عجائب گھروں کی دنیا

Dr Syed Muhammad Azeem Shah Bukhari ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری بدھ 2 ستمبر 2020

ajaib gharoon ki dunya
16- کیلاش میوزیم بمبوریت
شہروں کی ہلچل سے بہت دور کیلاش کی خوبصورت و پُراسرار وادی میں موجود اس حسین عجائب گھر کی روائتی عمارت لکڑی اور پتھر سے بنائی گئی ہے جس میں قدیم و جدید کی آمیزش اس طرح سے کی گئی ہے کہ جیسے یہ کسی دورِ جدید کے کیلاشی راجا کا محل ہو۔ اس میوزیم کو مقامی زبان میں ''دُر کالاشہ'' کہا جاتا ہے جبکہ اس کا نام بمبوریت میوزیم ہے۔

بمبوریت میں واقع اس میوزیم کو 2005 میں مکمل کیا گیا۔ یہاں تقریباً 1300 نوادرات محفوظ ہیں جو عمومی طور پرکوہِ ہندوکش اور خصوصی طور پر وادئ کیلاش کی ثقافت ، معاشرت اور رہن سہن کو اجاگر کرتے ہیں۔
یہاں رکھے جانے والے زیادہ تر نوادرات ''یونانی رضاکار'' نامی تنظیم سے حاصل کئے گئے ہیں جو 1995 سے ان وادیوں میں کام کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

بہت سے قدیم اور نادر برتن پشاور اور چترال سے بھی خریدے گئے ہیں۔


اس عمارت میں دو منزلیں ہیں۔ نیچے کیلاش اور ہندوکش کے لوگوں کی خاندانی اشیاء رکھی گئی ہیں جن میں کیلاشی خواتین کے بنائے ہوئی کپڑے، ٹوکریاں، قدیم اور بھاری زیور، چمڑے کے پرس، گھریلو برتن، موسیقی کے آلات اور کام والے دروازے اور کھڑکیاں شامل ہیں۔ خوشی کی بات یہ کہ یہ سب سامان بہت اچھے طریقے سے محفوظ کیا گیا ہے۔  جبکہ اوپری حصے میں ایک کیلاش پر لکھی گئی کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری، مقامی ہنرمندوں کے لیئے ایک ٹریننگ سنٹر اور ایک سکول قائم ہے جہاں کیلاشی بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

زندگی میں ایک بار یہ وادی اور یہ عجائب گھر ضرور دیکھنے جائیے گا۔
17- شیر شاہ سوری میوزیم، قلعہ روہتاس
جہلم کی تحصیل دینہ کے پاس واقع قلعہ روہتاس، یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کا حِصہ ہے۔ ویسے تو یہ قلعہ خود کسی عجوبے سے کم نہیں ہے لیکن اس کے اندر بھی ایک چھوٹا سا عجائب گھر بنایا گیا ہے جہاں شیرشاہ سوری اور اس کے دورِ حکومت سے متعلق تمام اشیاء نمائش کے لیئے رکھی گئی ہیں اور اسی بنیاد پر اسے شیر شاہ سوری کے نام سے منسوب کیا گیا ہے ۔

اس میوزیم میں رکھا گیا جنگی سازوسامان اور پرانے سکے (سکندر لودھی اور ہمایوں کے دور کے) بہت نفاست سے رکھے گئے ہیں ۔ دیگر اہم نوادرات میں قرآن کریم کے اٹھارویں صدی کے قلمی نسخے، مختلف پہناوے خصوصاً جنگی پوشاکیں ، بھاری تلواریں  ،ڈھالیں اور قلعے کا ایک جامع ماڈل شامل ہیں۔
18- ٹولنٹن مارکیٹ میوزیم
ٹولنٹن مارکیٹ ایک معروف اور تاریخی نام ہے، اس نام کے ساتھ جو تصور ابھرتا ہے، وہ ایک ایسی مارکیٹ کا ہے، جسے آج کے دور میں میں شاپنگ مال کہا جاتا ہے، لیکن یہ مارکیٹ کوئی عام مارکیٹ نہیں ہے ۔


اسے قیام پاکستان سے قبل انگریز دور حکومت میں بنایا گیا تھا جہاں کتابوں سے لے کر بچوں کے کھلونے ادویات اور راشن سمیت ہر شے کی دکانیں تھیں۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ یہ عمارت خستہ ہوگئی۔ گرنے کے خدشے کے پیش نظر اسے منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ تاجروں نے احتجاج کیا۔ خاصے عرصے تک کشمکش ہوتی رہی، بالآخر جیل روڈ پر ایک نئی مارکیٹ تعمیر کر کے پرانی مارکیٹ کے تاجروں کو وہاں منتقل کر دیا گیا۔

پرانی مارکیٹ کو میوزیم میں تبدیل کر کے اسے لاہور کی تاریخ کا مرکز بنا دیا گیا ہے جو اب ''لاہور سٹی ہیریٹیج میوزیم'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سبز اور پیلے رنگ کی خوبصورت عمارت انارکلی کے قریب چوک کے کونے پر کھڑی ہے۔
لاہور شہر میں جتنے بھی میوزیم ہوں وہ کم ہیں۔ اس شہر کی تاریخ، اسکا ماضی اتنا وسیع ہے کہ سنبھالے سے بھی نہ سنبھل پائے۔

لاہور سٹی میوزیم اس تناظر میں ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ اس خوبصورت عمارت کے اندر واقع یہ عجائب گھر دیکھنے والوں کو لاہور کے شاندار ماضی میں لے جاتا ہے جہاں آپ لاہور پر حکمرانی کرنے والے مغل و سکھ بادشاہوں کے پورٹریٹس، انکی استعمال شدہ تلواریں اور دیگر نادر اشیاء دیکھ سکتے ہیں۔
19- پی اے ایف میوزیم کراچی
یوں تو پاکستان کی تقریباً ہرائیر بیس میں چھوٹا موٹا کوئی نہ کوئی میوزیم موجود ہے لیکن پی اے ایف میوزیم کراچی کو ہم ائیر فورس کا فخر کہہ سکتے ہیں جہاں فضائیہ کے متروک جنگی ہوائی جہازوں اور ان کی اشیاء کو خوبصورتی سے نمایاں کیا گيا ہے۔

1990 میں بنائے جانے والے اس میوزیم کی کہانی ائیر بیس میں  دور دراز واقع ایک جہازوں کے شیڈ سے شروع ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع میوزیم میں بدل گیا۔ یہاں زیادہ تر پرانے جہازوں، ہتھیاروں اور پاکستان ائیر فورس کے ریڈاروں کو باہر پارک میں رکھا گیا ہے جبکہ فضائیہ کے تمام مرکزی لڑاکا طیارے اندر ہال میں موجود ہیں۔ یہاں قائدِ اعظم کے استعمال میں رہنے والا وائیکر-1 ائیرکرافٹ اور 1965 کی جنگ میں پسرور میں لینڈ کرنے والا انڈین ائیر فورس کا طیارہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

جنگِ عظیم اول اور دوم کے کچھ جہازوں کے علاوہ یہاں پاکستان ائیر فورس کی تصویری گیلری بھی ہے۔ یہاں بچوں کے کھیلنے کی جفہ اور خوبصورت فوڈ کورٹ بھی بنایا گیا ہے۔
20- پُشکلاوتی میوزیم چارسدہ
2006 میں قائم کیا جانے والا پُشکلاوتی میوزیم چارسدہ میوزیم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پشکلاوتی چارسدہ شہر کا قدیم نام تھا جو چھٹی سے پہلی قبلِ مسیح میں گندھارا سلطنت کا پہلا پایہ تخت تھا۔

پشکلاوتی کا لفظی مطلب ''کنول کے پھولوں کا شہر'' ہے جبکہ یہ ایک دیوی کا نام بھی ہے۔ آج بھی چارسدہ شہر اور گرد ونوح میں کنول کے پھول جا بجا ملتے ہیں۔
چارسدہ سے 4 کلومیٹر شمال میں واقع غنی ڈھیرئی، باچا خان کے بیٹے عبدل غنی خان کے نام پر رکھی گئی ہے جو ایک شاعر، فلاسفر اور آرٹسٹ تھے۔ 2001 میں خیبر پختونخواہ حکومت نے ان کے اعزاز میں یہاں ایک لائبریری اور مشاعرہ ہال قائم کیا اور اس کے بعد 2006 میں یہیں پُشکلاوتی میوزیم بنایا گیا جہاں گندھارا تہزیب کے نوادرات رکھے گئے ہیں۔


21- سندھ میوزیم حیدرآباد
سندھ دھرتی قدرت کے ہزاروں راز اپنے اندر سموئے ہوئے ایک سحر انگیز خطہ ہے۔ اس کے مختلف رنگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن سندھ میوزیم حیدرآباد میں اس دھرتی کے چند رازوں کو کامیابی سے محفوظ کیا گیا ہے۔ 1971 میں بنائے جانے والے سندھ میوزیم میں بنیادی طور پر وادئ سندھ کی قدیم تہذیب اور سندھ دھرتی کے مختلف ادوار جن میں سامرا، کلہوڑا اور تالپور دور شامل ہیں، کو محفوظ کیا گیا ہے۔


عجائب گھر کا مرکزی دروازہ کسی قلعے کے داخلی دروازے سے مشابہت رکھتا ہے جس پر نیلا ٹائل ورک کیا گیا ہے۔ عجائب گھر کی ایک منفرد چیز وہ گھر ہے جسے سندھی ثقافت و دستکاریوں سے مزین کیا گیا، جس میں آپ سندھ کی روزمرہ گھریلو زندگی، لوگ، ان کے پہناوے، کھانے اور دیگر اہم امور کو دیکھ سکتے ہیں۔
22- مردان میوزیم
مردان شہر میں واقع یہ میوزیم 1991 میں اس وقت کے کمشنر کی زیر سرپرستی ٹاؤن ہال میں بنایا گیا تھا جس میں 90 فن پاروں پر مشتمل ایک ہی گیلری تھی۔

پھر 2006 میں ضلعی حکومت مردان کے زمین فراہم کرنے کے بعد اس میں 3 گیلریوں کا اضافہ کیا گیا جس کا افتتاح 2009 میں اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخواہ نے کیا۔
یہاں تین گیلریاں موجود ہیں جن میں گندھارا، اسلامی اور ثقافتی کیلریز شامل ہیں۔
گندھارا گیلری کے زیادہ تر لوازمات تخت بھائی، سیری بہلول اور جمال گڑھی سے دریافت شدہ ہیں۔ تخت بھائی ان جگہوں میں سے ایک ہے جہاں وسیع کھدائیوں کے بعد گندھارا سلطنت کی کئی قیمتی اور منفرد اشیاء اور مجسمے دریافت کیئے گئے ہیں جن میں بدھا کے مجسمے، پتھروں پر کندہ ان کی زندگی کے حالات، سٹوپے اور زیورات شامل ہیں۔

مردان میوزیم گندھارا تہزیب کی حسین ترین باقیات کا امین ہے۔
اسلامی گیلری میں آٹھویں سے تیرہویں صدی کے مخطوطات ، قرآن پاک کے قلمی نسخہ جات اور عربی و فارسی میں لکھی شاعری رکھی گئی ہے۔
آخری گیلری میں علاقائی ثقافت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہاں موجود نوادرات میں روایتی زیورات، لکڑی کے سٹول، ہتھیار، کام والے لباس، شالیں، موسیقی کے آلات جیسے رباب، ستار، طبلہ، بانسری اور ہارمونیم وغیرہ شامل ہیں۔


23- گوڑکھتری سٹی میوزیم پشاور
پشاور شہر کے پرانے حصے میں گھنٹہ گھر اور فوڈ سٹریٹ کے ساتھ واقع یہ میوزیم، گوڑ کھتری کمپلیکس کا حصہ ہے جس میں سٹی میوزیم کے علاوہ تحصیل پارک، گورکھ ناتھ مندر،مسجد امام ابو حنیفہ، فائر بریگیڈ کی پرانی عمارت اور کچھ پرانے کھنڈرات واقے ہیں۔ ایک پرانی عمارت کی اوپری منزل پر واقع یہ میوزیم پشاور شہر کی تاریخ  اور پختان ثقافت کا عکاس ہے۔

یہاں شیشے کی بڑی بڑی الماریوں میں چاندی اور مختلف سھاتوں کے زیورات، مردانہ و زنانہ ملبوسات، جوتے خصوصاً مختلف اقسام کی پشاوری چپل، کانسی  و تانبے کے برتن، پرانے وقتوں میں  تجارت کے لیئے لائے جانے والے چینی کے برتن، روز مرہ زندگی کا سامان، آلاتِ موسیقی، مٹی کے ظروف اورکھنڈرات سے دریافت کردہ کچھ تاریخی چیزیں دیکھی جا ستی ہیں۔

اس میوزیم کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہین۔
24- عجائب گھر عمر کوٹ
صحرائے تھر کے خوبصورت شہر عمر کوٹ کا عجائب گھر قلعہ عمر کوٹ کے اندر واقع ہے جو 1968 میں قائم کیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ پچاس سال پرانا میوزیم ہے۔ وقفے وقفے سے اسکو پھیلایا گیا اور 2006 میں اسے ایک نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا جو بنیادی طور پہ تین گیلریوں پر مشتمل ہے۔

یہاں اہلِ ذوق کی دلچسپی کی بہت سی چیزیں ہیں جن میں مغل دور کے سِکے، بندوقیں، تلواریں، تیر کمان، ڈھالیں، زرہ بکتر، قلمی نسخے، تصاویر، شاہی فرمان اور خطاطی کے شاندار نمونے شامل ہیں۔ جبکہ دیواروں تھرپارکر کی تصاویر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ جبکہ سندھ کی ثقافت کو بھی ہائی لائیٹ کیا گیا ہے۔
25- پنجند میوزیم
پنجند پانچ دریاؤں کے سنگم پر واقع ہے جہاں راوی، بیاس، ستلج، جہلم اور چناب کا پانی آپس میں ملتا ہے۔

اس مقام پر ایک ہیڈ ورکس بنایا گیا ہے۔ انگریز دور میں تعمیر ہونے والا یہ ہیڈ ورکس ضلع مظفر گڑھ اور بہاولپور کے بیچ واقع ہے۔ علی پور شہر سے چند کلو میٹر پر واقع یہ ہیڈ ورکس اور یہ مقام، پچھلی ایک صدی سے بہاولپور، رحیم یار خان اور مظفر گڑھ سمیت پورے وسیب کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔
بلاشبہ اس ہیڈورکس کی تعمیر بہت جان جوکھوں کا کام تھا۔

اس لیئے سکھر بیراج کی طرح اِس تاریخی اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیڈ ورکس کی تعمیرو تاریخ کو محفوظ رکھنے کے لیئے اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا میوزیم قائم کیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں آبپاشی کے مختلف ذرائع اور تاریخ،  پنجند ہیڈ ورکس کی تعمیر کے دوران استعمال ہونے والے نایاب آلات، ہیڈورکس کی تعمیر کے دوران بنائی گئی یادگار تصاویر، ہیڈ ورکس اور اس سے نکالی جانے والی تمام نہروں کا ماڈل موجود ہے۔

مخدوش حالت میں موجود یہ میوزیم ہیڈورکس کے کنارے پر موجود ہے اور ہر خاص و عام کے لیئے کُھلا ہے۔
26- اقبال منزل، سیالکوٹ
سیالکوٹ شہر کے دل میں واقع ''اقبال منزل'' شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ کی جائے پیدائس ہے جہاں انکی یاد میں ایک چھوٹا سا میوزیم بنایا گیا ہے۔
اقبال منزل حضرت علامہ کے پردادا محمد رفیق نے 1861 میں خریدی تھی۔

یہ ایک بہت چھوٹا سا گھر تھا جو آنے والے وقتوں میں بڑا ہوا چلا گیا۔ یہ گھر علامہ اقبالؒ کو ترکے میں ملا جہاں ان کے بیٹے جاوید اقبال کی پیدائش ہوئی۔
حکومتِ پاکستان نے 1971 میں یہاں مرمتی کام کروا کے اسے محکمہ آثارِ قدیمہ کے حوالے کر دیا جس نے1977 میں  یہاں اقبال سے متعلق ایک میوزیم قائم کر دیا۔
یہاں مختلف کمروں میں علامہ اقبالؒ اور ان کے خاندان کے زیرِ استعمال چیزیں مثلاً ان کا پلنگ، کرسی، میز، قلم دوات، پردے اور انکی کتابیں رکھی گئی ہیں۔

علامہ محمد اقبالؒ کی دوستوں ، اساتزہ اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ یادگار و نایاب تصاویر بھی یہاں دیکھی جا سکتی ہیں جن میں سے کئی ایک پر ان کے دعتخظ ثبت ہیں۔
کچھ کمرے مرمت و بحالی کی غرض سے بند کر دیئے گئے ہیں۔ نیچے بنائی گئی لائبریری میں قریباً 4000 کتابیں موجود ہیں جن میں سے دو ہزار صرف اقبالیات پر ہیں اور یہ سب دیکھنے والوں کی طرف سے عطیہ کردہ ہیں۔


27- دیر میوزیم چکدرہ
دیر میوزیم جسے عام طور پر چکدرہ میوزیم بھی کہا جاتا ہے، ضلع لوئر دیر کے علاقے چکدرہ میں واقع ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے محکمہ آثارِ قدیمہ نے 1969-1966 میں اس علاقے میں کھدئیاں کیں تو یہوں سے دریافت شدہ نوادرات کو محفوظ کرنے کے لیئے اس وقت کی ریاستی حکومت نے ایک عجائب گھرتعمیر کروایا۔  یہ میوزیم وادی سوات اور چکدرہ کی کھدائیوں سے ملنے والی گندھارا تہزیب کا حسن لیئے ہوئے ہے۔

اسکی بنیاد 1970 میں رکھی گئی جبکہ اسکا افتتاح 1979 میں کیا گیا۔
خوبصورت علاقائی طرزِ تعمیر کے عین مطابق بنایا گیا یہ میوزیم حکومتِ پختونخواہ کے انجینئر سیدل خان نے ڈیزائن کیا تھا جس کی تعمیر میں اس علاقے کا مظبوط ''مالاکنڈی پتھر'' استعمال کیا گیا۔ میوزیم کے عمارت کسی قلعے سے مشابہہ ہے جس کا سامنے کا رخ چوڑا رکھا گیا ہے اور داخلی دروازے پر ایک محراب بنائی گئی ہے۔

