور پیچھے رہ گئے میڈیا ہاؤسزوہ وسیم اکرم پلس کا plantedانٹرویو منسوخ ہونے پر مگرمچھ کے آنسو رو رہے ہیں!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :