دہلی کے مسلم کش فسادات اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی

جمعرات 5 مارچ 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

ابھی شام ڈھلی بھی نہ تھی بس کچھ دھندلکا سا ہوا تھا، شاکر گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ ہی تھا کہ اچانک ایسا لگا جیسے گلی میں کچھ شور ہو رہا ہے، اور یہ شور بڑھتے بڑھتے اسکے اپنے دروازے تک آن پہنچا، باہر سے ہندو بلوائی چیخ چیخ کر انہیں گھر سے باہر آنے کو کہہ رہے تھے ساتھ ساتھ دروازے کو بھی توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ۳۰ یا ۴۰ شرپسندوں کا ایک بھڑکا ہوا ٹولا تھا، جنھوں نے اپنی شناخت چھپانے کیلئے ہیلمٹ پہن رکھے تھے۔

اسکا گھر گھیرا جا چکا تھا اور بچاؤ کی کوئی صورت نہ تھی، وہ لوگ مکمل طور پر گھر چکے تھے، آخرکار صدر دروازہ توڑ کر بلوائی گھر میں گھس آئے۔ شاکر اور اس کے گھر والے ڈرکر کمروں میں پلنگوں کے نیچے جا چھپے، باہر سے ہندو بلوائی شور مچا رہے تھے کہ اگر تم لوگ باہر نہ آئے تو سب کو مٹی کا تیل ڈال کر زندہ جلا دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

گھر کی لائٹ کاٹ دی تھی ، ایک بے بسی تھی کوئی بچاؤ کی راہ نہ تھی۔

کہ بلوائیوں نے کمرے کا دروازہ بھی توڑ دیا پلنگ کے نیچے چھپے شاکر کو کھینچ کر باہر نکال لیا اور تشدد کرتے ہوئے گلی کی طرف لے چلے۔ گھر والے منتیں کرتے رہے گلی میں لے جاکر تشدد اپنی انتہا کو پہنچ گیا، شاکر کے گھر والے شدید خوف اور پریشانی میں مبتلا تھے اسکی ۱۱ سالہ بیٹی خوشی بلوائیوں کے پیروں میں گر گئی اور رو رو کر اپنے باپ کی زندگی کی بھیک مانگتی رہی، وہ التجائیں کرتی رہی کہ اس کے باپ کی جان بخش دی جائے۔

مگر ایسا نہ ہوا بلوائیوں نے بیٹی کی آنکھوں کے سامنے باپ کو نہایت سفاکی سے قتل کر دیا۔ لاش گلی کے بیچ پڑی تھی کہ تسلی نہ ہوئی تو اٹھا کر گٹر میں ڈال دی اور چلے گئے۔
شاکر دہلی کے حالیہ مسلم کش فسادات میں مرنے والے ۴۳ مسلمانوں میں سے ایک تھا، وہ عرصہ دراز سے دہلی کے شمال مشرقی علاقے گوکل پوری میں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہائش پزیر تھا۔

قصور صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھا۔
دہلی میں اس بار مسلمانوں کے خوں سے وہ ہولی کھیلی گئی کہ اگلے پچھلے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ دہلی تو اپنے لٹنے کی بے شمار داستانیں سمیٹے ہوئے ہے، سات بار لٹنے کی داستان تو زبان زد عام ہے۔ ہر بار خوب کشت و خون ہوا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ دہلی کم از کم سات بار تاراج کی گئی۔

مگر اسکے کچھ نہ کچھ عوامل تو ہوا ہی کرتے تھے۔ مگر جو کچھ اب ہوا وہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ وہ جنگ زمین و اقتدار کیلئے ہوتی تھی اور یہ جنگ صرف مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے تھی۔ پہلے تو فوجیں آمنے سامنے ہوتی تھیں، مقابلہ ہوتا تھا اور پھر غنیم فتح کے بعد دہلی جو اس وقت دلّی ہوا کرتی تھی میں گھس کر لوٹ مار کرتے تھے ، قتل و غارت گری کرتے تھے، بستیاں اجاڑ دی جاتی تھیں۔