ریاستِ دیر کے پختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد اس کا نظام صوبائی حکومت کو دے دیا گیا۔
چکدرہ میوزیم میں نوادرات کی کل تعداد 2161 ہے جس میں سے 1444 نوادرات گندھارا تہزیب کے ہیں۔ یہاں رکھے گئے نوادرات اندن ڈھیری، جبہ گئی، بمبولائی،رامورہ، تری بانڈہ، دمکوٹ، باجوڑ، تالاش، دیر، مالاکنڈ ،جندول اور تیمرگرہ کی کھدائیوں سے لائے گئے ہیں۔ ان نوادرات میں گوتم بدھا کے مجسمے، پتھروں پر کُھدی انکی پیدائش سے پہلے اور بعد کی کہانیاں، انکے معجزات، بدھا کی مورتیوں کے سرشامل ہیں۔

ان کے علاوہ ثقافتی گیلری میں علاقائی برتن، لباس، زیور، ہتھیار، آلاتِ موسیقی اور فرنیچر شامل ہیں۔ افر آپ سوات اور کالام کی سیر کو جائیں تو یہ میوزیم دیکھنا مت بھولیئے گا۔
28- بھنبھور میوزیم
 بھنبھور سندھ، میں واقع ایک قدیم شہر تھا جس کی تاریخ پہلی صدی قبل مسیح تک ہے  ۔
2004 میں محکمۂ آثارِ قدیمہ و عجائب گھر حکومتِ پاکستان نے اس مقام کو یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ مقامات کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے پیش کیا
نیشنل ہائی وے پر کراچی سے ٹھٹھہ کی طرف جائیں تو ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر دھابیجی اور گھارو کے درمیان سسی کے شہر بھنبھور اور قاسم و داہر کے دیبل کے آثار ہیں۔

جس کے ساتھ ایک عجائب گھر بھی واقع ہے۔
بھنبھور آثارِ قدیمہ میوزیم سندھ کے جنوبی شہر بھنبھور میں واقع ہے جسکا قدیم نام دیبل تھا۔ یہ میوزیم بھنبھور کی تاریخ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے محکمہ آثارِ قدیمہ حکومتِ پاکستان نے اگست 1960 میں قائم کیا۔ اسکا افتتاح 1967 میں کیا گیا۔
بھنبھور ایک انتہائی قدیم علاقہ ہے جہاں بہت سی پرانی  آبادیوں کے آثار دریافت کیئے گئے ہیں جو اب یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کا حِصہ ہیں۔

کہتے ہیں کہ یہ شہر 2100 سال سے بھی زیادہ قدیم ہے جو دسویں صدی میں وہاں کے راجہ بمبو کے نام پر تھا۔ زیادہ تر کتابوں، محققین اور تاریخ دانوں نے اسے ''دیبل'' کے نام سے یاد کیا ہے جہاں سے محمد بن قاسم کے لشکر نے برصغیر کی دھرتی پہ قدم رکھا تھا اور اسے اسلام کے نور سے منور کیا تھا۔
کھدائیوں سے دریافت کی جانے والی مختلف اشیاء میوزیم کا حصہ ہیں جن میں مٹی کے برتن و نوادرات شامل ہیں۔


29- سوات میوزیم
خیبر پختونخواہ کی وادئ سوات جتنی حسین و دلکش ہے اتنا ہی زرخیز یہاں کا تاریخی و ثقافتی ورثہ ہے۔ یہ وادی گندھارا تہزیب کا گڑھ رہی ہے جس نے اسکی اہمیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ اسی تہزیب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے منگورہ کا سوات میوزیم۔ کہتے ہہیں کہ اس عجائب گھر کا مشورہ والئ سوات کو ایک اطالوی مشن نے دیا تھا اور اس کا جڑواں میوزیم روم میں کھولا گیا تھا۔

سوات میوزیم کی موجودہ عمارت کو مختلف مراحل میں مکمل کیا گیا ہے۔ ماضی میں 2005 کے زلزلے نے اسے بہت نقصان پہنچایا اور پھر 2007 میں طالبان کے ساتھ جنگ میں اسے بند کر دیا گیا جبکہ اس کے نوادرات کو ٹیکسلا منتقل کر دیا گیا۔ اسی دوران اس کی عمارت کے قریب ایک بم دھماکے نے اسے شدید نقصان پہنچایا۔ 2011 میں اس کے تمام نوادرات کو واپس لا کر اسے دوبارہ سے عوام الناس کے لیئے کھول دیا گیا۔


اس خوبصور میوزیم کو اطالوی معماروں نے ڈیزائن کیا ہے۔ سوات کے عجائب گھر میں گندھارا سلطنت سے تعلق رکھنے والے بُدھا کے مجسمے اور دیگر متبرک اشیاء رکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں منفرد قسم کا علاقائی سواتی فرنیچر، ملبوسات اور زیورات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
30- چغتائی آرٹ میوزیم، لاہور
لاہور شہر میں کلمہ چوک کے بالکل پاس واقع یہ میوزیم پاکستان کے مشہور پینٹر عبدالرحمان چغتائی (1975-1897) کی خوبصورت کلیکشن پر مبنی ہے۔

''خان بہادر'' کے لقب سے یاد کیئے جانے والے چغتائی صاحب جنوبی ایشیاء کے واحد جدید مسلمان مصور تھے جو تجدیدی و کلاسیکل آرٹ میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔  چغتائی صاحب کی مصوری میں ہمیں دو روایات کا ملاپ نظر آتا ہے۔ ایک طرف ایرانی، ترک اور مغل مصوری ہے، دوسری طرف بنگالی مصوروں کی بنائی ہوئی وہ تصاویر ہیں جو جدید انڈین مصوری کی بنیاد رکھتی ہیں۔

ان کی آرٹ میں مغلیہ دور کو ایک نئی جدت کے ساتھ پیش کیا گیا۔ جنہیں 1960 میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ہلالِ امتیاز اور 1968 میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ علامہ محمد اقبال، پِکاسو اور ملکہ الزبتھ دوئم بھی آپ کے چاہنے والوں میں سے تھے۔
آپ کی وفات کے بعد 1975 میں آپ کے نام سے یہ میوزیم بنایا گیا جہاں آپ کی پینٹنگز، پینسل سکیچ، مغلیہ آرٹ کے نادر شاہکار اور نمائش کے لیئے رکھے گئے ہیں۔

چونکہ یہ میوزیم نجی تحویل میں ہے لہٰزا جانے سے پہلے وقت لے لیں تو مناسب ہو گا۔
31- سکھر بیراج میوزیم
تقسیم ہند سے ساڑھے تین دہائی قبل برٹش گورنمنٹ نے سرزمین سندھ کو سرسبز و شاداب بنانے اور پانی کے ضیاع کو روک کر دور دراز علاقوں میں بسنے والے انسانوں تک پہنچانے کے لیے سکھر بیراج کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا۔

یہ اپنے وقت کا ایک عظیم الشان منصوبہ تھا جس پر کثیر سرمایہ اور وقت لگا۔
بیراج کے بننے کے بعد، اہلِ ذوق نے سکھر بیراج کی تاریخ اور تعمیر کو محفوظ رکھنے کے لیئے بیراج کے بالکل پاس ایک چھوٹا سا میوزیم بھی بنایا گیا جو ''سکھر بیراج میوزیم'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔  یہاں بیراج سے متعلق قیمتی دستاویزات، بیراج کا ماڈل، اس سے نکالی جانے والی نہروں کی تفصیل، پرانی تصاویر اور اخباری تراشے رکھے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ بیراج کی تعمیر میں استعمال ہونے والی مشینری جیسے کرین، کشتیاں، روڈ رولر وغیرہ بھی رکھی گئی ہیں۔
سب سے قابلِ ذکر چیز نئی بنائی جانے والی فوٹو گیلری ہے جہاں درجہ بدرجہ بیراج کی تعمیر دکھائی گئی ہے۔ تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو یہ میوزیم ایک بار ضرور دیکھنا چاہیئے۔
32- نیشنل ہسٹری میوزیم لاہور
سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کے قلب میں دودھ سی سفید ایک خوبصورت چمکتی ہوئی عمارت موجود ہے. یہ کولمبو نیشنل میوزیم ہے. پچھلے سال اس نیشنل میوزیم کو دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں سری لنکا کی تاریخ و ثقافت اور دستکاریوں کو سلیقے سے نمائش کے لیئے رکھا گیا تھا. اس میں سری لنکا کی جدید تاریخ اور فنونِ لطیفہ پر خاص توجہ دی گئی تھی. یہ میوزیم دیکھتے ہوئے میں شدت سے یہ سوچ رہا تھا کہ کاش اس طرح کا ایک میوزیم پاکستان میں بھی ہوتا جہاں صرف ادب، موسیقی، دستکاریاں اور مختلف فنونِ لطیفہ نمایاں کیئے جاتے. شاید وہ وقت قبولیت کا تھا. پاکستان پہنچنے کے فوراً بعد مجھے لاہور کے نیشنل ہسٹری میوزیم کا پتہ چلا. یہ میوزیم ابھی ابھی بنا تھا بلکہ یوں کہیں کہ ابھی اسکا ”آخری ٹچ“ باقی تھا لیکن مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں دوستوں کو منت کر کہ وہاں لے گیا.
خوش قسمتی سے میوزیم عوام کے لیئے کھول دیا گیا تھا. باہر عمارت کی خوبصورتی سے ہی اندر کی نفاست کا اندازہ لگا لیا اور میرا اندازہ بالکل ٹھیک تھا.
لاہور کا عظیم الشان عجائب گھر کئی گیلریوں پر مشتمل ہے جہاں قیامِ پاکستان اور اس دور کے حالات کو ترتیب سے دکھایا گیا ہے. اس لیئے میں سمجھتا ہوں کہ وہاں پاکستان بننے کے بعد کے فنونِ لطیفہ پر خاص توجہ نہیں دی جا سکی (کراچی کا نیشنل میوزیم میں نے دیکھا نہیں اس لیئے کوئی رائے نہیں دے سکتا).  قصور ،بہاولپور اور سوات کے عجائب گھر وہاں کی مقامی تاریخ اور کرافٹس پر مشتمل ہیں.  پشاور کا میوزیم گندھارا آرٹ کا شاہکار ہے. جبکہ ہڑپہ اور ٹیکسلا کے میوزیم میں قدیم اشیاء رکھی گئی ہیں . ایسے میں قومی سطح کے میوزیم کی سخت ضرورت تھی جہاں پاکستان کی قدیم و جدید تاریخ سمیت فنونِ لطیفہ اور آرٹسٹس پر بھی خاص روشنی ڈالی جائے اور یہ کام لاہور کے نیشنل میوزیم سے بخوبی لیا گیا ہے۔

.
اس میوزیم کا محلِ وقوع بھی بہت تاریخی ہے۔ یہ لاہور کے ''گریٹر اقبال پارک'' میں واقع ہے جہاں مینارِ پاکستان اور حفیظ جالندھری کے مرقد جیسی تاریخی جگہیں موجود ہیں۔  35000 اسکوائر فٹ کے رقبے پر محیط اس میوزیم کی عمارت نصف گولائی میں بنائی گئی ہے جس کا افتتاح اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے اپریل 2018 میں کیا تھا جب کہ اسے عوام الناس کے لیئے یکم جولائی کو کھولا گیا۔


اس خوبصورت میوزیم کی عمارت ''پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی نے بنائی ہے اور اب یہ ''سٹیزن آرکائیوز آف پاکستان'' کی تحویل میں ہے جو تاریخ، ثقافت اور ورثے سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم ہے ۔
نصف گولائی میں بنائے گئے میوزیم میں ایک جانب داخلہ تو خروج مخالف سمت میں رکھا گیا ہے۔ میوزیم کو پانچ مختلگ گیلریز میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں تاریخ ، ادب، کھیل، ثقافتی سرگرمیاں، موسیقی، فلم، زبان، مجسمہ سازی،  ذرائع نقل و حمل، دستکاریاں، ڈاک کا نظام، فوٹوگرافی ، آلاتِ حرب اور منظر کشی سے متعلق قدیم و جدید سامان کو نمائش کے لیئے رکھا گیا ہے۔

آئیئے تفصیلاً ان کا جائزہ لیتے ہیں.
٭ اندر داخل ہوتے ہی پہلی گیلری تقسیم سے پہلے اور بعد کے اہم واقعات کی دستاویزات، تصاویر اور ویڈیوز سے مزین ہے جہاں آپ ہر سال کے حساب سے اس سال کے اہم واقعات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ یہاں قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور پاکستان بننے کے بعد کے حالات کو ترتیب اور نفاست سے دکھایا گیا ہے۔ برِصغیر کے خوبصورت نقشوں سے لے کر قائدِ اعظم اور اہم رہنماؤں کی نایاب تصاویر تک سب یہاں موجود ہیں.
٭دوسری گیلری میں تقسیم کے دردناک مناظر کی منظر کشی کی گئی ہے۔

اس میوزیم میں تاریخ کو واضح کرنے کے لیئے نہ صرف تصاویر بلکہ آڈیو اور ویڈیوز سے بھی مدد لی گئے ہے۔ یہاں قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کے مناظر اور مہاجرین کے کپڑوں سمیت ان کی اشیاء بھی دکھائی گئی ہیں۔ ایک حِصہ میں مہاجرین کی چیخیں گونج رہی ہیں جو دیکھنے والے کو انکی تکلیف کا اندازہ لگانے پر مجبور کرتی ہیں۔
٭تیسری گیلری کے دو حصے ہیں ۔

ایک میں اُس وقت کے واہگہ ریلوے اسٹیشن کی منظر کشی کی گئی ہے جہاں ایک پرانا ٹرین کا ڈبہ اور بنچ رکھا گیا ہے.ساتھ ہی  تقسیم کے بعد کے حکومتِ پاکستان کے دفاتر، اسٹیشنری اور ٹیلی فون وغیرہ رکھے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں پاک فوج کی تینوں شاخوں، بری، بحری اور فضائیہ سے متعلق سامانِ حرب رکھا گیا ہے۔ ان میں جہازوں، آبدوزوں، کشتیوں اور ٹینکوں کے ماڈل سے لے کہ پاکستان کے تمام سول و ملٹری تمغہ جات انکی تفصیل کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔


٭چوتھی گیلری کو اگر میوزیم کی سب سے دلچسپ و رنگین جگہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ یہ گیلری پاکستان کے فنونِ لطیفہ سے متعلق ہے۔ یہاں پاکستانی فلمی صنعت ''لالی وڈ'' کی مشہور پرانی فلموں کے پوسٹرز، لالی وڈ کی تاریخ، مشہور فلمی شخصیات کا تعارف،  گلوکاروں کے پورٹریٹس، مشہور غزل گائیکوں کی تصاویر انکی غزلوں کی آڈیوز سمیت نمائش کے لیئے رکھی گئی ہیں۔

یہاں 60 کی دہائی کی پاکستانی فلمی صنعت کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک حِصہ فوٹوگرافی کے متعلق بھی ہے.
٭ آخری ہال میں کھیل و ثقافت اور ذرائع نقل و حمل کو رکھا گیا ہے۔ سب سے پہلے آپ پاکستان کے مشہور کھیلوں کی تاریخ تصاویر سمیت دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کونے میں ایک چھوٹا سا پروجیکٹر لگا کر سینما ہال بنایا گیا ہے جہاں مختلف معلوماتی ڈاکومینٹریز دیکھی جا سکتی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ایک سکرین پر قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کھیل کے میدان میں پاکستان کی اہم پیش قدمیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک حِصہ ملکہ ترنم نور جہاں اور مشہور پاکستانی آرٹسٹ صادقین کی خدمات کے لیئے مختص ہے جہاں ملکہ ترنم کے گانے بھی سُنے جا سکتے ہیں۔ یہاں پشاور ریلوے اسٹیشن کا ایک ماڈل اور پاکستانی ٹرین کو خوبصورت نظاروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

پاکستان پوسٹ اور پاکستانی پاسپورٹ کے بارے اہم معلومات تصاویر اور ماڈلز سمیت ڈسپلے کی گئی ہیں۔ اور آخر میں ''ڈسکور پاکستان'' کے نام سے ایک دیوار بنائی گئی ہے جہاں پاکستان کی علاقائی ثقافت کے رنگوں کو بکھیرا گیا ہے۔ یہاں آپ پورے پاکستان کی خوشبو اپنے اندر اتار سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک مجسمہ گیلری بھی ہے جہاں نصف گولائی میں قیامِ پاکستان کے اہم رہنماؤں کے سفید مجسمے رکھے گئے ہیں۔


کسی بھی وزیٹر کے لیئے پہلی بار اتنی معلومات یک دم نگلنا کچھ مشکل ہوتا ہے اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہاں باخبر گائیڈز رکھے گئے ہیں جو آپ کو ہر گیلری کے بارے میں چید چیدہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ زیادہ تر مختلف یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلباء ہیں۔
یہ اپنی طرز کا پہلا پاکستانی میوزیم ہے جہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے مدد لی گئی ہے۔

اسکی سب سے اہم خاصیت یہی ہے کہ یہاں آپ نہ صرف نمائش کے لیئے رکھے گئے نوادرت، اہم تحریریں و معاہدے اور تصاویر دیکھ سکتے ہیں بلکہ انکی تاریخ اور انکے ذرائع ( جہاں سے حاصل کئے گئے ہیں ) کے بارے میں مختلف آڈیو ویڈیوز سے بھی جان سکتے ہیں جو خود بہت نادر ہیں ۔ یہاں قائد اعظم کی اہم تقاریر، مختلف اہم نوعیت کے پیغامات، ریڈیو پاکستان کی پہلی اناؤنسمنٹ اور مشہور فلمی گانوں کو سُنا بھی جا سکتا ہے۔

ذرا سوچیں، آپ ایک پرانا ٹیلی فون اٹھاتے ہیں اور محمد علی جناح کی بارعب آواز آپ کو سنائی دیتی ہے ، کتنا یادگار تجربہ ہے نا یہ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ اس سے بہتر طریقے سے محفوظ ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
٭٭اہم خصوصیات٭٭
٭ پاکستان کا پہلا ڈیجیٹل میوزیم جو  35000 سکوائر فٹ پر محیط ہے۔
٭ 8700 سے زیادہ ڈیجیٹل تصاویر۔


٭تاریخی ڈاکومینٹریز کے لیئے ایک سینما ہال۔
٭ڈیجیٹل کوریڈورز کی مدد سے تاریخ کا ایک خوبصورت سفر۔
٭پاکستان کے پہلے جاری کئے جانے والے پاسپورٹ کی یادگار۔
٭قائد اعظم اور گاندھی کے تاریخی خطوط ۔
٭اور ان تمام اہم معلومات کا وائی فائی کے ذریعے آپ کے لیپ ٹاپ/یو ایس بی میں ٹرانسفر
تو اب جب بھی لاہور کی سیر کو جائیں نیشنل ہسٹری میوزیم کو سرِ فہرست رکھیں۔
پھر کب جا رہے ہیں آپ؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

ajaib gharoon ki dunya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 September 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.