پشاور، بچوں کوبوتل کے ذریعے دودھ پلانے کی شرح میں 41 فیصد کی تشویشناک حدتک پہنچ گئی

جمعہ 3 اگست 2018 21:20

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ 3 اگست 2018ء)07-2006 میں ماں کا دودھ پلانے کی شرح 37.1 فیصد جبکہ 13-2012 میں معمولی اضافے کے ساتھ 37.7 ، بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کی شرح 07-2006 میں 32.1 اور 13-2012 میں 41 فیصد کی تشویشناک حدتک پہنچ گئی تھی۔سکیلنگ اپ نیوٹریشن سول سوسائٹی اتحاد کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں ، ماں کے دودھ کے متبادل خوراک سے متعلق قانون پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے جبکہ دودھ پلانے کی غرض سے ملازمت پیشہ خواتین کے لئے ساز گار ماحول فراہم کیا جائے۔

بچوں کو ماں کا دودھ کا پلانا یقینی بنانے کے لئے زچگی کی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ماں کے دودھ کے متبادل مصنوعی غذاؤں کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے۔

(جاری ہے)

ماں کا دودھ زندگیاں بچاکر صحت بہتر بناتا ہے بہترین غذائی جزو کے طور پر ماں کا دودھ بچے کے لئے لازم و ملزوم ہے اور ہر سال 8 لاکھ 20 ہزار زندگیاں بچانے کا باعث بنتا ہے ان میں 87 فیصد 6 ماہ سے کم عمر بچے ہوتے ہیں علاوہ ازیں ماں کا دودھ پینے والے بچے اور نوجوان ذہانت کے امتحان میں بہترین کارکردگی کے حامل ہوتے ہیں۔

ملک میں مخصوص ثقافت کی وجہ سے ماں کے دودھ کی قبولیت کے باوجود بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا رجحان سب سے زیادہ ہے اور جنوبی ایشیائی خطے میں پاکستان میں ماں کا دودھ پلانے کا رجحان سب سے کم ہے اس کا تناسب پاکستان میں بڑھا ہی نہیں، گزشتہ سات سالوں میں بھی اس میں کوئی خاص اضافہ نہیں دیکھا گیا۔ پاکستان ان 118 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے مئی 1981 میں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں بریسٹ فیڈنگ سبسٹی ٹیوٹ کے انٹرنیشنل کوڈ آف مارکیٹنگ کے حق میں ووٹ دیا تھا تاہم اس کے لئے پاکستان میں قانون سازی بہت بعد میں ہوئی اور 2002ء میں پاس ہوا اور پاکستان اس قانون سازی کے ساتھ کوڈ کے آرٹیکلز کو اختیار کرنے والے 42 ممالک میں شامل ہوگیا ۔

اس وقت تمام صوبے بریسٹ فیڈنگ کے تحفظ اور فروغ کے لئے قانون سازی کرچکے ہیں ، تاہم ان قوانین کا اطلاق اب تک نہیں ہوپایا ہے۔