پاکستان کو 10سے 12 ارب ڈالر مالی خسارہ کا سامنا ہے، نئی حکومت کو خسارہ پر قابو پانے کیلئے 12 ارب ڈالر سے زائد کا بیل آئوٹ پیکج درکار ہوگا، آئندہ چھ ہفتوں میں اس حوالے سی فیصلہ کرنا ہوگا

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا بین الاقوامی جریدہ بلوم برگ کو ایک انٹرویو

ہفتہ 4 اگست 2018 00:08

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ 3 اگست 2018ء) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہا ہے کہ پاکستان کو آئندہ چھ ہفتوں میں بارہ ارب ڈالر سے زائد کے بیل آٰئوٹ پیکج کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا۔ جمعہ کو بین الاقوامی جریدہ بلوم برگ کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 10سے 12 ارب ڈالر مالی خسارہ کا سامنا ہے، نئی حکومت کو خسارہ پر قابو پانے کیلئے 12 ارب ڈالر سے زائد کا بیل آئوٹ پیکج درکار ہوگا اور اس حوالہ سے بیل آئوٹ کے ذرائع کا فیصلہ چھ ہفتوں میں کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان زرمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر میں اضافہ کیلئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دوست ممالک سے رجوع اور بانڈز کا اجراء کرسکتا ہے۔

(جاری ہے)

بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بڑھتا ہوا مالی خسارہ عمران خان کیلئے ایک اہم چیلنج ہے جو حالیہ عام انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے بعد اتحادی حکومت بنانے جارہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں اضافہ سے رواں سال ذرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی ہے جس سے مرکزی بنک کو کرنسی کی قدر میں چار فیصد کمی اور شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا جبکہ سرمایہ کاروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیل آئوٹ کیلئے چین یا آئی ایم ایف سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ ان کی جماعت نے تاحال کسی سے قرض کے حوالہ سے بات چیت نہیں کی ہے اورحکومت کے قیام تک اس پر باضابطہ کام شروع نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہاکہ وہ پاکستان میں 60ارب ڈالرسے زائد مالیت کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں مزید شفافیت لائیں گے۔ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے حالیہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کیلئے دوستانہ مشورہ ہے کہ انہیں پہلے اپنے چینی قرضہ کی فکر کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں چینی قرضے کا مسئلہ درپیش نہیں ہے، ہمیں غیرملکی قرضوں کے سنجیدہ مسئلے کا سامنا ہے۔

اسد عمر نے کہاکہ ان کی جماعت پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز کی طرح خسارہ میں جانے والے قومی اداروں کی نجکاری نہیں کرے گی۔انہوں نے کہا کہ نئی انتظامیہ کے پہلے 100 دنوں میں سرکاری اداروں کو سنگا پور کے تماسیک ہولڈنگز پرائیویٹ کی طرز کے ویلتھ فنڈ پر شفٹ کیا جائے گا تاکہ ان اداروں میں سیاسی اثرورسوخ ختم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جو اقدامات آئندہ چند ہفتوں میں کئے جانے ہیں یہ تمام چیزیں چھ ماہ پہلے کرنی چاہئیں تھیں۔

اسد عمر نے کہا کہ کرنسی کی قدرکے حوالے سے فیصلہ وزارت خزانہ کو نہیں بلکہ سٹیٹ بنک کو کرنا چاہئے اور یہ معاشی بنیادوں پر ہونا چاہئے۔ٹیکسوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نئی حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور زراعت کیلئے ٹیکسوں میں کمی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ خطے کے ممالک کے ساتھ کاروباری مسابقت میں اضافہ کیا جاسکے۔