تو یہ سب دلّی کے لئے نہ انوکھا تھا نہ نیا، دلّی تو شروع سے راجدھانی رہی ہے اور بار بار اس کا خراج بھی چکاتی رہی ہے، مگر اب کی بار کیا ہوا ، کون فاتح ہے اور کون مفتوح دلّی حیرت سے دیکھ رہی کہ یہ صدیوں سے ساتھ رہنے والے کیوں ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو گئے ہیں۔ دلّی تو اپنی زات میں ایک تاریخ ہے اور زمانہ گواہ ہے کہ اس نے وقت کے بڑے بڑے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔


بارہویں صدی سے لیکر پندرہویں صدی کے نصف تک اور قطب الدین ایبک سے ابراہیم لودھی تک دلّی گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کسطرح حکومت کی اور کبھی بھی ہندو یا کسی اور مذہب کے ماننے والوں کی نسل کشی نہیں کی نہ ہونے دی، مگر بھارت کی تاریخ باالخصوص ۱۹۴۷ سے آج تک جتنا ظلم ، بربریت، سفاکی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی گئی اس کی مثال خال خال ہی ہونگی۔

پاکستان بننے کے وقت جب لوگ ہجرت کر رہے تھے تب چھ لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا، اور اس بہتی گنگا میں سب نے ہی ہاتھ دھوئے، اس وقت جنوبی ایشیاء کی تاریخ کی سب سے بڑی قتل و غارتگری کی گئی۔
آج تک جنوبی ایشیاء پاک و ہند میں جتنے بھی مسلم کش فسادات ہوئے ہیں ۲۶ فروری ۲۰۲۰ سے ہونے والے دہلی کے مسلم کش فسادات ان سب سے زیادہ منظم ، مربوط اور منصوبہ بندی کے ساتھ کئے گئے ہیں۔

اور مسلمانوں کے جان ، مال اور مساجد کو جس بے رحمی، درندگی اور سفاکی سے برباد کیا گیا، اس پر تو چنگیز خان اور ہلاکو خان کی روحیں بھی رو پڑی ہونگی۔ یہ بھارتی تاریخ کی شاید بدترین مسلمان دشمنی کی مثال ہو۔ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے، یہ NRC کی د م چھل کیوں کر لگائی گئی۔ اور صرف مسلمانوں کو ہی کیوں نشانہ بنایا گیا، یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے، جس کے تانے بانے کشمیر کے حالات سے بھی جاکر ملتے ہیں اور آئندہ انتخابات سے بھی۔


دہلی تو وہ شہر ہے جس پر مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی اور مسلمان یہاں رہنا بسنا پسند کرتے ہیں، آج بھی دہلی کی مردم شماری کی جائے تو مسلمان اکثریت میں ہوں گے، گذشتہ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق دہلی میں رہائش پذیر مسلمانوں کا آبادی میں تناسب ۶۸․۸۱ فیصد تھا۔ تو پھر یہ کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟ ظاہر ہے دہلی دارالخلافہ ہے بھارت کا، اور وہاں پر ہونے والے واقعات کی نزاکت و نوعیت کچھ اور ہی ہوگی پھر بھی، یقینا کوئی بڑا ایجینڈا ہے مودی سرکار کا جس کے لئے مسلمانوں کی بلی چڑھانا ناگزیر ہے۔

بہت ہی واضح ثبوت موجود جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بھارتی حکومت کے سوا کسی اور کا کام ہو ہی نہیں سکتا ، کیونکہ پوری حکومتی مشینری جس میں قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے خود لاقانونیت کے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں ساتھ ساتھ بھارتی دہشت گرد تنظیم RSS کے ہتھیار بند غنڈے پوری آزادی کے ساتھ پولیس کی حفاظت میں مسلمانوں کا شکار کرتے پھرتے ہیں، یہ چن چن کر مسلم آبادیوں پر منظم حملے کررہے ہیں ۔

اس بات کی تصدیق خود انڈین میڈیا ثبوتوں کے ساتھ کر رہا ہے کہ اس ساری قتل و غارتگری میں حکومتی مشینری ملوث ہے۔ حملوں میں استعمال ہونے والے اوزار اور ہتھیار خاص موقع کی مناسبت سے تیار کئے گئے ہیں، حد تو یہ ہے کہ جن عمارتوں یا اسکولوں کی چھتوں سے حملے کئے گئے ہیں اوزار ان عمارتوں کی تعمیر اور ساخت کو مدنظر رکھ کر خاص طور پر بنائے اور استعمال کئے گئے ۔

