ہر مال ملے گا چار آنے

جمعہ 30 اکتوبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

ابھی چند دھائیوں پہلے تک کی بات ہے کہ جب کسی کے گھر میں شادی ہوتی تھی تو شادی سے کچھ دن پہلے روز رات کو رشتہ دار اور محلے کی لڑکیاں شادی والے گھر کے آنگن میں جمع ہو جاتی تھیں اور ڈھولک پر بنے یا شادی بیاہ کے مخصوص گانے گاتی تھیں ، ساتھ ساتھ گلگلے بھی بنتے رہتے تھے جن کا اپنا ایک مزہ تھا، خوب ہنسی مزاق رہتا تھا، اس دور ان ایک گانا یا بنًا جو بہت مشہور تھا گایا جاتا تھا، جو کچھ یوں تھا کہ، ہر مال ملے گا چار آنے، جس کی ترتیب کچھ اسطرح تھی کہ ایک لڑکی آواز لگاتی تھی کہ دولھا کے ابًا تو باقی ساری لڑکیاں ہم آواز ہوکر زور سے کہتی تھیں کہ چار آنے، پھر یک کے بعد دیگر دولھا یا دلھن کے سارے رشتے پکارے جاتے تھے اور جوا باً ہر ایک کی قیمت چار آنے لگا دی جاتی تھی، اور آخر میں وہ غدر مچتا تھا کہ کان پڑے آواز سنائی نہ دیتی تھی، بس چار آنے ، چار آنے بھئی چار آنے کی صدائیں تکرار کی شکل میں چاروں طرف سے آتی رہتی تھیں۔

(جاری ہے)

یہ تو خیر ایک خوشگوار موقع کی یاد تھی جو نفع نقصان سے عاری محض ایک وقتی مشغلہ کے سوا کچھ نہ تھا، مگر آجکل جب ہم اپنے سیاستدانوں کے رویوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو لگتا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ملک کے آنگن میں ضمیر فروش دشمن کی تھاپ پر چیخ چیخ کر چار آنے چار آنے کی تکرار کر رہے ہوں، اور ملک کے وقار، عزت ، سالمیت اور آزادی کی قیمت لگا رہے ہوں۔


یہ چار آنے ہمارے کلاسیکی ماضی کا ایک چمکتا باب تھا جو قریب قریب بند ہوا چاہتا ہے، اور مجھے پختہ یقین ہے کہ ہماری نئی نسل کو تو چار آنے کا مطلب تک معلوم نہ ہوگا۔ یہ چار آنے ہمیں روزانہ خرچی بطور ملا کرتے تھے۔ اس زمانے میں روپے کی قدر تھی تو ایک روپیہ سولا آنے یا سو پیسے کا ہوتا تھا، اور چار آنے پچیس پیسوں کے ہوتے تھے جو ایک چوتھائی روپیہ ہوتا تھا۔


آج کل ملک میں ایک چھوتھائی سے بھی کم تعداد کے لوگوں نے زبردست افراتفری مچائی ہوئی ہے، جو گذشتہ نومبر سے شروع ہوکر آہستہ آہستہ چل رہی تھی اور اب اپنے عروج پر ہے، اس میں یکایک بڑی تیزی اکتوبر میں دیکھنے میں آئی ہے۔ حزب اختلاف کی پھرتیاں اور چیخیں دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ایک ٹولہ کسی غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ جس کا راگ سب مل کر الاپ رہے ہیں۔

ملک و ملت کی پرواہ نہ پہلے کسی کو تھی نہ اب ہے۔ یہ محض اپنی پارٹی اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول تک محدود ہے۔ مستقل الزام تراشی کا بازار گرم ہے، ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اچھالی جا رہی ہے، پیٹ بھر کے کردار کشی کی جا رہی ہے۔ یہ سوچے بنا کہ اس سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوگا اور اس کا یقینی فائدہ دشمن کو پہنچے گا۔
پاکستان مسلم ممالک میں ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے، جس کے اندرونی ، بیرونی، ظاہر اور پوشیدہ دشمن ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔

اس کے باوجود ہمارے عاقبت نا اندیش سیاستدان تو ہر مال ملے گا چار آنے کا راگ الاپ رہے ہیں جس چیز کی وہ قیمت وصول رہے ہیں وہ ملک کی حرمت، عزت ، سالمیت اور آزادی ہے۔
ملک میں پھیلا بد ترین انتشار ، اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کیلئے نہایت خوشی اور اطمینان کا باعث ہے، جیسا کہ ابھی کچھ روز پہلے بھارت کے مشیر سلامتی اجیت دوول نے کہا تھا کہ اب ہم اپنی جنگ اس سرزمین پر لڑیں گے جہاں سے ہمیں خطرہ ہوگا، یہ ایک بہت ہی واضح اشارہ ہے، پاکستان کو بھارت اپنا دیرینہ دشمن مانتا ہے، اور بھارت پاکستان کے عدم استحکام کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے، وہ افغانستان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال کرسکتا ہے، وہ امریکہ سے مدد لے سکتا ہے ، ابھی کچھ ہی دن پہلے بھارت امریکہ نے ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کئے ہیں، اس موقع پر بھارتی وزیر نے یہ بھی کہا کہ آپ چین کو سنبھالیں پاکستان کو ہم دیکھ لیں گے۔

یہ جملہ عقل والوں کے لئے کافی ہے، مگر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ہم تو سب کچھ بیچ سکتے ہیں سو آواز لگا رہے ہیں کہ ہر مال ملے گا چار آنے۔ ہمارے سیاستدان ان کے حواریوں اور کارندوں کی طرح دن رات دشمن کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں تب ہی تو اس حد تک گر سکتے ہیں کہ آزاد بلوچستان کا نعرہ بھی اسی ملک کا کھاتے ہوئے لگا دیا گیا ہے۔ پاک فوج پر الزامات لگا سکتے ہیں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر سکتے ہیں، بم دھماکوں کے ذریعے ملک میں افراتفری پھیلاسکتے ہیں۔


 کبھی سوچا کہ جب بھی پاکستان میں سیاست متحرک ہوتی ہے تو کبھی آرمی پبلک اسکول تو کبھی مدرسہ میں قتل و غارت گری اور بم دھماکے کیوں ہوتے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ میرا خیال ہے کہ نہیں یہ ضرور کسی خاص ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ملک میں پھیلی ہوئی انارکی لوگوں میں مایوسی پیدا کر رہی ہے۔ ایسے میں سیاستدانوں کے منفی پروپیگنڈے جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں، اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔


زرا غور کریں تو باآسانی محسوس کریں گے کہ جیسے سب کو اچانک ہی سب کچھ یاد آگیا ہو، کہ اب تک کہاں کہاں کیا کیا غلط ہوا تھا۔ یہ سب کچھ کہیں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے تو نہیں ہو رہا؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر، پاکستان کے چار دشمن بہت ہی واضح اور سامنے ہیں بھارت ، اسرائیل ، امریکہ اور برطانیہ ۔ اور ان ہی کی فنڈنگ سے ملک میں یہ گل کھلائے جارہے ہیں۔

مملکت خداداد چند ضمیر فروشوں کے ہاتھوں مشکلات کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ملک میں اندرونی خلفشار اتنا بڑھ چکا ہے کہ کچھ بھی کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔
مافیا اور سیاسی گٹھ جوڑ کے ذریعے ملک میں بد ترین مہنگائی پیدا کردی گئی ہے، حالات کسی طور قابو میں نہیں آرہے ہیں غریب عوام بدترین استحصال کا شکار ہیں، جو غم و غصہ کی فضا پیدا کر نے کا سبب بن رہا ہے۔

لوگ مایوس ہیں، پریشان ہیں، اور ناکامیوں کا شکار ہیں، افلاس اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہے۔ یہ سارے عوامل کسی بڑے آتش فشاں کے پھٹنے کے ممکنہ اسباب ہو سکتے ہیں۔ جن کا فائدہ صرف اس دشمن کو پہنچ سکتا ہے جو کہتا ہے کہ ہم تمہیں اندرونی انتشار و خلفشار کے ذریعے شکست دیں گے، اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو گیا ہے کیونکہ ہمارے بکاؤ سیاستدان اس کے آلائے کار بنے ہوئے ہیں۔

لگتا کچھ ایسا ہے جیسے اس ملک سے کوئی بھی مخلص نہیں۔ ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے، ملک کی سالمیت و وقار سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ بس اپنے آقاؤں کے ایجنڈے کو پایہ ء تکمیل تک پہنچانا ہے۔ چاہے اس کے لئے ملک کو تباہ و برباد ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ جھوٹ ، فریب، مکاری، اور الزام تراشی کا وہ بازار گرم ہے کہ لگ رہا ہے جیسے ہر کوئی ملک کا زرہ زرہ بیچ کھا نا چاہتا ہو اور چیخ چیخ کر آواز لگا رہا ہو ہر مال ملے گا چار آنے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :