لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 دسمبر2024ء)خواجہ رفیق شہید کی برسی کے موقع پر منعقدہ سیمینار میں ملک کو موجودہ سیاسی بحرانوں سے نکالنے کے لیے قومی کمیٹی کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سینئر سیاستدان ملک کو ٹریک پر واپس لانے کے لیے سوچ بچار کریں ، یہ نہ ہو کہ مزید نقصان اٹھانا پڑے، ریاستی اداروں کی توہین کی جارہی ہے اور اس پر دوسری جانب سے ردعمل آرہا ہے، سمجھ نہیں آرہی ہے کہ سچا کون اور جھوٹا کون ہے،جو نئی امریکی انتظامیہ آرہی ہے ان کو عمران خان سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی دلچسپی وہی ہے جو امریکی استعمار کی ہے اور وہ پاکستان کا جوہری پروگرام، پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام ہے،ہمیں شاید اپنی طاقت کا اندازہ نہیں لیکن ہمارے دشمن کو ہے، جب آپ کے ارد گرد گھیرا ڈالا جارہا ہو اور آپ کو دکھائی بھی دے رہا ہو تو کیا آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں، کیا خاموش رہا جاسکتا ہے، پاکستان تحریک انصاف سے مذاکرات کا عمل کامیاب ہونا چاہیے،پی ٹی آئی سے مذاکرات میںمعیشت، دہشتگردی اور عوامی مسائل پر بھی بات کی جائے،40 سالہ سیاسی بحران کا نچوڑ یہ ہے کہ سرجوڑ کر بیٹھے بغیر بحران سے نہیں نکل سکتے، مذاکراتی کمیٹی کے ارکان صرف اداکار ہیں، پروڈیوسر خواجہ سعد رفیق ہیں،قومی ڈائیلاگ ہونا چاہیے اور کم از کم ایجنڈے پر اکٹھے ہونا چاہیے، آزاد عدلیہ، غیرجانبدارانہ انتخابات، صوبوں کے حقوق، قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم پر بات ہونی چاہیے۔
(جاری ہے)
خواجہ رفیق شہید فائونڈیشن کے زیر اہتمام خواجہ رفیق شہید کی 52ویں سالانہ برسی کے سلسلہ میں ’’بحرانوں میں گھرا پاکستان ، اصلاح احوال کیسے ہو ‘‘کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا ۔ جس سے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ،وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ خان ، مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق ،جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ، سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی ، سہیل وڑائچ اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ خواجہ رفیق کی شہادت کے بعد ان کی اہلیہ نے اپنے دونوں بیٹوں خواجہ سعد اور خواجہ سلمان کی بے مثال پرورش کی ۔آج کل ملک میں دہشتگردی کے انتہائی برے حالات ہیں،خیبرپختونخوا ہ اور بلوچستان میں دہشتگردوںکوسپورٹ بارے سب جانتے ہیں ،آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد میں اربوں خرچ کئے گئے اور ہزاروں قربانیاں دی گئیں،پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ ،اس سے پہلے مائیں بچوں کو سکول بھیجنے سے گھبراتی تھیں کہ کہیں دھماکہ نہ ہو جائے ،کیا ہمیں اس پر سوال نہیں اٹھانا چاہیے کہ ملک میں دہشتگردی کیسے واپس آئی ،مجھے حوالدار کا لقب دیا گیا لیکن میں اس لقب پر اور ان حوالداروں اور سپاہیوں پر فخر کرتا ہوں کہ وہ اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر ہماری حفاظت کرتے ہیں ۔
انہوںنے کہاکہ ہم 9 مئی کا ذکر کرنے سے کترا جاتے ہیں،اس دن فوجی تنصیبات کے علاوہ کہیں احتجاج نہیں ہوا،صرف پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی جو اس سے پہلے ہمارا دشمن بھی نہیںکر سکا تھا،کیا ان لوگوں نے پوسٹیں نہیںکیں جو سالہا سال پاکستان نہیں آتے ، کیا انہوں نے کبھی غزہ کے مظالم پر پوسٹیں کیں،لوگوں کا ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے ،کیا ماضی میں فوجی عدالتیں نہیں بنیں۔
انہوںنے کہا کہ میں سمجھتا ہوں تلخیاں اپنی جگہ لیکن بات ضرور کرنی چاہیے،جنہوں نے 4 سال بات کرنے سے انکار کیا اور اب بات کرنے کی خواہش کی تو میں نے پیغام حکومت تک پہنچایا ،میرا کردار انتہائی محدود ہے جبکہ مذاکرات اعلیٰ سطحی کمیٹی نے کرنے ہیں،حکومت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس نے مثبت پیشرفت کی ۔ انہوںنے کہاکہ خواجہ آصف کو 2002 میں ہتھکڑیاں لگیں دیکھا اور ان کو آپریشن کی بمشکل اجازت ملی،رانا ثنا اللہ کو ادویات نہیں نہیں دی گئیں۔
اپوزیشن کے اراکین گرفتار ہوئے حکومت نہ چاہتی تو ان کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہیں ہو سکتے تھے لیکن ہمارے اراکین کو ان کا حق نہیں ملا تھا ۔ انہوںنے کہاکہ اسمبلی میں مارچ سے اب تک لوگوں کے مسائل پر سیر حاصل بحث کی بجائے بائیکاٹ کیا جاتا رہا ہے ،وزیر قانون نے جب بھی ایوان میں کوئی بھی بل پیش کیا تو اس پر اپوزیشن نے دعوت ملنے کے باوجود بات نہیں کی ،اپوزیشن کو اسمبلی میں بات کرنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ۔
انہوںنے کہاکہ سیاسی مذاکرات میں خواجہ سعد رفیق کا بڑا کردار ہے اور وہ سالوں سے یہ بات کر رہے ہیں،آپ اپنے مسائل پر بھی بات کریں لیکن عوام کے مسائل پر بھی تو بات کریں۔ انہوں نے کہاکہ شہباز شریف نے سالوں پہلے بھی یہی کہا تھا کہ میثاق معیشت کیا جائے۔میں رانا ثنا اللہ کو کہوں گا کہ چونکہ آپ مذاکراتی کمیٹی کے رکن ہیں تو معیشت، دہشتگردی اور عوامی مسائل کی بھی ان مذاکرات میں بات کی جائے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ خواجہ رفیق شہید جیسے بیباک، بہادر سیاسی کارکن کو اس وقت کی حکمران جماعت کی ایما ء پر شہید کر دیا گیا،انہیں اس بات پر شہید کیا گیا کہ ان کی باتیں حکمرانوں کو ناگوار گزرتی تھیں،اب یہ قومی رویہ بنتا جا رہا ہے کہ ہر وہ بات جو ہمارے نکتہ نظر سے مطابقت نہ رکھتی ہو اسے ہم گوارا نہیں کرتے ،کیا وہ آواز خاموش ہو سکتی ہے جسے زبردستی بند کروانے کی کوشش کی گئی ہو،خواجہ سعد رفیق اسی جرات اور بہادری سے بات کر رہے ہیں جیسے خواجہ رفیق شہید کیا کرتے تھے ۔
انہوںنے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ملک میں بحران ہوتے ہیںلیکن پاکستان میں بحران اس حد تک پہنچ چکے کہ پاکستان ہی بحران کی سی صورت نظر آتی ہے ،شہباز حکومت اور مسلم لیگ (ن)ڈیفالٹ کو ٹالنے پر مبارکباد کی مستحق ہے ۔ انہوں نے کہاکہ عدم اعتماد سے 10 دن پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنا ملک کو ڈیفالٹ کرنے کی جانب بڑا اہم اقدام تھا ۔
انہوںنے کہا کہ مذاکرات ضرور ہونے چاہئیں لیکن مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے پہلے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔1973ء کے آئین کے بعد میثاقِ جمہوریت ایک مقدس دستاویز ہے، میثاقِ جمہوریت سے پہلے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے غلطیوں کا اعتراف کیا۔انہوں نے کہا کہ کہا جا رہا ہے پی ٹی آئی کے خلاف جھوٹے مقدمات بنوائے گئے، مقدمات تو ہمارے خلاف بھی جھوٹے تھے، اگر اپنا آج کا سچ منوانا ہے تو ہمارا کل کا سچ بھی تسلیم کرو، کم از کم اظہار افسوس ہی کر دو،آج میرے پاس غلط میندیٹ ہے تو کل آپ کے پاس بھی غلط مینڈیٹ تھا تو آپ نے کیوں نہیں چھوڑا تھا۔
انہوںنے کہاکہ 40 سالہ سیاسی بحران کا نچوڑ یہ ہے کہ سرجوڑ کر بیٹھے بغیر بحران سے نہیں نکل سکتے، ہم مذاکرات کو خلوص نیت سے کامیاب کرنا چاہتے ہیں،مذاکراتی کمیٹی کے ارکان صرف اداکار ہیں، پروڈیوسر خواجہ سعد رفیق ہیں۔انہوںنے کہاکہ اگر آپ کہتے ہیں کہ سیاستدان ہی مل بیٹھ کر اپنے مسائل کو حل کریں تو مسلم لیگ (ن)اور نواز شریف 21 اکتوبر 2023 کو مینار پاکستان پر یہی بات کر چکے ہیں،سیاسی بحرانوں سے نکلنے کا یہی حل ہے کہ سب سیاستدان مل بیٹھیں،کیا اس وقت ان کی جانب سے کوئی جواب آیا جن کی جانب سے آنا چاہیے تھا،26 نومبر 2024 تک یہ سوچ نہیں تھی اور وہی ماضی والا رویہ تھا۔
انہوںنے کہاکہ خواجہ سعد رفیق نے جن رہنمائوں کے نام لئے ہیں وہ سب معتبر نام ہیں،اگر ان میں کچھ اور نام شامل کر لیں تو 21 اکتوبر کی نواز شریف کی تقریر والے ایجنڈے پر کام کر لیں،ان ناموں میں نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کا نام ہونا چاہیے ،کیا سب جماعتیں اپنی اپنی قیادتوں کو اعتماد میں نہیں لیں گی ۔ انہوںنے کہا کہ خواجہ آصف کے خیالات کی ایک بیک گرائونڈ ہوتی ہے لیکن ہم نے انہیں مذاکرات کا حامی بنایا ہے ،سیاسی مذاکرات کو کامیاب کرنے کے لئے صحافتی معززین کو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
انہوںنے کہاکہ اگر کسی نے اپنے رویے میں بہتری کی ہے تو اس کی تعریف اور ضد کرنے والے کی نشاندہی ہونی چاہیے ،ان کے ساتھ ہم کیوں بات کریں سے بات آگے بڑھ کر مذاکرات کی جانب بات آ گئی ہے ،اب صحافی اکابرین آگے بڑھیں ،جہاں انصاف کا نظام ختم ہو گیا ہو ملک کے اس ادارے میں کیا کچھ ہوتا رہا ہو اس پر بھی دیکھنا چاہیے ،سیاسی عمل پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے لیکن کسی کے گھر کو آگ بھی نہیں لگانی چاہیے ،قانون کے مطابق عمل کا جائزہ لیا جانا چاہیے جس کے لئے ہم تیار ہیں،سیاسی مذاکرات کو بھرپور سپورٹ کی جائے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ملک آپس کی دھینگا مشتی میں گھرا ہوا ہے، اگر یہی حالات رہے تو بہت سے لوگ غیر متعلقہ ہوجائیں گے ،پاکستان ریموٹ کنٹرول جمہوریت سے آگے نہیں بڑھ سکتا ،یہ نہیں ہوسکتا صرف سیاستدان ہی رگڑا کھائیں۔انہوںنے کہا کہ تاجروں کے نام پر ایک ایکشن کمیٹی بناکر لوگ نکلتے ہیں اور ریاست گھٹنے ٹیک دیتی ہے تو پھر اس پر سوالیہ نشان تو ہوں گے کیونکہ اس طرح لوگ جتھے بناکر نکلیں گے تو کس کس کی بات آپ مانیں گے، اگر کوہالا کا پل کو بلاک کیا گیا، پاکستان کا جھنڈا یا قائداعظم کی تصویر اتاری گئی ہے تو ہمیں تشویش ہے کہ یہ کیسے ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک رات میں تو نہیں ہوا ہوگا، کشمیری تو پاکستانیوں سے بڑی کشمیری ہیں، ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں تو پھر اس پار ایسا کیا ہوا، کیوں وہاں ایک ایسا آدمی بٹھایا گیا جس کا کشمیر کی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے جب کہا تھا کہ یہ کام نہ ہو، ہم نے مشورہ دیا تھا لیکن کوئی ہماری سنے تو سہی ، آپ کب تک ڈرائنگ روم میں بند ہوکر آہ و زاری کریں گے، ہمیں بات کرنی پڑے گی لیکن کون بات کرے گا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں اسی لیے حکومت کا حصہ نہیں ہوں اور میرے ساتھیوں کو اس بات کا پتا ہے، میں بالکل اپنی پارٹی کے اندر ہوں لیکن جہاں خرابی ہوگی، اب چپ نہیں رہا جاسکتا اس پر بات کرنی پڑے گی، اس پر سوال کرنا پڑے گا، اس کا راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ بڑے ادب سے کہنا چاہتا ہوں، یہ جو نئی امریکی انتظامیہ آرہی ہے، ان کو عمران خان سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی دلچسپی وہی ہے جو امریکی استعمار کی ہے اور وہ پاکستان کا جوہری پروگرام، پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام ہے۔
ہمیں شاید اپنی طاقت کا اندازہ نہیں لیکن ہمارے دشمن کو ہے، جب آپ کے ارد گرد گھیرا ڈالا جارہا ہو اور آپ کو دکھائی بھی دے رہا ہو تو کیا آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں، کیا خاموش رہا جاسکتا ہے۔میری تجویز ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے مذاکرات کا عمل کامیاب ہونا چاہیے۔انہوں نے ملک کو موجودہ سیاسی بحرانوں سے نکالنے کے لیے قومی کمیٹی کی تجویز دے دیتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن، حافظ نعیم الرحمن، شاہد خاقان عباسی، ڈاکٹر مالک بلوچ، آفتاب خان شیرپا، پیر پگارا، چوہدری نثار علی خان سمیت دیگر اسٹیک ہولڈز کو کمیٹی کا حصہ بنانا چاہیے جو نہ حکومت اور نہ ہی پی ٹی آئی اتحاد کا حصہ ہیں۔
سینئر سیاستدان ملک کو ٹریک پر واپس لانے کے لیے سوچ بچار کریں ، یہ نہ ہو کہ مزید نقصان اٹھانا پڑے، ریاستی اداروں کی توہین کی جارہی ہے اور اس پر دوسری جانب سے ردعمل آرہا ہے، سمجھ نہیں آرہی ہے کہ سچا کون اور جھوٹا کون ہے۔سعد رفیق نے مزید کہا کہ سیاست میں کوئی دفن نہیں ہوسکتا، یہ غلط فہمی سب کو دور کرلینی چاہیے، نہ بھٹو کی سیاست کوئی ختم کرسکا اور نہ نواز شریف کی کرسکا اور نہ ہی سیاست کو غیر فطری طریقے سے روکا جاسکتا، سیاست کا مقابلہ غیر سیاسی طریقوں سے نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کچھ اکابر سے بات کی ہے ان کے نام نہیں لوں گا مذاکرات کامیاب ہونے چاہئیں۔جماعت اسلامی کے نائب امیئر لیاقت بلوچ نے کہا کہ خواجہ رفیق ایک جراتمند انسان تھے، جب ان کی شہادت کی اطلاع ملی تو اس وقت کے طلبہ اور نوجوانوں کے لئے بڑے غم کی خبر تھی۔انہوں ںے کہا کہ سب دوستوں نے مسائل کی اچھی نشاندہی کی ہے ،فوجی آمریتیں ملکی مسائل کا حل نہیں ہیں، سول بیوروکریسی بھی ملک کو سیاسی بحرانوں سے نہیں نکال سکتی، آئین توڑنا، معطل کرنا، انتخابات سے مرضی کے نتائج حاصل کرنا اور اپنی مرضی کے لوگ مسلط کرنا اب نہیں چل سکتا، جمہوریت کے دعویداروں کو غور کرنا ہو گا کہ ماضی کی غلطیوں سے کوئی مبرا نہیں، فوج، بیوروکریسی، سیاسی جماعتوں سب نے غلطیاں کیں ان غلطیوں کی بنیاد پر پارلیمانی جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکتی۔
انہوںنے کہا کہ عدلیہ کی آزادی ملکی نظام کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے لیکن ججوں کی تقرری پسند یا ناپسند کی بنیاد عدلیہ کو مفلوج بنا دیتی ہے، دہشتگردی، پارا چنار اور بلوچستان کی صورتحال کے باوجود گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی بات ہو رہی ہے، جنرل مشرف کے دور میں جنرل محمود خفیہ ادارے کے سربراہ تھے میں نے اس وقت کہا کہ لگتا ہے کہ ریاست نے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے لیکن تیار کئے گئے طالبان کا کوئی حل سوچا جائے ،آج آرمی ٹرائل کے بارے میں باتیں کی جا سکتی ہیں لیکن ماضی قریب میں پاپولر قیادت کی جانب سے فوجی عدالتیں بنائی گئیں اور سویلیئنز کے ٹرائل ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ آج سیاسی مذاکرات شروع ہوئے ہیں تو پی ٹی آئی نے موجودہ نظام کو تسلیم کر لیا ہے جو اچھی بات ہے ،مسلسل 5 انتخابات ہو چکے ہیں لیکن ہر انتخابات کے بعد میں تحفظات اور اعتراضات ہوتے ہیں میں ،خواجہ سعد رفیق کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ قومی ڈائیلاگ ہونا چاہیے اور کم از کم ایجنڈے پر اکٹھے ہونا چاہیے۔لیاقت بلوچ نے مزید کہا کہ آزاد عدلیہ، غیرجانبدارانہ انتخابات، صوبوں کے حقوق، قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم پر بات ہونی چاہیے، خواتین اور نوجوانوں میں مایوسی پھیلائی جا رہی ہے، سوشل میڈیا دور میں ممکن نہیں کہ قیادت غلطی کرتی رہے اور قوم اسے برداشت کرتی رہے،کوئی جمہوریت طشتری میں رکھ کر نہیں دے گا، سیاسی قیادت کو اپنا کام کرنا ہو گا۔
سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ جس دن خواجہ رفیق شہید ہوئے میں اس دن جیل میں تھا جن لوگوں نے انہیں شہید کیا تھا، ان کا کیا حال ہوا، سب سے دیکھا۔انہوں نے کہا کہ قتل کرنے والے اسی حکومت کے دوران اسی حکومت کے ہاتھوں نشانہ بنے، خواجہ رفیق نے بیرون ملک جانے کے بجائے تحریک پاکستان سے ناطہ جوڑا آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے رہے اور اپنی جائیداد کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا، خواجہ رفیق لوٹنے نہیں بلکہ لٹانے کا نام ہے ،لیاقت علی خان نے بھی اپنی جائیداد کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا تھا۔
انہوںنے کہا کہ میں گزشتہ برسوں سے مسلم لیگ کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں مجھے میدان میں وہ نظر نہیں آ رہی ،آج مسلم لیگ نے اپنی زندگی کا ثبوت دیا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ بحرانوں سے نکلنا کوئی راز نہیں ہے اہل سیاست متحد ہو جائیں اور غیر سیاسی طاقت سے دور رہیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا ،ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہیں گے تو جمہورہت پٹڑی پرنہیں چڑھے گی ،ہم ان کو بھی سمجھاتے رہے جو آج جیل میں ہیں لیکن آج تک شاید وہ ابھی بھی نہیں سمجھے، جو آج اقتدار میں ہیں وہ جیل کا مزہ چکھ چکے ہیں یہ متحد نہ ہوئے تو جیل کی باریاں لگی رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں پاکستان منفرد ملک ہے جہاں حکومت کا مستقبل ہمیشہ زیر بحث ہوتا ہے اب تو ملک کے مستقبل کا سوال ہونے لگ گیا ہے سیاسی لڑائیوں نے ملک اور معیشت کو انتہائی کمزور کر دیا ہے آج ایک ہی راستہ ہے کہ سب طے کرلیں اسلام آباد پر دھاوے کی روش ختم ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ دھرنے والے آج ریٹائرڈ ہو چکے ہیں ،2014 میں دھرنا ہوا تو ہم نے اس کی مخالفت کی تھی ،پاکستان میں ووٹ کے ذریعے ہی حکومت آنی اور جانی چاہیے ورنہ ہم بحرانوں کا شکار رہیں گے ،بنگلہ دیش آج تڑپ رہا ہے، وہ آج ہماری طرف محبت سے دیکھ رہا ہے اور ہمیں محبت سے انہیں جواب دینا ہے۔
سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق نے درست فرمایا پاکستان، جمہوریت اور آئین اہم ہیں، آئین پر عمل کر کے ہی جمہوریت آگے چل سکتی ہے، آئین میں لکھا ہے کہ پارلیمان آئین اور قانون بنا سکتی ہے ہمیں یہ کہنے کا بڑا شوق ہے کہ ملک میں بحران ہے ہم نے آئین اور پارلیمان کے ذریعے ان بحرانوں سے نکلنا ہے۔انہوںنے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں خوبیاں بھی ہیں لیکن ان میں ایک دوسرے کے لئے نفرت بھی ہے جو مفاہمت کی راہ میں رکارٹ ہے، آج ایک فوج کا حامی تو دوسرا مخالف ہوتا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے کو کیا کچھ نہیں کہا لیکن پھر ایک دوسرے سے معافی مانگی گئی اور 10 سال حالات اچھے گزرے آج پی ٹی آئی کا بھی یہی حال ہے۔
انہوںنے کہا کہ اس وقت کے مقتدرہ جنرل پاشا سے جنرل فیض تک سب کہتے تھے کہ مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی کو ختم کر کے ایک جماعت کو آگے لانا ہے ،میڈیا ہائوسز بند کئے گئے لیکن کسی نے کسی کا ساتھ نہیں دیا، مفاہمت ہونی چاہیے لیکن بنیادی باتیں طے ہونی چاہیے مثلا ایک دوسرے کا اقتدار نہیں چھینا جائے گا ،آئین کے نکات سے بالا کوئی مصلحت نہیں ہو گی ،کوئی آئین کو چھیڑے گا تو سب اکٹھے ہو جائیں گے اگر یہ طے نہ ہوا تو مکمل طاقت و اختیار کبھی نہیں ملے گا۔