مردان، عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالب علم کی ہلاکت کے 2الگ الگ مقدمات ایس ایچ او کی مدعیت میں درج

قتل کے مقدمے میں تحصیل کونسلر سمیت یونیورسٹی کے 7ملازمین بھی شامل ، نامزد20 ملزمان میں سے 8گرفتار

جمعہ 14 اپریل 2017 23:32

مردان (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ اپریل ء) عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالب علم کی ہلاکت کے واقعے کے 2الگ الگ مقدمات ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کرلئے گئے، قتل کے مقدمے میں ایک تحصیل کونسلر سمیت یونیورسٹی کے 7ملازمین بھی شامل ہیں نامزد20 ملزمان میں سے 8کو گرفتار کرلیاگیا ،یونیورسٹی ملازمین نے اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لئے احتجاجی ریلی نکالی واقعہ دوسرے روز بھی شہر میں موضوع بحث رہا ، سیکورٹی کے غیر معمولی صورتحال رہی ،یونیورسٹی کے تمام کیمپیسزمیں تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں تاہم دفاتر کھلے رہے پولیس نے ہلاک ہونے والے طالب علم کا سامان قبضے میں لے کر تفتیش کا باقاعدہ آغاز کرلیا تفصیلات کے مطابق گذشتہ روزمبینہ طورپر گستاخانہ گفتگو پر طلباء کے درمیان تصادم کے واقعے میں قتل ہونے والے طالب علم مشال خان کی ہلاکت کے واقعے کا مقدمہ تھانہ شیخ ملتون کے ایس ایچ او سلیم خان کی مدعیت میں درج کرلیاگیااس مقدمے کا ایف آئی آر نمبر233ہے اوراس میں دہشت گردی کے دفعات سمیت دیگر سات دفعات 302/148/149/7ATA/297/109/427بھی شامل ہیں اوراس میں 20ملزمان کو نامزد کردیاہے مبینہ ملزمان میں تحصیل کونسلر عارف خان اور یونیورسٹی کے سات ملازمین اجمل مایار ،افسر آفریدی ،نواب علی ،علی خان ،حنیف ،افسر خان ،سجاد ،سمیت دیگر ملزمان وجاہت ،علی حسن ،عمران ،شعیب ،انس ،نصراللہ ،فرمان ،عمار ،عباس خان ،سنی ،سہراب ،عارف خان بھی شامل ہیں پولیس نے توڑ پھوڑ اورہنگامہ آرائی کا دوسر ا مقدمہ بھی درج کرلیا ہے قتل کے مقدمے میں 20 نامزد ملزمان میں سے 8ملزمان کو گرفتار کر لیاگیاہے پولیس کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلز میں کہاگیاہے کہ زیادہ تر ملزمان کی شناخت ویڈیوز کے ذریعے کی گئی۔

(جاری ہے)

مزید ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس کی تین ٹیمیں تشکیل دیں گئی پولیس نے مشال خان کے کمرے سے ان کے زیر استعمال سامان کو قبضے میں لے کر ان کا جائزہ لینا شروع کردیاہے ادھر یونیورسٹی ملازمین نے اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لئے مظاہرہ کیا درجنوں ملازمین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ ز اٹھار رکھے تھے جن پر گرفتار طلباء کی رہائی کے نعرے درج تھے ادھر واقعے کے باعث یونیورسٹی کے تمام کیمپس بدستور بند رہیں تاہم یونیورسٹی کے دفاتر کھلے رہے اور زیادہ تر عملہ ڈیوٹی پر موجودرہاشہر میں دن بھرواقعہ موضوع بحث رہا مقامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی مردان کا رخ کیا اورجائے وقوعہ کے ساتھ ساتھ شہر میں تفصیلات معلوم کیں جمعہ کی وجہ سے مساجد او رعیدگاہوں میں سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے تھے ادھر متحدہ دینی محاذ نے اپنے ہنگامی اجلاس میں عبدالولی خان یونیورسٹی واقعے رونما ہونے والے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے طلباء کی رہائی کا مطالبہ کیاہے محاذ کے وفد نے ڈپٹی کمشنر مردان اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں ہنگامی اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام کے کے مولانا شجاع الملک ، مولانا امانت شاہ، مولانا قیصر الدین ، جمعیت علمائے پاکستان کے فیاض خان ، مفتی عبدالوکیل، قاری عبدالہادی ظہیر، جماعت اسلامی کے محمد عماد اکبرحسان ، مولانا فضل اللہ، ختم نبوت کے مفتی سجادالحجابی، مولاناندیم مفتی اسد اللہ اور پیپلز پارٹی کے اکرام اللہ شاہد نے شرکت کی اجلاس کے بعد متحد ہ دینی محاذ کے ترجمان محمد عماد اکبرحسان نے میڈیا کو تفصیلات دیتے ہوئے کہا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک طالب علم کی جانب سے گستاخانہ گفتگو کے ارتکاب موجودہ فرسودہ نظام کا شاخسانہ ہے۔

والدین تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت اور انٹرنیٹ اور میڈیا کے استعمال کا خیال رکھیں اجلاس میں طلباء پر دہشت گردی کے دفعات ختم کرنے اور طلبہ کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ کیاگیا۔

متعلقہ عنوان :