اس بات کا ایک اور بین ثبوت ہے کہ سب کچھ منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔ نتیجةً اس بار مسلمانوں کی جان و املاک کا نقصان بہت بڑے پیمانے پر کیا گیا۔ بھارت میں رائج مسلم دشمنی کا عام طریقہ Mob Lynching یا سو پچاس لوگوں کا گروہ کسی نہتے مسلمان کو گھیر لیتا ہے اور ڈندڈوں، سریوں، پتھروں غرض جو ہاتھ آئے سے مار مار کر جان لے لیتے ہیں۔ قابل حیرت و شرم امر یہ ہے کہ کسی کو رحم نہیں آتا، پورے بھارت کے طول و عرض میں جہاں بھی جائیں ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل کیا جانا ایک عام سی بات ہے، بلا تفریق بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے صرف مسلمان ہونا شرط ہے۔

پھر وہ بچہ ہو، بوڑھا ہو یا خاتون مار دیا جاتا ہے۔ اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ اتنے تماشائیوں میں ایک بھی ایسا نہیں ہوتا جس کے دل میں رحم کا شائبہ بھی آتا ہو یا اس دردناک منظر سے تکلیف ہو رہی ہو، بلکہ سب خوشی خوشی ایسے اپنا حصہ ملا رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی بہت بڑا مذہبی فریضہ ادا کر رہے ہوں۔
پوری دنیا بھارت کے اس مکروہ چہرے سے واقف ہے، مگر اسلام فوبیا انہیں حمایت کرنے سے روکے رکھتا ہے، وہاں ایک جانور اگر انسان کی غلطی سے مرجائے تو زمین آسمان ایک کر دیا جاتا ہے، یہاں بھارت میں ہزاروں مسلمانوں کو کھلے عام قتل کیا جا رہا ہے مگر نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں بالکل خاموش ہیں، ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

یہ محض مسلمانوں کے خلاف منافرت و منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جیسا کہ ان مسلم کش منظم حملوں میں بھارتی حکومت، حکومتی مشینری، اور تربیت یافتہ غنڈے مل کر ایک ٹیم کی طرح کام کر رہے ہیں۔ لہذا میڈیا کے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس عام فسادیوں کے ساتھ مل کر کس طرح مسلمانوں اور ان کی املاک نقصان پہنچا رہی ہے۔ ان ہی فسادات کے دوران پولیس نے ایک اسلامی درسگاہ میں گھس کر طلباء پر وحشیانہ تشدد کیا کمال یہ تھا کہ اس دوران طالبات کو بھی نہیں بخشا گیا اور بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔


آخر یہ سب کیا ہے جب بھی مودی اقتدار میں ہوتا ہے مسلم دشمنی عروج پر ہوتی ہے ، جب یہ گجرات کا وزیر اعلی تھا تب جو مسلم کش فسادات ہوئے تھے ان میں لاکھوں مسلمان لقمہء اجل بن گئے تھے۔ ٹائمز میگزین نے اس کی تصویر سرورق پر قصائی کے عنوان سے شائع کی تھی۔ لا تعداد ویڈیوز موجود ہیں جن میں حکومتی جماعت کے غنڈے سر عام بے خوف و خطر مسلمانوں کے قتل عام کا پیغام دیتے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔

بلکہ بلا خوف میڈیا استعمال کر رہے ہوتے ہیں تاکہ پیغام زیادہ سے زیادہ عام ہو سکے۔
یہ لمحہء فکریہ ہے، اور اگر اب بھی عالمی برادری محض اس لئے خاموش رہی کہ یہ ظلم صرف مسلمانوں ک ساتھ ہو رہا ہے۔ تو اس کا نتیجہ پھر کچھ اور بھی نکل سکتا ہے اور اگر مسلمان اپنے دفاع میں کچھ کریں گے تو پھر دنیا کہے گی کہ مسلمان تو دہشت گرد ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ عالمی برادری آگے بڑھے اور اس معاملے کے حل کے اقدامات کرے ، بھارت کا مکروہ چہرہ تو پہلے ہی عیاں ہو چکا ہے۔ عالمی برادری کو چاہئے کہ انسانی جانوں کے بے دریغ زیاں پر مودی پر جنگی جرائم کا مقدمہ بنائے اور اس کو اور اس کے گروہ کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے۔ کیونکہ یہی امن کا راستہ ہے اور یہی وقت کی پکار ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :