سپریم کورٹ میں زیر سماعت محکمانہ ترقیوں کے مقدمہ میں بیورو کریسی آمنے سامنے ، اوریا مقبول جان کیس میں 14 اعلیٰ افسران نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں دیدیں ، ان لینڈ ریونیو اور کسٹم کے سینکڑوں افسران فیصلہ پر نظرثانی کیلئے عدالت سے رجوع کر لیا، مقدمے کی سماعت (کل) جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کرے گا، فریقین کو سماعت کے حوالے سے باقاعدہ نوٹسز بھی جاری کردیئے گئے

منگل 25 فروری 2014 07:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25فروری۔2014ء) سپریم کورٹ میں زیر سماعت محکمانہ ترقیوں کے مقدمہ میں بیورو کریسی آمنے سامنے آگئی، اوریا مقبول جان کیس میں 14 اعلیٰ افسران نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں دیدیں جبکہ ان لینڈ ریونیو اور کسٹم سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افسران نے مقدمے کے فیصلہ پر نظرثانی کیلئے عدالت سے رجوع کر لیا۔

مقدمے کی سماعت 26 فروری (کل) جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اقبال حمید الرحمن اور جسٹس دوست محمد خان پر مشتمل تین رکنی بنچ کرے گا۔ عدالت نے فریقین کو سماعت کے حوالے سے باقاعدہ نوٹسز بھی جاری کردیئے ہیں۔ افنان کریم کنڈی ایڈووکیٹ کے ذریعے عدالتی فیصلے پر عمل نہ کئے جانے پر شجاعت علی بنام سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن شاہد رشید کیس میں توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کرنے والوں میں ایڈیشنل سیکرٹری وزارت خزانہ شجاعت علی‘ ایڈیشنل سیکرٹری اقتصادی امور ڈویژن یاسمین مسعود،انشورنس فنڈز گروپ کے ایم ڈی شیر احمد‘ ہوم سیکرٹری پنجاب اعظم سلیمان خان‘ راشد بشیر مزاری ‘ سائنس و ٹیکنالوجی وزارت کے جوائنٹ سیکرٹری محمد اعجاز‘ وزارت پانی و بجلی کے ایڈیشنل سیکرٹری اعجاز علی خان‘ ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیوٹک طارق مسعود‘ ثاقب علیم‘ وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکٹری اطہر حسین خان سیال‘محسن ایس حقانی ‘ آفتاب احمد خان مانیکا ‘ وزیر اعلیٰ سندھ کے سیکرٹری نوید کامران بلوچ اور محمد اسلم حیات شامل ہیں، درخواست گزاروں نے توہین عدالت درخواست میں کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے مملکتی امور کے حوالے سے عدالتی حکم جو 3 اکتوبر 2013 ء کو جاری کیا گیا تھا، پر عمل نہیں کیا ، مختلف گریڈز کی بھرتی بارے پالیسی‘ کیریئر پلاننگ ‘ ملازمین کی سالانہ رپورٹس ‘ انتظامی اصلاحات ‘ بارے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔

(جاری ہے)

عدالتی حکم میں جن افسران کی ترقیاں ختم کرنے کا حکم دیا گیا تھا ان پر عمل کرنے کی بجائے گریڈ 21 کی 88 اسامیوں پر کی گئی ترقی ختم کر دی گئی۔حکومت دوبارہ افسران کی ترقی کے ان کیسوں کو دیکھ رہی ہے‘ لہٰذا حکومت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے جبکہ دوسری جانب ان لینڈ ریونیو کسٹم سے تعلق رکھنے والے افسران نے بھی مذکورہ بالا مقدمے میں فریق بننے کیلئے سپریم کورٹ میں اطہر من الله ایڈووکیٹ کے ذریعے درخواستیں دائر کی ہیں ان میں حکم امتناعی کے حصول کیلئے بھی الگ الگ درخواستیں دی گئی ہیں ،فریق بننے کی درخواست دینے والے ان لینڈ ریونیو افسران میں شہزاد طاہر زمان‘ عبدالحمید سانگی‘ سلطان وزیر خان‘ نوشاد علی خان‘ مسعود اختر شہیدی ‘ رخسانہ سعید‘ ارم عدنان‘ خواجہ عدنان ظہیر‘ ڈاکٹر منظور احمد سمیت ساٹھ افسران شامل ہیں جبکہ کسٹم افسران کی تعداد اس سے کافی زیادہ ہے جنہوں نے مذکورہ بالا مقدمے میں فریق بننے کی استدعا کی ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے بیورو کریسی کی ترقیوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اوریا مقبول جان کیس نمٹا دیا تھا۔ عدالت کے فیصلے سے متاثر ہونے والوں میں سے صرف چند افسران نے نظر ثانی کی درخواستیں دائر کیں جبکہ اب یہ سلسلہ طویل ہوگیا ہے اور افسران بالا چاہتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کے دور میں جو بھی غلط فیصلے ہوئے ہیں ان پر نظر ثانی کی جائے ۔